لاہوری برگر بچے، انقلاب اور لڑکی کی لیدر جیکٹ

لاہوری برگر بچے، انقلاب اور لڑکی کی لیدر جیکٹ

1
’فیض انٹرنیشنل فیسٹیول‘ نے اتنی شہرت حاصل نہیں کی، جتنی شہرت اسی میلے کے اختتام پر انقلابی گیت گانے والے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے ایک ہجوم کو ملی۔

فیض میلے میں تین دن کے دوران جہاں آرٹ، ادب، فلم، ڈرامہ، شاعری، سیاست اور سماجی مسائل پر بات ہوئی، وہیں نوجوانوں کے مسائل بھی زیر بحث رہے۔

5dd3fb6d11c41.jpg



تاہم فیسٹیول کے اختتام پر لاہور کے طلبہ کے ایک گروپ نے وہاں ڈھول کی تھاپ پر انقلابی گیت گایا جو دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان بھر میں بحث کا موضوع بن گیا۔

لاہور کی یونیورسٹیز کے طلبہ و طالبات نے بسمل عظیم آبادی کی شہرہ آفاق نظم ’سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے‘ کو ڈھول کی تھاپ پر گایا۔



https://twitter.com/ShirazHassan/status/1196102270317928450

sarfaroshi kī tamanna ab hamare dil mein hai
dekhna hai zor kitnā baazu-e-qatil mein hai #Lahore #faizfestival2019




سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو ارد گرد کے ماحول سے بے خبر اپنی دھن میں ڈھول کی تھاپ پر معروف انقلابی نظم کو گاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

5dd3f011cd474.jpg



انقلابی گیت گانے والے طلبہ اچھے اور صاف ستھرے لباس میں دکھائی دے رہے ہیں اور ان کا یہی قصور ان کی شہرت کی وجہ اور تنقید کا سبب بھی بنا اور سب سے زیادہ لیدر کی جیکٹ پہننے والی لڑکی تنقید کی زد میں آئی۔

5dd3e969dbea8.jpg



نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی جانب سے انقلابی گیت گائے جانے پر کچھ افراد برہم بھی دکھائی دیے اور انہوں نے سوشل میڈیا پر ’سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے‘ کو گانے والوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

5dd3ee746a9ed.jpg



ان پر تنقید کرنے والے زیادہ تر افراد کا یہی کہنا تھا کہ انقلابی گیت گانے والے لاہوری برگر بچے ہیں، وہ سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوئے ہیں، انہیں انقلاب کا کیا پتا یا انہیں انقلاب کی کیا ضرورت؟

5dd3e969dbea8.jpg



کچھ افراد کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ برگر بچے اور انتہائی قیمتی لباس پہننے والے لوگ انقلاب کی باتیں کر رہے ہیں۔

اسی طرح کچھ افراد نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی جانب سے انقلابی گیت گانے پر برہم دکھائی دیے اور کہا کہ اگر کوئی غریب انقلاب کا گیت گاتا تو اچھا لگتا۔

5dd3fc4bf309d.jpg



انقلابی گیت گاتے ان نوجوانوں میں سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ لیدر کی جیکٹ پہن کر گیت گانے والی لڑکی بنی اور لوگوں نے کہا کہ 15 ہزار روپے کی جیکٹ پہننے والی انقلاب کی باتیں کر رہی ہیں۔

5dd3fc8ae3667.jpg



کچھ افراد نے ان کی لیدر جیکٹ کے حوالے سے کہا کہ انقلاب لیدر جیکٹ پہن کر گیت گانے سے نہیں آتا۔

جہاں کئی لوگوں نے انقلابی گیت گانے والوں پر تنقید کی، وہیں کچھ افراد ان کی حمایت میں بھی آئے اور دلیل دی کہ انقلاب کا تعلق امیری یا غریبی سمیت لیدر کی جیکٹ یا پرانے کپڑوں سے نہیں ہوتا۔

5dd3fcc5c1fe7.jpg
 

الف نظامی

لائبریرین
برصغیر میں جذباتی نعروں کی ویورشپ زیادہ ہوتی ہے ، جذباتی نعرہ زیادہ بکتا ہے۔
جس طرح اس کلپ میں
جب لال لال لہرائے گا
سرخ ہے سرخ ہے ، ایشیا سرخ ہے

