لالوکھیت گجر نالہ کا پل اترتے ہی ناظم آباد کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے۔ الٹے ہاتھ پر ایک سرکاری بلڈنگ ہے جہاں برتھ اور ڈیتھ سرٹیفیکیٹ وغیرہ بنتے تھے۔ آج کل یہ بلڈنگ ویران سی نظر آتی ہے۔ جانے اس میں کیا ہورہا یا کیا نہیں ہورہا ہے۔ خیر لالوکھیت کا یہ پل اترتے ہی سیدھے ہاتھ پر گلی میں مڑ جائیں تو اس وقت کا ناظم آباد کا پوش ایریا شروع ہوجاتا ہے، جہاں چار سو گز کے بڑے بڑے بنگلے ہیں۔ یہاں ہم نے بچپن کا کچھ حصہ گزارا ہے۔ ساتویں جماعت میں تھے تو گلشن اقبال آگئے۔
جب تک وہاں رہے لالو کھیت بہت گھومے۔ کبھی رات کو چھوٹے ماموں کے ساتھ ٹہلتے ہوئے نکلتے اور لالوکھیت کا پل شروع ہونے سے ذرا پہلے الٹے ہاتھ پر جو ارم بیکری ہے وہاں سے چھوٹے ماموں ناشتہ کی اشیاء خریدتے اور ہم چٹور پنے کی۔ رمضان میں سحری کھائی، فجر کی نماز پڑھی اور دوستوں کے ساتھ دس نمبر کی بڑی ساری چورنگی پر سورج نکلنے تک کرکٹ دیکھتے رہے۔ کھیلتے اس لیے نہیں تھے کہ بڑے لڑکے کھیلتے تھے اور ہم اپنے ہم عمروں کے ساتھ ان کے کھیل کے رنگ میں بھنگ ڈالتے تھے، ڈانٹنے ڈپٹنے پر کچھ دیر چپکے ہوکے بیٹھ جاتے اور انہیں کھیلتے دیکھتے۔ بچپن کے دن تھے روزے نہیں رکھتے تھے لہٰذا گھر جاکے ناشتہ کرتے۔پھر سوجاتے تھے یا اسکول جاتے تھے اب یہ یاد نہیں۔
دس نمبر پر فرنیچر مارکیٹ کے سامنے کچا فٹ پاتھ تھا۔ وہاں لائن سے لکڑی کے کیبن بنے ہوئے تھے۔ چورنگی سے گنیں تو سب سے پہلے کیبن پر دوپہر کے وقت بڑی سی کڑھائی میں ایک آدمی براؤن سے کلر کا ماوا بھونتا تھا۔ اس کی خوشبو اتنی اشتہاء انگیز تھی کہ رکے بغیر نہیں رہا جاتا۔ پہلے تو کافی دیر کھڑے تماشہ دیکھتے اور خوشبو سونگھتے، پھر جب وہ گرما گرم ماوے کو گول پیڑے کی شکل دے کر چینی کے پاؤڈر سے لتھڑ دیتا تو کم از کم ایک پیڑا خریدتے۔ یہ خاص قسم کا پیڑا بدایوں کے پیڑے کے نام سے مشہور تھا۔ افسوس اب نہ وہاں کیبن رہے نہ پیڑے۔
نیرنگ سنیما کے سامنے ایک گھنا درخت تھا۔ اس درخت کے نیچے نیوز پیپر کا اسٹال تھا۔ ہمیں اس اسٹال سے اس لیے دلچسپی تھی کہ وہاں اشتیاق احمد کے ناولز ملتے تھے۔ بعض اوقات خاص نمبر حاصل کرنے کے لیے بار بار چکر لگاتے اور ہر بار ٹہلادئیے جاتے کہ ابھی نہیں آیا۔ اس درخت سے دس نمبر کی طرف جائیں تو کیفے دولت سے پہلے دہلی مطب پر ایک بہت بوڑھے حکیم صاحب بیٹھتے تھے۔ ان کی وضع قطع دیکھ کر قدیم زمانے کے دہلی و لکھنؤ کے لوگ ذہن میں آجاتے۔ نانا اکثر گھر والوں کو انہیں ہی دکھاتے تھے۔ ایک بار ہمیں ہلکا ہلکا بخار ہوا، نانا حکیم صاحب کے پاس لے گئے۔ انہوں نے نبض چیک کی، آنکھیں دیکھیں اور نانا سے کہا بچہ کو دو تین دن میں خسرہ ہوجائے گی۔ نانا نے ان سے خمیرہ لیا اور گھر آگئے۔ اب ہم دن میں کئی بار آئینہ کے سامنے کھڑے ہوکر اپنا آپ دیکھتے کہ خسرہ نکلی کہ نہیں۔ آخر کار تیسرے روز ایسی شدید خسرہ نکلی کہ سارے گھر کو ایک پیر پہ کھڑا کردیا۔
