لاہوری برگر بچے، انقلاب اور لڑکی کی لیدر جیکٹ

دراصل ان نعروں پر تنقید کرنے والے پڑھے لکھے نہ ہونے کی وجہ سے ذلیل ہو گئے اور 'لیدر جیکٹ، برگر اور ممی ڈیڈی بچے' وغیرہ کہتے رہے جو کہ انہی کے لیول کی اصطلاحیں ہیں، حالانکہ شاید وہ کہنا یہ چاہتے تھے اگر یہ بورژوا کو للکار رہے ہیں تو یہ خود کہاں کے پرولتاری ہیں؟

'ایشیا سرخ ہے' حوالے سے لمز کا نام بھی سامنے آیا یا ایسے ہی کالجز کا، پرولتاریہ کا بچہ کہاں یہاں ہوتا ہے؟ اول تو وہ کالج کا منہ دیکھتے ہی نہیں اور اگر دیکھتے بھی ہیں تو سب سے "نکمے" کالجز کا۔

کیا ایسا نہیں ہے کہ یہ مڈ ل اور اپر مڈل کلاس کے بچے ہیں اور ان کا جوش و خروش قبضہ مافیا کے خلاف ہے، وہ قبضہ مافیا جو سیاسی حوالے سے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر قابض ہے اور معاشی حوالے سے زمین اور زر پر قابض ہے۔ اور یہ دونوں مالک اپنے علاوہ کسی کو آگے آنے نہیں دیتے، حکومتوں اور بیوروکریسی اور دولت پر وہی خاندان قابض ہیں جو تقسیم کے وقت بھی تھے بلکہ اس سے پہلے بھی اور کسی دوسرے کو اس "گروپ" میں گھسنے نہیں دیتے۔
درست۔ کیا ان کا قبضہ مافیا کے خلاف سوچنا صرف اس لیے جرم ٹھہرے کہ یہ خوشحال طبقے سے ہی تعلق رکھتے ہیں؟

ہم نے کہیں اور بھی لکھا تھا کہ سجاد ظہیر ، صاحب زادہ محمود ، رشید جہاں وغیرہ بھی تو خوشحال طبقے سے تھے اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے ممبر بنے؟ کیا امیروں کے بچوں پر درست بات سوچنے کی پابندی ہے؟
 

محمد وارث

لائبریرین
درست۔ کیا ان کا قبضہ مافیا کے خلاف سوچنا صرف اس لیے جرم ٹھہرے کہ یہ خوشحال طبقے سے ہی تعلق رکھتے ہیں؟
بالکل بھی نہیں۔ لیکن میرے نزدیک مسئلہ کچھ اور ہے۔ "سیاپا" کسی اور چیز کا ہے، نام کسی اور چیز کا استعمال ہو رہا ہے۔ مڈل کلاس طبقہ تو بورژوا کا "لے پالک" ہوتا ہے، ان کو پرولتاری کا دکھ نہیں ہے، افسوس صرف اتنا ہے کہ ہم کیوں "مہان" نہیں بنتے۔
 

جاسم محمد

محفلین
درست۔ کیا ان کا قبضہ مافیا کے خلاف سوچنا صرف اس لیے جرم ٹھہرے کہ یہ خوشحال طبقے سے ہی تعلق رکھتے ہیں؟

ہم نے کہیں اور بھی لکھا تھا کہ سجاد ظہیر ، صاحب زادہ محمود ، رشید جہاں وغیرہ بھی تو خوشحال طبقے سے تھے اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے ممبر بنے؟ کیا امیروں کے بچوں پر درست بات سوچنے کی پابندی ہے؟
کمیونزم، سوشل ازم وغیرہ عملی طور پر دنیا کے ثابت شدہ ناکام ترین نظریات میں سے ہیں۔ چین نے ۱۹۴۹ سے ۱۹۷۸ تک کئی کروڑ چینی مروا کر بالآخر سوشل ازم کا تجربہ ترک کر دیا۔ اور ماؤ زتنگ کی وفات کے ساتھ ہی کمیونسٹ قیادت نے ملک میں وسیع پیمانہ پر مارکیٹ ریفارمز کئے۔ جس کی بدولت آج چین دنیا کی دوسری بڑی معاشی قوت ہے۔
۱۹۷۸ سے لے کر ۲۰۱۸ تک ریکارڈ ۸۰ کروڑ چینی غربت کی لکیر سے نکل گئے ہیں۔ پچھلے چند سالوں میں دنیا میں سب سے زیادہ ڈالروں میں ارب پتی چین کے شہری بنے ہیں۔
یہی حال ماضی کے کمیونسٹ سوشلسٹ ویتنام کا رہا ہے۔ امریکہ سے جنگ جیتنے کے باوجود آج وہ ملک سوشل ازم و کمیونزم چھوڑ کر مارکیٹ معیشت پر چل رہا ہے۔
ان واضح تاریخی مثالوں کے باوجود سرخوں کی ڈھٹائی قابل دید ہے۔ وہ ابھی بھی سمجھتے ہیں کہ ان کے تمام مسائل کا حل سوشل ازم ہے۔ ایک ایسا نظریہ جو عملی طور پر کہیں کامیاب نہ ہو سکا وہ پاکستان میں ہو جائے گا؟
 