کہا جا رہا ہے بعینہ اسی طرز پر ہندوستان میں
ہر گھر بھگوا چھائے گا
کا بیانیہ ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اجی علم ہے۔ پر سرخے اب خود 'رتے' نہیں رہے اور ہمارے بلونگڑے خوامخواہ ہی شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بنتے پھررہے ہیں۔
سُرخوں نے ایوب کے صنعتی انقلاب سے تعصب اور بغض رکھتے ہوئے 22 امیر خاندان (جن میں آپ کا محبوب نواز شریف بھی شامل تھا) کی صنعتیں ضبط کر کے سرکاری تحویل میں دے دی تھی۔ تب سے یہ ملک ایسا ہی چل رہا ہے جیسا ایوب نے چھوڑا تھا۔
 
لاہوری برگر بچے، انقلاب اور لڑکی کی لیدر جیکٹ

1
’فیض انٹرنیشنل فیسٹیول‘ نے اتنی شہرت حاصل نہیں کی، جتنی شہرت اسی میلے کے اختتام پر انقلابی گیت گانے والے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے ایک ہجوم کو ملی۔

فیض میلے میں تین دن کے دوران جہاں آرٹ، ادب، فلم، ڈرامہ، شاعری، سیاست اور سماجی مسائل پر بات ہوئی، وہیں نوجوانوں کے مسائل بھی زیر بحث رہے۔

5dd3fb6d11c41.jpg



تاہم فیسٹیول کے اختتام پر لاہور کے طلبہ کے ایک گروپ نے وہاں ڈھول کی تھاپ پر انقلابی گیت گایا جو دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان بھر میں بحث کا موضوع بن گیا۔

لاہور کی یونیورسٹیز کے طلبہ و طالبات نے بسمل عظیم آبادی کی شہرہ آفاق نظم ’سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے‘ کو ڈھول کی تھاپ پر گایا۔




sarfaroshi kī tamanna ab hamare dil mein hai
dekhna hai zor kitnā baazu-e-qatil mein hai #Lahore #faizfestival2019




سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو ارد گرد کے ماحول سے بے خبر اپنی دھن میں ڈھول کی تھاپ پر معروف انقلابی نظم کو گاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

5dd3f011cd474.jpg



انقلابی گیت گانے والے طلبہ اچھے اور صاف ستھرے لباس میں دکھائی دے رہے ہیں اور ان کا یہی قصور ان کی شہرت کی وجہ اور تنقید کا سبب بھی بنا اور سب سے زیادہ لیدر کی جیکٹ پہننے والی لڑکی تنقید کی زد میں آئی۔

5dd3e969dbea8.jpg



نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی جانب سے انقلابی گیت گائے جانے پر کچھ افراد برہم بھی دکھائی دیے اور انہوں نے سوشل میڈیا پر ’سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے‘ کو گانے والوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

5dd3ee746a9ed.jpg



ان پر تنقید کرنے والے زیادہ تر افراد کا یہی کہنا تھا کہ انقلابی گیت گانے والے لاہوری برگر بچے ہیں، وہ سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوئے ہیں، انہیں انقلاب کا کیا پتا یا انہیں انقلاب کی کیا ضرورت؟

5dd3e969dbea8.jpg



کچھ افراد کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ برگر بچے اور انتہائی قیمتی لباس پہننے والے لوگ انقلاب کی باتیں کر رہے ہیں۔

اسی طرح کچھ افراد نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی جانب سے انقلابی گیت گانے پر برہم دکھائی دیے اور کہا کہ اگر کوئی غریب انقلاب کا گیت گاتا تو اچھا لگتا۔

5dd3fc4bf309d.jpg



انقلابی گیت گاتے ان نوجوانوں میں سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ لیدر کی جیکٹ پہن کر گیت گانے والی لڑکی بنی اور لوگوں نے کہا کہ 15 ہزار روپے کی جیکٹ پہننے والی انقلاب کی باتیں کر رہی ہیں۔

5dd3fc8ae3667.jpg



کچھ افراد نے ان کی لیدر جیکٹ کے حوالے سے کہا کہ انقلاب لیدر جیکٹ پہن کر گیت گانے سے نہیں آتا۔