عید بقرہ عید پر کیفے دولت میں اپنے سے بھی چھوٹے کزنز کو جمع کرکے لے جاتے اور کولڈ ڈرنکس وغیرہ پلا کے اپنی امارت کا رعب جماتے۔
کیفے دولت سے ٓاگے بلال مسجد ہے۔ اس سے تھوڑا اور آگے جائیں تو سیدھے ہاتھ پر کارنر کے ایک مکان میں ڈاکٹر انصاری صاحب کا کلینک تھا۔ سفید ریش اور خوش گفتار۔ آدھا مرض ان کی مسکراہٹ دیکھ کر چلا جاتا تھا، باقی مرض بھگانے کے لیے گولیاں اور مکسچر دے دیتے تھے۔
اچھی شاپنگ تو طارق روڈ سے کی جاتی تھی لیکن روز مرہ استعمال کی گھریلو اشیاء کی خریداری کے لیے لالو کھیت کا بازار نزدیک تھا جہاں عام استعمال کی ساری اشیاء ایک جگہ مل جاتی تھیں۔ اکثر رشتہ دار یہاں سے خریداری کرنے کے بعد نانی سے ملنا ضروری سمجھتے تھے۔ یوں ہمارے گھر ہر وقت مہمان داری رہتی تھی۔
فردوس سینما کے بالکل برابر گلی میں پنساریوں، خشک میوؤں اور پان والوں کی دکانیں ہیں۔ نانی کے پاندان کا پیٹ بھرنے کے سارے لوازمات اور نانا کا حقہ گڑگڑانے کا تمباکو یہاں سے خریدا جاتا تھا۔ خشک میوے بھی اکثر یہیں سے لیے جاتے تھے۔ اس گلی سے باہر مین روڈ پر چند قدم کے فاصلہ سے پیلی بھیت آئل ڈپو نامی ایک بلڈنگ ہے۔ گھر کے لیے خوردنی گھی تیل بڑی مقدار میں یہاں سے لیا جاتا تھا۔ چند قدم آگے اور بڑھیں تو صرافہ بازار ہے۔ یہ اماں اور نانی کی من پسند جگہ تھی۔ کپڑوں پر لگنے والے گوٹے جو سونے کے ہوتے تھے وہ اولڈ فیشنڈ ہونے پر دونوں ماں بیٹی یہیں بیچنے آتی تھیں۔
ڈاک خانہ سے ذرا پہلے بڑی سی نایاب مسجد کے برابر میں اسلامی کتابوں کی دوکانیں تھیں۔ ایک بار ہم نے وہاں جاکر پوچھا صحیح بخاری ہے؟ دوکان والے نے کہا کھانا کھانے گئے ہیں۔ ہائیں؟؟؟ ہم ہکا بکا رہ گئے۔ صحیح بخاری کا کھانے سے کیا تعلق؟ ہم جو ذرا زور سے بولے تو وہ تھوڑا جھینپ گیا، کہنے لگا سوری، میں سمجھا آپ سعید بخاری کا پوچھ رہے ہیں۔
ڈاک خانہ والی روڈ سے گولیمار کی طرف جائیں تو الٹے ہاتھ پر اندر کہیں شناختی کارڈ کا آفس تھا۔ غالباً اس جگہ کا نام فردوس کالونی ہے۔ ہم نے اپنی زندگی کا
پہلا شناختی کارڈ وہیں سے بنوایا تھا۔
ہر بار سردیوں میں جوش اٹھتا تو لالوکھیت بازار میں موجود سفید رنگ کی بڑی بلڈنگ کے آخر میں گلی کے اندر پرندہ مارکیٹ سے مرغی کے چوزے لے آتے۔ کبھی اتوار بازار والی جانور مارکیٹ جاتے اور بکرے اور مرغی کے چوزے لے آتے۔ بکرا ذبح ہوجاتا اور چوزے چند دن بعد اپنی موت آپ مر جاتے۔ ایک بار طوطے کا بچہ لے آئے۔ وہ نہ ذبح ہوا نہ اپنی موت آپ مرا۔ بلکہ اس دوران میاں مٹھو بولنا سیکھ گیا۔ اس کی طویل عمری اماں کو پریشان کرنے لگی۔ کیوں کہ ہم نے تو چند دن بعد پنجرہ کی صفائی سے ہاتھ کھینچ لیا تھا، کچھ عرصہ بعد اماں بھی گھبرانے لگیں۔ بقول ان کے تم لوگ ہی پل جاؤ بڑی بات ہے۔ جب طوطے کے پر نکال آئے تو اماں نے پنجرہ کھول کے اڑا دیا۔ وہ بھی پلٹ کے واپس نہ آیا۔ طوطا چشم کہیں کا!!!