بالکل بھی نہیں۔ لیکن میرے نزدیک مسئلہ کچھ اور ہے۔ "سیاپا" کسی اور چیز کا ہے، نام کسی اور چیز کا استعمال ہو رہا ہے۔ مڈل کلاس طبقہ تو بورژوا کا "لے پالک" ہوتا ہے، ان کو پرولتاری کا دکھ نہیں ہے، افسوس صرف اتنا ہے کہ ہم کیوں "مہان" نہیں بنتے۔
سر ہمیں تو خوشی اس بات کی ہے کہ ان برگر بچوں کے ذریعے سے ہی سہی، پاکستان میں متبادل بیانیے کی دوبارہ آمد خوش آئیند ہے ورنہ امیر المومنین کے بائیں بازو کے خلاف جہاد کے بعد ایک ہی بیانیہ سن سن کر ہمارا تو جی اوب گیا تھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
بالکل بھی نہیں۔ لیکن میرے نزدیک مسئلہ کچھ اور ہے۔ "سیاپا" کسی اور چیز کا ہے، نام کسی اور چیز کا استعمال ہو رہا ہے۔ مڈل کلاس طبقہ تو بورژوا کا "لے پالک" ہوتا ہے، ان کو پرولتاری کا دکھ نہیں ہے، افسوس صرف اتنا ہے کہ ہم کیوں "مہان" نہیں بنتے۔
آجکل سرخوں کے مارچ کی آڑ میں روایتی فوج مخالف سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ جرنیلوں کو سرخوں کے اجتماع میں سر عام غنڈہ کہا جا رہا ہے۔ اور جب جواب میں ایجسنیاں حرکت کریں تو ملک کے خلاف مزید غلیظ پراپگنڈہ کیا جاتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
سر ہمیں تو خوشی اس بات کی ہے کہ ان برگر بچوں کے ذریعے سے ہی سہی، پاکستان میں متبادل بیانیے کی دوبارہ آمد خوش آئیند ہے ورنہ امیر المومنین کے بائیں بازو کے خلاف جہاد کے بعد ایک ہی بیانیہ سن سن کر ہمارا تو جی اوب گیا تھا۔
امیر المومنین جنرل ضیا الحق نے افغانستان میں سرخوں کو شکست دینے کیلئے مجاہدین بنائے تھے۔ اس کے لئے نظریاتی و مالی امداد سعودیہ اور امریکہ سے آئی۔ ٹریننگ آئی ایس آئی نے دی۔
یوں پاکستان نے افغان جہاد کے ذریعہ سرخوں کو شکست فاش دی۔ اگر پاکستان وہاں امریکہ اور سعودیہ کی ایما پر مداخلت نہ کرتا تو خطے کے حالات یکسر مختلف ہوتے۔
 