جہاں کئی لوگوں نے انقلابی گیت گانے والوں پر تنقید کی، وہیں کچھ افراد ان کی حمایت میں بھی آئے اور دلیل دی کہ انقلاب کا تعلق امیری یا غریبی سمیت لیدر کی جیکٹ یا پرانے کپڑوں سے نہیں ہوتا۔

5dd3fcc5c1fe7.jpg
قوم کے سارے صیغے اب ہر قسم کے انقلاب کے لیے گیت گانے، فلمیں ڈرامے بنانے، آئیٹم نمبر پیش کرنے، ٹویٹس جڑنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کرتے۔ ہاں یاد آیا، دشمن کے بچوں کو بھی پڑھاتے ہیں۔
 
سُرخوں نے ایوب کے صنعتی انقلاب سے تعصب اور بغض رکھتے ہوئے 22 امیر خاندان (جن میں آپ کا محبوب نواز شریف بھی شامل تھا) کی صنعتیں ضبط کر کے سرکاری تحویل میں دے دی تھی۔ تب سے یہ ملک ایسا ہی چل رہا ہے جیسا ایوب نے چھوڑا تھا۔

مُڑ کھوتی آ گئی بوھڑ تھلے۔

رب راکھا
 

محمد وارث

لائبریرین
جوش جذبہ، شور شرابہ، قابل توجہ ہے لیکن یہ ایشیا بھلا کیوں سرخ ہے؟
ہم 'مردہ پرست' قوم ہیں چوہدری صاحب۔ سرخ اشتراکیت دفن ہو چکی سو اب ہماری ہیرو ہے، یہاں تک کہ ان کی بھی جو ابھی دو تین دہائیاں قبل اشتراکیت کو صریح کفر کہتے تھے۔ :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
جوش جذبہ، شور شرابہ، قابل توجہ ہے لیکن یہ ایشیا بھلا کیوں سرخ ہے؟
چوہدری صاحب ، آپ کو بھی یاد ہوگ کہ کالج کے دنوں میں " ایشیا سرخ ہے" اور " ایشیا سبزہے" کے نعرے سن سن کر کان پک گئے تھے ۔ پھر کہیں سے کسی دل جلے منچلے کا یہ نعرہ مشہور ہوا تھا کہ" نہ سرخ ہے نہ سبز ہے ، ایشیا کو قبض ہے "۔ میراخیال ہے کہ یہ مرض کب کا دائمی صورت اختیار کرچکا ہے۔ کم از کم جنوب مشرقی ایشیا میں تو لاعلاج ہوچکا ۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
چوہدری صاحب ، آپ کو بھی یاد ہوگ کہ کالج کے دنوں میں " ایشیا سرخ ہے" اور " ایشیا سبزہے" کے نعرے سن سن کر کان پک گئے تھے ۔ پھر کہیں سے کسی دل جلے منچلے کا یہ نعرہ مشہور ہوا تھا کہ" نہ سرخ ہے نہ سبز ہے ، ایشیا کو قبض ہے "۔ میراخیال ہے کہ یہ مرض کب کا دائمی صورت اختیار کرچکا ہے۔ کم از کم جنوب مشرقی ایشیا میں تو لاعلاج ہوچکا ۔ :)
سُرخوں سے ایک سوال ہے۔ کیا کارل مارکس مسلمان تھا؟
 
پاکستان کے ذہنی ٹٹ پونجئے ، انقلاب کے ان نقیبوں سے ڈرتے ہیں۔ کسی کو جیکٹ نظر آتی ہے اور کسی کو صاف کپڑے۔ جذباتی اور جنسی گھٹن کے مریضوں کو صرف لڑکا یا لڑکی نظر آتی ہے۔ لیکن ان کی تعلیم اور تربیت کسی کو نظر نہیں آتی :)
 

الف نظامی

لائبریرین
خصوصی طور پر :- جواب آں غزل
امریکہ کے ذہنی ٹٹ پونجئے ، اسلام کے ان نقیبوں سے ڈرتے ہیں۔ کسی کو داڑھی نظر آتی ہے اور کسی کو عمامہ۔ جذباتی اور جنسی گھٹن کے مریضوں کو صرف مولوی نظر آتا ہے۔ لیکن ان کی تعلیم اور تربیت کسی کو نظر نہیں آتی :)
 
Top