ملک بھر میں طلبہ یکجہتی مارچ
ویب ڈیسک |
عمران گبول |
طوبی مسعود |
غالب نہاداپ ڈیٹ 29 نومبر 2019
Facebook Count56
Twitter Share
0
PSC@PSCollective_
https://twitter.com/PSCollective_/status/1200224316396318722
Final locations of
#StudentsSolidarityMarch organised by Students Action Committee today.
Lahore
Istanbul Chowk to Punjab Assembly
2.00 pm
Islamabad
Press Club to D-Chowk
2.00 pm
Rawlakot
A) Degree college to Zaheer Chowk
10.30 am
B) Poonch University to Main Road
11.00 am
317
6:25 AM - Nov 29, 2019
Twitter Ads info and privacy
196 people are talking about this
ملک کے کچھ مقامات پر یہ مارچ صبح کے وقت میں شروع ہوا جبکہ دیگر شہروں میں اس کے آغاز کا وقت سہ پہر تھا۔
مارچ کے شرکا نے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے —فوٹو: طوبیٰ مسعود
کراچی
کراچی میں بھی طلبہ یکجہتی مارچ کا انعقاد کیا جارہا ہے، ریگل چوک صدر سے کراچی پریس کلب تک اس مارچ میں طلبہ سمیت سول سوسائٹی کے اراکین محمد حنیف، جبران ناصر اور دیگر شریک ہیں۔
مظاہرین نے ایٹریم مال کے بالمقابل فاطمہ جناح روڈ سے مارچ شروع کیا تو دکانداروں نے شٹر گرانا شروع کردیے، جس کے بعد مارچ اپنے راستے سے ہوتا ہوا کراچی پریس کلب پہنچ گیا۔
مارچ میں شریک طلبہ کی جانب سے 'ہم کیا چاہتے؟ آزادی!" کے نعرے لگائے گئے۔
اس موقع پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے جبران ناصر نے کہا کہ 'میں ہمارے مستقبل کی حمایت کے لیے باہر نکلا ہوں، طلبہ ہمارا مستقبل ہیں اور ہمیں یہ احساس کرنا چاہیے کہ اگر ہم ماضی کے کارناموں پر روشنی ڈالتے رہے تو ہمارا مستقبل کبھی روشن نہیں ہوگا'۔
جبران ناصر کا کہنا تھا کہ 'ملک میں جو حقیقی اور نئی قیادت آتی ہے وہ آبپارا اور پنڈی کے راستوں کے ذریعے نہیں آئے گی بلکہ کالجز اور یونیورسٹیز سے آئے گی'۔
کراچی میں ہونے والے مارچ میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طلبہ بھی شریک ہوئے اور انہوں نے مبینہ طور پر طلبہ کو ہراساں کرنے میں ملوث ہونے پر بلوچستان یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا۔
#StudentsSolidartyMarch@SindhiBeing
https://twitter.com/SindhiBeing/status/1200393450274873345
#StudentsSolidarityMarch in Karachi Press Club...
پا بہ جولان چلو مست و رقصاں چلو
https://twitter.com/intent/like?tweet_id=1200393450274873345
5:37 PM - Nov 29, 2019
Twitter Ads info and privacy
See #StudentsSolidartyMarch's other Tweets
اسی طرح گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے طلبہ بھی مارچ میں شریک ہوئے اور انہوں نے علاقے میں سہولیات کی کمی اور ہائر ایجوکیشن پر توجہ دینے کا مطالبہ کیا۔
اس حوالے سے ایک شریک طالبعلم کا کہنا تھا کہ 'گلگت بلتستان میں صرف ایک یونیورسٹی ہے اور وہ بھی غیرمعیاری ہے، ہم وہاں پڑھ نہیں سکتے اور اسے وجہ سے ہمیں کراچی آنا پڑا'۔
مارچ میں شامل شہر کی نجی جامعات کے طلبہ کا کہنا تھا کہ وہ 'کیمپس میں قیمتیں بڑھنے، ڈریس کوڈ اور ہراساں کرنے پر' احتجاج کر رہے ہیں۔
لاہور
اس کے علاوہ صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں طلبہ یکجہتی مارچ میں شرکت کرنے کے ناصر باغ میں جمع ہوئے اور وہاں سے پنجاب اسمبلی کی طرف مارچ کیا۔
پنجاب اسمبلی کے باہر مظاہرے کا منظر — فوٹو: عمران گبول
پنجاب اسمبلی کے باہر مظاہرے کا منظر — فوٹو: عمران گبول
پشاور
خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں طلبہ اور سول سوسائٹی کے اراکین نے پشاور پریس کلب سے احتجاجی ریلی نکالی اور صوبائی اسمبلی پہنچ کر شرکا پرامن طور پر منتشر ہوگئے۔
Aima Khosa@aimaMK
https://twitter.com/aimaMK/status/1200348666151809024
Scenes from
#StudentsSolidarityMarch coming in. This is Peshawar
547
2:39 PM - Nov 29, 2019
Twitter Ads info and privacy
164 people are talking about this
کوئٹہ
بلوچستان یونیورسٹی سمیت مختلف جامعات میں طلبہ تنظیموں پر سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے پابندی کے خلاف اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے زیر اہتمام کوئٹہ میں احتجاجی ریلی نکالی گئی۔