کمیونزم، سوشل ازم وغیرہ عملی طور پر دنیا کے ثابت شدہ ناکام ترین نظریات میں سے ہیں۔ چین نے ۱۹۴۹ سے ۱۹۷۸ تک کئی کروڑ چینی مروا کر بالآخر سوشل ازم کا تجربہ ترک کر دیا۔ اور ماؤ زتنگ کی وفات کے ساتھ ہی کمیونسٹ قیادت نے ملک میں وسیع پیمانہ پر مارکیٹ ریفارمز کئے۔ جس کی بدولت آج چین دنیا کی دوسری بڑی معاشی قوت ہے۔
۱۹۷۸ سے لے کر ۲۰۱۸ تک ریکارڈ ۸۰ کروڑ چینی غربت کی لکیر سے نکل گئے ہیں۔ پچھلے چند سالوں میں دنیا میں سب سے زیادہ ڈالروں میں ارب پتی چین کے شہری بنے ہیں۔
یہی حال ماضی کے کمیونسٹ سوشلسٹ ویتنام کا رہا ہے۔ امریکہ سے جنگ جیتنے کے باوجود آج وہ ملک سوشل ازم و کمیونزم چھوڑ کر مارکیٹ معیشت پر چل رہا ہے۔
ان واضح تاریخی مثالوں کے باوجود سرخوں کی ڈھٹائی قابل دید ہے۔ وہ ابھی بھی سمجھتے ہیں کہ ان کے تمام مسائل کا حل سوشل ازم ہے۔ ایک ایسا نظریہ جو عملی طور پر کہیں کامیاب نہ ہو سکا وہ پاکستان میں ہو جائے گا؟
کیا آپ اسلامی نظام کے متعلق بھی یہی آرگومنٹ دیں گے کہ خلافتِ راشدہ کے کامیاب تجربے کے باوجود خود اسلامی دنیا نے اسے تج دیا تو ضرور یہ اس نظام کی ناکامی ہے؟
 

فرقان احمد

محفلین
یہ لہو رنگ تحریک کم از کم لاہور کی حد تک اپنا وجود رکھتی ہے اور پاکستان کے کئی شہروں، اور حتیٰ کہ آزاد کشمیر میں بھی، اس تحریک سے والہانہ لاؤ رکھنے والے افراد موجود ہیں اور یہ ایک متبادل نظام پیش کرنے کے علم بردار ہیں اور سوویت یونین کے زوال کے بعد بھی انہوں نے اپنا قبلہ نہیں بدلا اور دل و جان سے سمجھتے ہیں کہ اس دنیا کی معیشت کو وہ سدھار سکتے ہیں۔ لاہور میں غالباََ ہر سال ہی یہ ایک جگہ جمع ہوتے ہیں تاہم اس مرتبہ انہیں زیادہ ہائی لائیٹ کیا گیا ہے۔ شاید اس کی وجہ وہ لڑکی ہے جو بڑے والہانہ انداز میں فیض کا کلام پڑھ رہی تھی۔ اس تحریک میں جان تو کم ہے، مگر اس لڑکی نے کئی طاقتور عناصر کو ، کم از کم سوشل میڈیا کی حد تک، کہیں نہ کہیں، اندر سے ہلا ضرور دیا ہے۔ یہ عناصر اسے نظرانداز بھی کر سکتے تھے تاہم یہاں جو بھی انہیں للکارے، یہ اپنے ہرکاروں سمیت میدان میں آن موجود ہوتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
کیا آپ اسلامی نظام کے متعلق بھی یہی آرگومنٹ دیں گے کہ خلافتِ راشدہ کے کامیاب تجربے کے باوجود خود اسلامی دنیا نے اسے تج دیا تو ضرور یہ اس نظام کی ناکامی ہے؟
ریاست مدینہ رسول اللہ کی وفات کے تیس سال بعد ختم ہو گئی۔
اکثر کمیونسٹ سوشلسٹ ریاستیں بھی کم و بیش اتنا عرصہ ہی قائم رہ پائیں۔ صرف چین اور ویتنام منفرد کیس ہیں کیونکہ انہوں نے سوشل ازم کی حقیقت آشکار ہونے کے بعد بروقت مارکیٹ ریفارمز کرکے ملک کی سمت درست کر دی تھی۔ وگرنہ یہ بھی دیگر کمیونسٹ سوشلسٹ ریاستوں کی طرح تباہ ہو جاتے۔
49024186-01-EE-40-D2-A919-3809-D3-BE69-D2.jpg
 
