زبردست آپ کی تحریر کے لیےلاہور آئے تیسرا برس جاری ہے۔ لگتا ہی نہیں کہ سولہ برس اس شہر سے دور رہا ہوں ۔ بہت کچھ تبدیل ہو چکا ہے۔ بالکل اس محبوبہ کی طرح جسے آپ جاتے ہوئے تو انیس برس کی کالج میں پڑھتے ہوئے چھوڑ کر جاتے ہیں مگر جب سولہ برس بعد آتے ہیں تو اس کی عمر پینتیس برس سات بچے اور جسم شریف خالہ شکوراں جیسا ہو چکا ہوتا ہے۔ لاہور بھی ٹریفک کے احوال میں تین گنا زیادہ ازدہام کا شکار ہو چکا ہے۔ گو کہ بہت سی سڑکیں وسیع کر دی گئی ہیں لیکن عوام الناس میں ٹریفک کا شعور اس درجہ ہے کہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ سڑکیں وسیع ہو گئی ہیں ۔ زندگی کا چلن وہی ہے ۔ لوکل ٹرانسپورٹ میں ایک دوسرے کو نہ جانتے ہوئے بھی جغتیں اور ہنسی مذاق عام ہے۔ کالج کے لڑکوں کا اونچی آواز میں ایک دوسرے سے نوٹس سے لے کر گرل فرینڈ کی باتیں کرنا ویسا ہی ہے۔ کھانے میں اب نئی نئی جگہیں بن چکی ہیں ۔ جین مندر کے پان والے کی دکان میٹرو میں آ کر کہیں گم ہوگئی ۔ جاوا ٹھیکے پر چلا گیا اور جگہ جگہ جاوا کھل گئے۔ بشیر دار الماہی بشیر صاحب کی وفات کے بعد اپنا معیار برقرار نہ رکھ سکا اب مزنگ چوک کے محمدی والوں کے پاس یہ تمغہ ہے۔ دہی بھلے اب شادمان میں اچھے ملتے ہیں ۔ جبکہ چاچے بسے کی حلوہ پوڑی اب بھی ویسی کی ویسی ہی ہے۔ دھرم پورے کو بیجنگ انڈر پاس نے کپڑے نئے پہنا دیئے اور شیخ صاحب گول گپے والے ناپید ہو گئے ۔ البتہ گڑھی شاہو بلوچی سجی اب بہتر کے طور پر میسر ہے۔ برکت مارکیٹ پر انجانی سی بے برکتی کا راج ہے جبکہ چوبرجی پونچھ روڈ کا چکڑ چھولے والا بھی اب وہاں نہیں ہوتا۔
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
پورا شہر اداس سا نظر آتا ہے۔ ہر کوئی جھوٹا لگتا ہے۔ ہر جگہ پر عجیب سی ویرانی سی ہے۔ اللہ اعلم بالثواب
سڑکیں گلیاں اور زمانہ سارے جھوٹے لگتے ہیں
دھوکہ جھوٹ ملاوٹ مطلب چاہت کی من مانگن میں
شہر وہی ہے وہی زمانہ لیکن موسم بدل گیا ہے
بادل پلٹ پلٹ کر برسے میرے دل کے آنگن میں
عربیوں کے ملخوں میں ۔ تین ملخوں کی سیر کی دو میں زیادہ وقت گزارا تیسرے میں بہت کم۔زبردست آپ کی تحریر کے لیے
غم ناک اپنے آبائی شہر کا حال سن کر
سولہ سال کہاں رہے؟
شہر لاہوراں شہر مغلاں نہ رہا۔۔۔مجھے بھی لاہور دیکھنا ہے
کافی اشتیاق پیدا ہو گیا ہے ہمیں
اس شہر مغلاں کو دیکھنے کا ۔۔۔۔
اور لوہاروں نے لوہا بیچنے کے چکر میں وہ کھدائی کی کہ لاہور کا حلیہ ہی بدل دیاشہر لاہوراں شہر مغلاں نہ رہا۔۔۔
شہر لوہاراں بن کے رہ گیا !!!
یعنی اب شہر کھائیاں ہوگیا!!!اور لوہاروں نے لوہا بیچنے کے چکر میں وہ کھدائی کی کہ لاہور کا حلیہ ہی بدل دیا
لاہور پاکستان کا واحد شہر ہے جس کے باسی "زندہ دلانِ لاہور" کہلاتے ہیں۔
QUOTE]
!
ہر پاکستانی زندہ دل ہے جسے تمام پاکستانی بارہا عملی طور پر ثابت بھی کر چکےسیالکوٹ، چیچوکی ملیاں یا راہوالی کے باسی کسی طرح بھی "زندہ دلانِ لاہور" نہیں کہلاسکتے
اور تازے؟سیالکوٹ، چیچوکی ملیاں یا راہوالی کے باسی کسی طرح بھی "زندہ دلانِ لاہور" نہیں کہلاسکتے
تازے تو سندھ میں پائے جاتے ہیں؛اور تازے؟
واہتازے تو سندھ میں پائے جاتے ہیں؛
سندھ کے باسی "سندھی"
سندھ کے تازے "مہاجر"
کیا خیال ہے سندھ کے مہاجر کو "مہاسندھی" کر لیں!تازے تو سندھ میں پائے جاتے ہیں؛
سندھ کے باسی "سندھی"
سندھ کے تازے "مہاجر"
لاہور میں رہ کر بھی مجھے لاہور کے بارے میں اتنا کچھ نہیں پتا تھا جتنا اس لڑی سے معلوم ہوا ۔
لاہور واقعی لاہور ہے مجھے تو اس کے کھڈے بھی اچھے لگتے ہیں ۔ لوہاروں نے اپنا لوہا لگا کر جو کمایا کھایا وہ تو لمبی داستان ہے البتہ لاہور کو بہت خوبصورت بنا دیا ہے ۔
لاہوریوں میں زندہ دلی کے ساتھ ساتھ بہت صبر اور بہت حوصلہ ہے کبھی کبھی اتنا بڑھ جاتا ہے کہ بے حسی کی شکل اختیار کر لیتا ہے ۔ مسلسل سڑکیں بنتی ہیں پھر توڑی جاتی ہیں پھر بننا شروع ہوجاتی ہیں مٹی کے پہاڑوں پر سے موت کے کنویں جیسے کرتب دکھاتے گزرتے جائیں گے ماتھے پر بل نہیں آئے گا نہ کسی سے شکایت کریں گے ۔
سڑکیں بنانے والے بجری ڈال کر چھوڑ دیتے ہیں لاہوریے اس کو برابر کرتے رہتے ہیں بغیر دھیاڑی مانگے
بہت خوب ۔لاہور کو دوسری صدی عیسوی میں لبوکلا کے نام سے بھی جانا جاتا تھا ۔
بےشک یہ شہرِ بےمثال ہے۔جس شہر میں اتنا کچھ ہو ، اسے شہر بے مثال نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے بھلا ۔