احتجاجی ریلی میں مختلف طلبہ تنظیموں کے رہنماؤں اور کارکنوں نے شرکت کی۔
ریلی کا آغاز بلدیہ لان سے ہوا اور شرکا مختلف شاہراہوں سے ہوتے ہوئے واپس بلدیہ لان پہنچے جہاں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔
ریلی کے شرکا نے مختلف جامعات میں طلبہ تنظیموں پر پابندی کی شدید مذمت کرتے ہوئے فیصلے کو واپس لینے کا مطالبہ کیا۔
مارچ کے شرکا کی حمایت کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی ٹوئٹ کی۔
اپنی ٹوئٹ میں بلاول بھٹو زرداری نے لکھا کہ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ طلبہ یونین کی حمایت کی ہے، شہید محترمہ بیظیر بھٹو کی جانب سے طلبہ یونین کی بحالی کے اقدام کو جان بوجھ کر معاشرے کو ناکارہ بنانے کے لیے کالعدم کیا گیا۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے لکھا کہ آج طلبہ، یونینز کی بحالی، پڑھنے کے حق پر عمل درآمد، سرکاری جامعات کی نجکاری کے خاتمے، جنسی ہراسانی کے قانون کے نفاذ، طلبہ کی رہائش اور کمپسز کے ڈی ملیٹرائزیشن کے لیے طلبہ یکجہتی مارچ میں شریک ہورہے ہیں۔
BilawalBhuttoZardari
✔@BBhuttoZardari
https://twitter.com/BBhuttoZardari/status/1200333153434587136
The PPP has always supported Student unions. The restoration of student unions by SMBB was purposely undone to depoliticize society. Today students are marching in the
#StudentSolidarityMarch for the restoration of unions, implementation of right to education, 1/2
2,156
1:38 PM - Nov 29, 2019
Twitter Ads info and privacy
1,027 people are talking about this
اپنے ایک اور ٹوئٹ میں ان کا کہنا تھا کہ 'طلبہ کی نئی نسل کی جانب سے پرامن جمہوری عمل کے لیے سرگرمی کا جذبہ اور تڑپ واقعی متاثر کن ہے۔
اس سے قبل ملک بھر میں پی ایس سی اور دیگر تنظیموں کی جانب سے طلبہ یونین کی بحالی اور دیگر مطالبات کے لیے قومی سطح پر ایک (اسٹوڈنٹ ایکشن کمیٹی) قائم کی گئی تھی۔
پنجاب، سندھ، بلوچستان، گلگت بلتستان، خیبرپختونخوا، آزاد کشمیر سے طلبہ تنظیموں کے نمائندے اس ایکشن کمیٹی کا حصہ ہیں۔
اسٹوڈنٹ ایکشن کمیٹی کی جانب سے اپنے مارچ کے انتظامات کے لیے گزشتہ 3 ہفتوں سے سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں کارنر میٹنگ کا انعقاد کیا جارہا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے طلبہ کو مایوس کیا اور بے سمت چھوڑ دیا ہے اور ہائر ایجوکیشن بجٹ کو تقریباً نصف تک کم کردیا ہے جبکہ پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں لے آئی ہے جہاں تعلیم پر بہت کم رقم خرچ کیا جاتا ہے۔
طلبہ مختلف مطالبات لیے سڑکوں پر نکل آئے —فوٹو: عمران گبول
اس حوالے سے بیکن ہاؤس نیشنل یونیورسٹی لاہور سے جرنلزم میں گریجویشن کرنے والے اور اس ایونٹ کے منتظمین میں سے ایک حیدر کلیم کا کہنا تھا کہ 'ہمیں سڑکوں پر آنے کے لیے مجبور کرنے کی وجہ وہ حلف نامہ ہے جس پر داخلے کے وقت ہر طلبہ کو دستخط کرنا ہوتے ہیں، بنیادی طور پر طلبہ یونین پر کوئی پابندی نہیں لیکن کچھ مخصوص احکامات کے ذریعے پابندیاں عائد ہیں لہٰذا طلبہ کیمپس میں مظاہرے یا سیاست میں حصہ نہیں لے سکتے'۔
پروگریسو اسٹوڈنٹس فیڈریشن (پی آر ایس ایف) اور پی ایس سی کے منتظم حیدر کلیم کا یہ بھی کہنا تھا کہ مارچ کے شرکا کے بہت سے مطالبات میں سے ایک یہ ہے کہ ان پابندیوں کو ہٹایا جائے جس نے طلبہ کو یونینز بنانے سے روکا ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس حلف نامے کو لاہور ہائی کورٹ میں بھی چیلنج کیا جارہا تھا لیکن وہاں اس معاملے کے حل ہونے کی کم امید تھی۔
کراچی کی ریگل چوک سے پریس کلب تک ہونے والے اس مارچ میں شامل ایک پولیٹیکل سائنس کے طالبعلم نے ڈان کو بتایا کہ بنیادی طور پر ہمارے 10 مطالبات ہیں لیکن ہر صوبے یا یونٹ کی جانب سے ضرورت کے مطابق فہرست میں مزید اضافہ کیا گیا۔
اس مارچ سے قبل بین الاقوامی جامعات میں پڑھنے والے کچھ پاکستانی طلبہ لیڈرز نے مارچ کی حمایت میں آواز بلند کی تھی۔