ریاست مدینہ رسول اللہ کی وفات کے تیس سال بعد ختم ہو گئی۔
اکثر کمیونسٹ سوشلسٹ ریاستیں بھی کم و بیش اتنا عرصہ ہی قائم رہ پائیں۔ صرف چین اور ویتنام منفرد کیس ہیں کیونکہ انہوں نے سوشل ازم کی حقیقت آشکار ہونے کے بعد بروقت مارکیٹ ریفارمز کرکے ملک کی سمت درست کر دی تھی۔ وگرنہ یہ بھی دیگر کمیونسٹ سوشلسٹ ریاستوں کی طرح تباہ ہو جاتے۔
49024186-01-EE-40-D2-A919-3809-D3-BE69-D2.jpg
کسی بھی نظام کا ایک وقت کے بعد منظرِ عام سے وقتی طور پر ہٹ جانا اس کی مکمل شکست نہیں گردانا جاسکتا۔ موجودہ دور سرمایہ داری کا ہے لیکن یہ اس کی کامیابی کی دلیل نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
اس تحریک سے والہانہ لاؤ رکھنے والے افراد موجود ہیں اور یہ ایک متبادل نظام پیش کرنے کے علم بردار ہیں اور سوویت یونین کے زوال کے بعد بھی انہوں نے اپنا قبلہ نہیں بدلا اور دل و جان سے سمجھتے ہیں کہ اس دنیا کی معیشت کو وہ سدھار سکتے ہیں۔
پس ثابت ہوا کہ پاکستانی واقعی دنیا کی ڈھیٹ ترین قوم ہیں۔ پاکستان کے اردگرد اتنے ممالک ہیں جہاں سوشل ازم، کمیونزم، اسلام ازم مکمل طور پر قوموں کی بربادی مؤجب بنے۔ اور اتنے ہی ملک ہیں جو محض مارکیٹ ریفارمز کرکے عالمی افق پر چھا گئے ہیں۔
اس کے باوجود پوری ڈھٹائی سے عملی طور پر ناکام نظریات کا دفاع اور کامیابی سے ہمکنار کرنے والے مارکیٹ ریفارمز کی سختی سے مخالفت کی جاتی رہی ہے۔
بغض اور حسد کا وہ سفر جو ایوب دور کے ۲۲ امیر صنعتی و تجارتی خاندانوں کے خاتمہ سے شروع ہوا تھا ابھی تک ختم نہیں ہوا۔
 

فرقان احمد

محفلین
پس ثابت ہوا کہ پاکستانی واقعی دنیا کی ڈھیٹ ترین قوم ہیں۔ پاکستان کے اردگرد اتنے ممالک ہیں جہاں سوشل ازم، کمیونزم، اسلام ازم مکمل طور پر قوموں کی بربادی مؤجب بنے۔ اور اتنے ہی ملک ہیں جو محض مارکیٹ ریفارمز کرکے عالمی افق پر چھا گئے ہیں۔
اس کے باوجود پوری ڈھٹائی سے عملی طور پر ناکام نظریات کا دفاع اور کامیابی سے ہمکنار کرنے والے مارکیٹ ریفارمز کی سختی سے مخالفت کی جاتی رہی ہے۔
بغض اور حسد کا وہ سفر جو ایوب دور کے ۲۲ امیر صنعتی و تجارتی خاندانوں کے خاتمہ سے شروع ہوا تھا ابھی تک ختم نہیں ہوا۔
یہ بائیس کروڑ کی آبادی میں سے بائیس سو بھی نہیں ہیں اور آپ پر غشی کے دورے پڑنے شروع ہو گئے۔ کوئی سرخ انقلاب پاکستان میں دستک نہیں دے رہا ہے بلکہ یہاں کسی بھی طرح کے انقلاب کے بپا ہونے کے دُور دُور تک آثار نہیں۔ خدا جانے، آپ کس ٹینشن میں مبتلا ہو گئے! کم از کم انہیں برداشت کرنے کی اہلیت ہی پیدا کر لیجیے سر۔ :)
 
خدا جانے، آپ کس ٹینشن میں مبتلا ہو گئے! کم از کم انہیں برداشت کرنے کی اہلیت ہی پیدا کر لیجیے سر۔
انہیں مخالفت میں ہلکی سی سسکی بھی برداشت نہیں۔ انہیں صرف

Four legs good, two legs bad
ممیانے والے ہی اچھے لگتے ہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
ویسے اس بار جو کسی قدر نیا 'جنون' دیکھنے کو ملا ہے، اور اس اجتماع میں جو ہائر مڈل کلاس یا اپر کلاس کے افراد شامل ہوئے ہیں، وہ خان صاحب کے نیا پاکستان کے نعرے سے بھی کافی حد تک ناامید سے لگتے ہیں؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی غالب اکثریت نے عمران خان صاحب کو ہی ووٹ دیا تھا۔ معلوم نہیں کہ وہ نیا پاکستان سے کیا امیدیں لگائے بیٹھے تھے! :) ہمارے خیال میں، 'نیا پاکستان' کا میک اپ بھی اتر سا گیا ہے۔ جاسم صاحب! کوئی رنگ روغن کروائیے نا!
 

