محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
لاہوری برگر بچے، انقلاب اور لڑکی کی لیدر جیکٹ
1
’فیض انٹرنیشنل فیسٹیول‘ نے اتنی شہرت حاصل نہیں کی، جتنی شہرت اسی میلے کے اختتام پر انقلابی گیت گانے والے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے ایک ہجوم کو ملی۔
فیض میلے میں تین دن کے دوران جہاں آرٹ، ادب، فلم، ڈرامہ، شاعری، سیاست اور سماجی مسائل پر بات ہوئی، وہیں نوجوانوں کے مسائل بھی زیر بحث رہے۔
تاہم فیسٹیول کے اختتام پر لاہور کے طلبہ کے ایک گروپ نے وہاں ڈھول کی تھاپ پر انقلابی گیت گایا جو دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان بھر میں بحث کا موضوع بن گیا۔
لاہور کی یونیورسٹیز کے طلبہ و طالبات نے بسمل عظیم آبادی کی شہرہ آفاق نظم ’سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے‘ کو ڈھول کی تھاپ پر گایا۔
https://twitter.com/ShirazHassan/status/1196102270317928450
sarfaroshi kī tamanna ab hamare dil mein hai
dekhna hai zor kitnā baazu-e-qatil mein hai #Lahore #faizfestival2019
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو ارد گرد کے ماحول سے بے خبر اپنی دھن میں ڈھول کی تھاپ پر معروف انقلابی نظم کو گاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
انقلابی گیت گانے والے طلبہ اچھے اور صاف ستھرے لباس میں دکھائی دے رہے ہیں اور ان کا یہی قصور ان کی شہرت کی وجہ اور تنقید کا سبب بھی بنا اور سب سے زیادہ لیدر کی جیکٹ پہننے والی لڑکی تنقید کی زد میں آئی۔
نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی جانب سے انقلابی گیت گائے جانے پر کچھ افراد برہم بھی دکھائی دیے اور انہوں نے سوشل میڈیا پر ’سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے‘ کو گانے والوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
ان پر تنقید کرنے والے زیادہ تر افراد کا یہی کہنا تھا کہ انقلابی گیت گانے والے لاہوری برگر بچے ہیں، وہ سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوئے ہیں، انہیں انقلاب کا کیا پتا یا انہیں انقلاب کی کیا ضرورت؟
کچھ افراد کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ برگر بچے اور انتہائی قیمتی لباس پہننے والے لوگ انقلاب کی باتیں کر رہے ہیں۔
اسی طرح کچھ افراد نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی جانب سے انقلابی گیت گانے پر برہم دکھائی دیے اور کہا کہ اگر کوئی غریب انقلاب کا گیت گاتا تو اچھا لگتا۔
انقلابی گیت گاتے ان نوجوانوں میں سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ لیدر کی جیکٹ پہن کر گیت گانے والی لڑکی بنی اور لوگوں نے کہا کہ 15 ہزار روپے کی جیکٹ پہننے والی انقلاب کی باتیں کر رہی ہیں۔
کچھ افراد نے ان کی لیدر جیکٹ کے حوالے سے کہا کہ انقلاب لیدر جیکٹ پہن کر گیت گانے سے نہیں آتا۔
جہاں کئی لوگوں نے انقلابی گیت گانے والوں پر تنقید کی، وہیں کچھ افراد ان کی حمایت میں بھی آئے اور دلیل دی کہ انقلاب کا تعلق امیری یا غریبی سمیت لیدر کی جیکٹ یا پرانے کپڑوں سے نہیں ہوتا۔
1
’فیض انٹرنیشنل فیسٹیول‘ نے اتنی شہرت حاصل نہیں کی، جتنی شہرت اسی میلے کے اختتام پر انقلابی گیت گانے والے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے ایک ہجوم کو ملی۔
فیض میلے میں تین دن کے دوران جہاں آرٹ، ادب، فلم، ڈرامہ، شاعری، سیاست اور سماجی مسائل پر بات ہوئی، وہیں نوجوانوں کے مسائل بھی زیر بحث رہے۔
تاہم فیسٹیول کے اختتام پر لاہور کے طلبہ کے ایک گروپ نے وہاں ڈھول کی تھاپ پر انقلابی گیت گایا جو دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان بھر میں بحث کا موضوع بن گیا۔
لاہور کی یونیورسٹیز کے طلبہ و طالبات نے بسمل عظیم آبادی کی شہرہ آفاق نظم ’سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے‘ کو ڈھول کی تھاپ پر گایا۔
https://twitter.com/ShirazHassan/status/1196102270317928450
sarfaroshi kī tamanna ab hamare dil mein hai
dekhna hai zor kitnā baazu-e-qatil mein hai #Lahore #faizfestival2019
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو ارد گرد کے ماحول سے بے خبر اپنی دھن میں ڈھول کی تھاپ پر معروف انقلابی نظم کو گاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
انقلابی گیت گانے والے طلبہ اچھے اور صاف ستھرے لباس میں دکھائی دے رہے ہیں اور ان کا یہی قصور ان کی شہرت کی وجہ اور تنقید کا سبب بھی بنا اور سب سے زیادہ لیدر کی جیکٹ پہننے والی لڑکی تنقید کی زد میں آئی۔
نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی جانب سے انقلابی گیت گائے جانے پر کچھ افراد برہم بھی دکھائی دیے اور انہوں نے سوشل میڈیا پر ’سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے‘ کو گانے والوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
ان پر تنقید کرنے والے زیادہ تر افراد کا یہی کہنا تھا کہ انقلابی گیت گانے والے لاہوری برگر بچے ہیں، وہ سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوئے ہیں، انہیں انقلاب کا کیا پتا یا انہیں انقلاب کی کیا ضرورت؟
کچھ افراد کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ برگر بچے اور انتہائی قیمتی لباس پہننے والے لوگ انقلاب کی باتیں کر رہے ہیں۔
اسی طرح کچھ افراد نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی جانب سے انقلابی گیت گانے پر برہم دکھائی دیے اور کہا کہ اگر کوئی غریب انقلاب کا گیت گاتا تو اچھا لگتا۔
انقلابی گیت گاتے ان نوجوانوں میں سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ لیدر کی جیکٹ پہن کر گیت گانے والی لڑکی بنی اور لوگوں نے کہا کہ 15 ہزار روپے کی جیکٹ پہننے والی انقلاب کی باتیں کر رہی ہیں۔
کچھ افراد نے ان کی لیدر جیکٹ کے حوالے سے کہا کہ انقلاب لیدر جیکٹ پہن کر گیت گانے سے نہیں آتا۔
جہاں کئی لوگوں نے انقلابی گیت گانے والوں پر تنقید کی، وہیں کچھ افراد ان کی حمایت میں بھی آئے اور دلیل دی کہ انقلاب کا تعلق امیری یا غریبی سمیت لیدر کی جیکٹ یا پرانے کپڑوں سے نہیں ہوتا۔