اگر تلخ سوال پوچھے ہی جا رہے ہیں تو کچھ اور تلخ سوال بھی پوچھے جا سکتے ہیں، جیسے کہ۔۔
کیا غازی برادران کے والد عبداللہ پوری عمر فرقہ واریت پھیلانے میں مصروف نہیں رہے اور کیا ان کے صاحبزادوں نے ان کے اس مشن کو آگے جاری نہیں رکھا؟
ا۔
یہ بات بھی عام قیاس ہے کہ ان بھائیوں کے والد عبداللہ کو کسی شیعہ انتہاپسند نے قتل کیا کیونکہ یہ صاحب شیعوں کی مخالف تنظیموں میں کافی ایکٹو تھے۔
لگتا ہے پاکستان میں ”آئیین“ اور ”قانون“ نام کی کسی چیز کا کوئی ”وجود“ نھیں ہے ، اس لئے کہ جب مفتی عبداللہ صاحب اپنی زندگی بھر فرقہ واریت جیسے ”جرم“ کا ” ارتکاب“ کرتے رہے ، حتی کہ ”پوری دنیا “ کو اس کی ”خبر“ ہوگئی ، ”پوری دنیا “ میں ”رکریا اور نبیل صاحبان“ شامل ہیں ، اور نہ صرف ”خبر“ ہوگئی بلکہ ”یقین “ بھی آگیا ، جس کا نتیجہ مذکورہ اقتباسات میں صادر ہوئے ”فیصلوں “ کی صورت میں آپ دیکھ رہے ہیں،
اب ہمیں یہ تو پتہ نھیں کہ مفتی عبداللہ صاحب کے خلاف اس سلسلہ میں پاکستانی عدالتوں میں کوئی ”مقدمہ “ دائر بھی کیا گیا یا نھیں ،اور آیا انھیں اس سلسلہ میں کوئی”سزا“ سنائی گئی یا نھیں ، لیکن اتنا ضرور پتہ ہے کہ انھیں نہ صرف ”سزائے موت “ سنائی گئی بلکہ اس پر ” عمل “ بھی کیا گیا ، یہ اور بات ہے کہ یہ سزائے موت کسی پاکستانی عدالت نے کم از کم نھیں سنائی ، یہ سب ”ماورائے عدالت “ہوا ہے ،
صرف ”چھرے“ بدلے ہیں اور کچھ نھیں بدلا ہے ، مفتی عبد اللہ صاحب کے فرزند مولانا عبد الرشید غازی شھید علیہ الرحمۃ اور ان کے ”حمایتی طلباء اور طالبات “ کو بھی ان کے ”جرائم “ کی بنا پر ”سزائے موت“ سنائی گئی اور اس کو سنگ دلی سے ”عمل “ میں لایا بھی گیا ، مگر یہ بھی ”ماورائے عدالت “ ہوا ،
فرق یہ ہے کہ پھلے قتل میں ایک ”فرد“ ملوث تھا اور اس دوسرے ”قتل عام “ میں پوری ”ریاست“
جب پاکستان میں ”جس کی لاٹھی اس کی بھینس“ والا ”قانون “ عملا رائج ہے تو میرے خیال میں ”خود کش حملے “ بھی اسی کی ایک ”شکل “ ہے ؛ ممکن ہے وہ بھی اپنے ”فیصلوں “ اور اپنے ”قانون “ پر عمل کررہے ہوں، اپنے ”فیصلوں “ کو ثابت کرنے کے لئے ”دلفریب نعرے “ اور ”دلکش الفاظ “ تو ہر ایک کے پاس ہیں ،
نبیل صاحب سے میں یھی درخواست کرونگا کہ کسی پر کسی ”جرم “ کا ”فیصلہ “ کرنے سے پھلے ”سنی سنائی بات“ پر اعتماد کرنے کی بجائے ”تحقیق“ بھی کرلیا کریں ، اور ”تحقیق“ کے بعد اگر ”ثابت “ بھی ہو تو ”فیصلوں “ اور ”سزاؤں “ کو عدالتوں کے لئے چھوڑ دیں ،
حق کے علمبردارو !
خوب حقِ فرض شناسی نبھا رہے ہو
جانے والے راہ حق کے مسافر تھے
یا راستہ بھولے ہوئے راہی
تم کہاں کے منصف ہو جو فیصلے سنا رہے ہو؟