محب علوی
مدیر
ظفری نے کہا:یہی بات سب پر لاگو ہوتی ہے کہ معاملے کو سنجیدگی سے دیکھیں اور طنز کے تیر نہ برسائیں جائیں ۔
اور محب یہ کیا بات کہی تم نے کہ ۔۔۔۔ ؟ بات لال مسجد کی نہیں بلکہ حکومتی طرزِ عمل کی ہو رہی ہے ۔ اگر معاملہ دو فریقوں میں ہے تو دونوں فریقوں کی ہی بات کی جائے گی ۔ ناکہ کسی ایک فریق کو تمام جوابداری سے مستسنیٰ قرار دیا جائے گا ۔ !
اور رہی بات میڈیا کی تو یہاں بھی وہی میڈیا دیکھاجارہا ہے جو آپ لوگ دیکھ رہے ہیں ۔ جن میں جیو ، اے آر وائی ، اور پی ٹی وی بھی شامل ہے ۔ اور اسی جیو کے ایک پروگرام کپیٹل ٹاک میں حامد میر لال مسجد میں وہاں کے امام ساتھ بیٹھا ہوا تھا ۔ جن میں لال مسجد کے سب سے بڑے امام ( جن کی خواہش پر ان کا چہرہ دکھایا نہیں جا رہا تھا ) ان کا کہنا یہ تھا جب تک پاکستان میں اسلام کا مکمل نفاذ نہیں ہوجاتا ہے ۔ اس وقت تک وہ کہیں سے بھی کسی قسم کا قبضہ نہیں چھوڑیں گے اور نہ ہی اپنے کسی موقف سے پیچھے ہٹیں گے ۔ اس پر حامد میر نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ آپ کبھی یہ قبضہ نہیں چھوڑیں گے ۔
بالکل صحیح کہہ رہے ہو کہ سب پر یہ بات لاگو ہوتی ہے اس لیے ہی تو کی ہے بھائی
لال مسجد والوں کا اقدام غلط ہے اس پر تو اتفاق ہے اس لیے میں نے کہا کہ حکومتی طرز عمل کیا ہے کیونکہ حکومت کی ذمہ داری اور وسائل زیادہ ہیں باقی لال مسجد والوں کی حمایت کوئی نہیں کر رہا مگر ان کی طرف سے اٹھائے گئے چند نکات کی حمایت ضرور ہے جو واقعی حقیقی ہیں جن میں ایجنسیوں کا بندوں کو اٹھانا ہے۔ لال مسجد والوں کی رکنیت تو وفاق المدارس نے بھی ختم کر دی ہے اور ایم ایم اے نے بھی ان کے اقدامات کی تردید کی ہے بات معاملہ کو صحیح طریقے سے سنبھالنے کی ہے جو لال مسجد والوں سے تو نہیں سنبھل رہا اور ان کی ضد تو ثابت ہوچکی ہے مگر حکومت سے دانش مندی کی توقع تھی جو پوری نہیں ہوئی۔ میں یہی کہہ رہا ہوں کہ غلطیاں دونوں طرف کی بتائی جائیں نہ کہ دو گروپ بنا کر ایک گروپ دوسرے کی غلطیاں بتاتا رہے اور یوں محسوس ہو جیسے ایک طرف بالکل درست معاملہ ہے دوسری طرف بالکل غلط
دونوں کی ہی نااہلیاں اور کارستانیاں دکھائیں جائیں ۔ دونوں کی ہی بتائیں جائیں ۔ مگر یہ کہنا کہ لال مسجد کی بات نہیں کرو صرف حکومت کی ٹانگ گھسیٹو تو یہ سراسر ناانصافی ہوگی ۔
میں پوری طرح متفق ہوں اور اس وقت تو بڑے دنوں کے بعد حکومت کے حق میں بہت باتیں ہو رہی ہیں مگر کچھ نااہلیوں اور غلطیوں کی طرف اشارہ بھی بہت ضروری ہے۔
اگر چینی باشندوں کے اغوا کو اس تصویر میں فٹ کیا جائے تو یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ امن اور شانتی کے درس دینے والے مذہب کے پیروکار امن اور سلامتی کےسبق کوآگے بڑھانے میں اتنے آگئے بڑھ گئے ہیں کہ قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینا اور کسی اور کی زندگیوں کو داؤ پر لگانا ان کے لیئے معمول کا عمل ہے ۔ کیا اس قسم کے واقعات میں انسانیت کا کوئی عمل ودخل لاگو نہیں ہوتا ۔ اس پر تو فضل الرحمن بھی کہہ اٹھے کہ اگر چین نے بھی ساتھ چھوڑ دیا تو ہم تنہا رہ جائیں گے ۔ ( یہ تو انتہا پسندی اور خود پسندی کی انتہا ہے )
چینیوں کو اغوا ہوئے کتنے دن ہوگئے ہیں اور اس پر حکومت نے کوئی مذاکرات کیے یا ان کو چھوڑانے کے لیے کوئی عملی قدم اٹھایا۔ اس کے علاوہ سب سے بنیادی سوال چھ ماہ سے حکومت کس شے کے انتظار میں تھی؟ ہم مذاکرات کریں گے اور اب ایک دم بغیر کوئی وارننگ دیے آپریشن شروع کر دیا گیاہے ، مقامی آبادی بھی محصور ہو کر رہ گئی ہے اور لال مسجد والوں پر بھی ابھی تک قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔ چند رینجرز کی گاڑیاں ہیں اور مسلسل شیلنگ ، کوئی خاص حکمت عملی نظر نہیں آتی ہے کہ کیسے جامعہ حفصہ اور لال مسجد میں گھس کر کنٹرول حاصل کیا جائے۔
آخر آپریشن کے لیے اچھی منصوبہ بندی اور تیاری بھی تو ضروری تھی یا نہیں۔