جاسم محمد

محفلین
کسی بھی نظام کا ایک وقت کے بعد منظرِ عام سے وقتی طور پر ہٹ جانا اس کی مکمل شکست نہیں گردانا جاسکتا۔ موجودہ دور سرمایہ داری کا ہے لیکن یہ اس کی کامیابی کی دلیل نہیں۔
جدید سرمایہ دارانہ نظام معروف ماہر اقتصادیات ایڈم سمتھ کی شہرہ آفاق کتاب “قوموں کی دولت” سے ۳۰۰ سال قبل ۱۷۷۶ میں شروع ہوا تھا۔ اس نظام کی مخالفت میں جو نظام لائے گئے وہ اپنے آپ ہی کچھ عرصہ بعد پاش پاش ہو گئے۔
لاتعداد تجربات کے بعد اب آپ کے سامنے قابل عمل سوشل ازم کے تین ماڈل موجود ہیں۔
  1. چین، ویتنام والا سوشلسٹ مارکیٹ معاشی ماڈل
  2. جرمنی والا سوشل مارکیٹ ماڈل
  3. ناروے، سویڈن، ڈنمارک والا جمہوری سوشلسٹ یا نارڈک ماڈل
ان تینوں ماڈلز میں سے دیکھ لیں کونسا پاکستان کے رسم و رواج میں سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے۔ یاد رہے کہ ان میں سے کوئی کوئی بھی ماڈل من و عن سوشلسٹ کمیونسٹ نہیں ہے۔ سب میں کہیں نہ نہیں مارکیٹ ریفارمز یا سرمایہ دارانہ نظام کی آمیزش شامل ہے :)
 

فرقان احمد

محفلین
جدید سرمایہ دارانہ نظام معروف ماہر اقتصادیات ایڈم سمتھ کی شہرہ آفاق کتاب “قوموں کی دولت” سے ۳۰۰ سال قبل ۱۷۷۶ میں شروع ہوا تھا۔ اس نظام کی مخالفت میں جو نظام لائے گئے وہ اپنے آپ ہی کچھ عرصہ بعد پاش پاش ہو گئے۔
لاتعداد تجربات کے بعد اب آپ کے سامنے قابل عمل سوشل ازم کے تین ماڈل موجود ہیں۔
  1. چین، ویتنام والا سوشلسٹ مارکیٹ معاشی ماڈل
  2. جرمنی والا سوشل مارکیٹ ماڈل
  3. ناروے، سویڈن، ڈنمارک والا جمہوری سوشلسٹ یا نارڈک ماڈل
ان تینوں ماڈلز میں سے دیکھ لیں کونسا پاکستان کے رسم و رواج میں سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے۔ یاد رہے کہ ان میں سے کوئی کوئی بھی ماڈل من و عن سوشلسٹ کمیونسٹ نہیں ہے۔ سب میں کہیں نہ نہیں مارکیٹ ریفارمز یا سرمایہ دارانہ نظام کی آمیزش شامل ہے :)
تو آپ کا خیال ہے کہ پاکستان میں کوئی خاص ماڈل لاگو ہو گا یا اس حوالے سے کوئی مقتدر قوت سوچ بچار میں مصروف ہے۔ جناب! پاکستان میں ایک ہی ماڈل چلتا ہے، ڈنگ ٹپاؤ اکنامک سسٹم۔ شاید پوری دنیا اس سے آگاہ نہیں۔ یہ خالصتاََ ہمارا اپنا تشکیل کردہ ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ بائیس کروڑ کی آبادی میں سے بائیس سو بھی نہیں ہیں اور آپ پر غشی کے دورے پڑنے شروع ہو گئے۔ کوئی سرخ انقلاب پاکستان میں دستک نہیں دے رہا ہے بلکہ یہاں کسی بھی طرح کے انقلاب کے بپا ہونے کے دُور دُور تک آثار نہیں۔ خدا جانے، آپ کس ٹینشن میں مبتلا ہو گئے! کم از کم انہیں برداشت کرنے کی اہلیت ہی پیدا کر لیجیے سر۔ :)
بھائی مسئلہ ان سرخوں کی تعداد کا نہیں قوم کا ان کی طرف متوجہ ہونے کا ہے۔ ایک ایسا نظریہ جسے پوری دنیا نے اچھی طرح ٹھوک بجا کر مسترد کر دیا ہو۔ قوم اب اس کی طرف مائل ہونا شروع ہو تو تشویش تو بنتی ہے۔ اور پھر ان سرخوں کی آڑ میں روایتی فوج مخالف پراپگنڈہ جلتی پر تیل کا کام کرتا ہے :)
 

فرقان احمد

محفلین
بھائی مسئلہ ان سرخوں کی تعداد کا نہیں قوم کا ان کی طرف متوجہ ہونے کا ہے۔ ایک ایسا نظریہ جسے پوری دنیا نے اچھی طرح ٹھوک بجا کر مسترد کر دیا ہو۔ قوم اب اس کی طرف مائل ہونا شروع ہو تو تشویش تو بنتی ہے۔ اور پھر ان سرخوں کی آڑ میں روایتی فوج مخالف پراپگنڈہ جلتی پر تیل کا کام کرتا ہے :)
ناروے میں رہ کر صرف سوشل میڈیا سے خبریں پڑھنے سے آپ متاثر ہی ہوں گے۔ ارے بھئی کون سی لیدر جیکٹ، کون سی لہک لہک کر ترانہ پڑھتی لڑکی۔ ہم تو بس فیض کا کلام سُن رہے تھے۔ آپ اس میں سے سرخ سویرا برآمد کر کے لے آئے۔ ذرا یہاں آ کر تو دیکھیے۔ یہاں بس اندھیرا ہی اندھیرا ہے! اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ایک صدا بلند ہوئی تو ہمیں فیض یاد آ گئے! بس اتنی سی بات ہے!
 

جاسم محمد

محفلین
ویسے اس بار جو کسی قدر نیا 'جنون' دیکھنے کو ملا ہے، اور اس اجتماع میں جو ہائر مڈل کلاس یا اپر کلاس کے افراد شامل ہوئے ہیں، وہ خان صاحب کے نیا پاکستان کے نعرے سے بھی کافی حد تک ناامید سے لگتے ہیں؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی غالب اکثریت نے عمران خان صاحب کو ہی ووٹ دیا تھا۔ معلوم نہیں کہ وہ نیا پاکستان سے کیا امیدیں لگائے بیٹھے تھے! :) ہمارے خیال میں، 'نیا پاکستان' کا میک اپ بھی اتر سا گیا ہے۔ جاسم صاحب! کوئی رنگ روغن کروائیے نا!
خان صاحب کو ۲۲ سال گلا پھاڑنے کے بعد صرف حکومت ملی ہے۔ اصل اقتدار آج بھی فوج ہی کے پاس ہے۔ اس محدود اختیار کے ساتھ وہ جو کچھ قوم کیلئے کر سکتے تھے کر رہے ہیں۔ اور یہاں آپ نے صرف ۱۵ ماہ بعد ہی تبدیلی کا میک اتار دیا! پانچ سال پورے تو ہو لینے دیں۔ ویسے بھی اپوزیشن اور اس کا حامی میڈیا پہلے دن سے کہہ رہا ہے کہ حکومت فیل ہے :)
 

فرقان احمد

محفلین
خان صاحب کو ۲۲ سال گلا پھاڑنے کے بعد صرف حکومت ملی ہے۔ اصل اقتدار آج بھی فوج ہی کے پاس ہے۔ اس محدود اختیار کے ساتھ وہ جو کچھ قوم کیلئے کر سکتے تھے کر رہے ہیں۔ اور یہاں آپ نے صرف ۱۵ ماہ بعد ہی تبدیلی کا میک اتار دیا! پانچ سال پورے تو ہو لینے دیں۔ ویسے بھی اپوزیشن اور اس کا حامی میڈیا پہلے دن سے کہہ رہا ہے کہ حکومت فیل ہے :)
ساٹھ ماہ سے پندرہ ماہ تو گزر گئے۔ صاحب! ہم نے تو اپوزیشن کے نام نہاد خود ساختہ ترجمان کی حیثیت سے محض میک اپ اتر جانے کی بات کی تھی۔ یہاں جو اعلیٰ سیاسی روایات رہی ہیں، ان کے تناظر میں ہم کچھ اور بھی تصور کر سکتے تھے۔ دیکھیے! ہم نے تو عوامی مینڈیٹ کا احترام کرنے کی اپنی سی کوشش کی، جو آپ کو ناگوار گزر گئی۔
 
Top