لاہور کی باتیں

الشفاء

لائبریرین
ارے پنجاب یونیورسٹی کے بارے میں بھی کچھ کہئے۔ خاص طور پر نیو کیمپس اور اس کی نہر۔۔۔​
انار کلی کے بازو میں اولڈ کیمپس کی عمارت۔​
University-of-Punjab-Institute-of-Education-Research-IER.jpg
9523d1355212402-punjab-university-announced-ma-political-science-part-2-result-december-2012-punjab-university-b.com-part-2-result-2012.jpg
فیصل آڈیٹوریم نیو کیمپس۔​
800px-Faisal_auditorium-PU.jpg
Lahore%20-%20Punjab%20University%20-%20Faisal%20Auditorium%20-%20Exterior%20-%20023.jpg
آئی ای آر نیو کیمپس۔​
punjab-university-new.jpg
میرا کالج۔ہیلی کالج۔​
29470223.jpg
7819027.jpg
MBA.jpg
ڈیپارٹمنٹس اور ہوسٹلز کے درمیان سے گزرتی نیو کیمپس کی نہر۔۔۔​
punjab_university_lahore.jpg
 

زرقا مفتی

محفلین
لاہور کی سڑکیں

large


سمٹ مینار ،ملکہ کا بت اور پنجاب اسمبلی مال روڈ چیرنگ کراس پر
Islamic+Summit+Minar,+Lahore,+Pakistan.jpg


گورنر ہاؤس

4253229_orig.jpeg


الحمرا
7954-pakistan-lahore-al-hamra-art-council.jpg


قائدِ اعظم لائبریری

2599953765_8f80ff2caf.jpg
 
میرا پاکستان جانا ہوا ۔ 14 مارچ کو لاہور ایئرپورٹ پر اترا ۔ اور 29 مارچ کو اسی ایئرپورٹ سے واپسی ہوئی ۔ تفاصیل ایک قصے کی صورت میں عن قریب حوالہ کمپیوٹر کروں گا
 

شمشاد

لائبریرین
میرا پاکستان جانا ہوا ۔ 14 مارچ کو لاہور ایئرپورٹ پر اترا ۔ اور 29 مارچ کو اسی ایئرپورٹ سے واپسی ہوئی ۔ تفاصیل ایک قصے کی صورت میں عن قریب حوالہ کمپیوٹر کروں گا
بہت انتظار رہے گا۔ عرصہ ہوا آپ نے کچھ لکھا تھا۔
 
جھلکیاں بتا دیتا ہوں تفصیل بعد میں لکھوں گا

بذریعہ ابو ظہبی ائیر پورٹ
اتحاد لاؤنج اور کیپٹین سلیم
فلائیٹ کے دوران
لاہور ائیرپورٹ
بزنس کلاس ٹھس
ایک ہزاری پورٹرفٹافٹ
آئیں آپ کی مدد کریں (بےلوث)
ہوٹل پہنچنا
دوسرا دن گھر کی تلاش
دوستوں سے ملاقات
اوئے میرے لئی کی لیاندا ای
سمن آباد موڑ
گلشن راوی
یتیم خانہ
اقبال ٹاؤن
سگے بھائیوں جیسا دوست ہوں آپ کا
او جی تہانوں کی فرق پیندا اے تسی تے باہر ہندے او
گھر کا ملنا
اسٹیٹ ایجنٹ کا ڈبل کمیشن مانگنا
گھر والوں کا پہنچنا
سامان کی خریداری اور طلحہ کا رونا
سامان پہنچانے اور چڑھانے کا فرق
بلب لگوا لیجئے نا آپ کو کیا فرق پڑے گا
قالین ڈالنے والا
یوپی ایس لگانے والا مائیکل جیکسن
طلحہ کا اسکول اور داخلہ
واپسی کا سفر
کالی رکشے والا
لاہور ائیرپورٹ
آئیں سر بزنس کلاس لاؤنج پہنچاؤں
یہاں بیٹھ کر اسموک کیجئے
سو دو سو نہیں چاہیئں نہیں ہیں تو ناں دیں
ابوظبی ایئرپورٹ
کمرے میں واپسی
 
Chauburji-Lahore.jpg

چو برجی (عام فہم کا پنجابی تلفظ: چبرجی) تاریخی شہر لاہور میں ملتان کی جانب جانے والی سڑک پر مغلیہ باغات میں وسیع ترین باغ کے دروازے کی حیثیت سے تعمیر شدہ ایک یادگار ہے۔ چو برجی دراصل مغلیہ باغات میں انتہائی ممتاز اور وسیع ترین باغ کا دروازہ تھا جو کہ مغل شہزادی زیب النساء مخفی سے منسوب ہے۔ اس یادگاری دروازے کے چار مینار ہیں اور اسی مناسبت سے اس کا نام چو برجی رکھا گیا تھا، یعنی کہ چہ : چار اور برجی: برج یا مینارے۔ اس یادگار پر انتہائی نفیس کام کیا گیا ہے۔
1843ء میں آنے والے شدید زلزلے میں شمال مغربی مینار کو نقصان پہنچا اور یہ منہدم ہو گیا، جب میں مرکزی حصے میں دراڑیں پڑ گئیں۔ اس کی ممکن حد تک دوبارہ سے تعمیر کی گئی اور یہ تقریباً مغلیہ دور کی حالت میں دوبارہ بحال کیا گیا۔ اس یادگار کی تعمیر نو کا کام محکمہ آثار قدیمہ نے 1960ء میں مکمل کروایا۔
چو برجی میں منفرد طرز تعمیر دیکھا جا سکتا ہے جو کہ مغلیہ اور قدیم اسلامی طرز تعمیر کے ملاپ کا حسین شاہکار ہے۔ اس یادگار کی ممتاز حیثیت اس کے میناروں کی وجہ سے ہے جو کہ برصغیر پاک وہند میں کہیں بھی دوسری عمارات میں نہیں دیکھی جاتی۔ کہی تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ ان میناروں پر گنبد بھی تعمیر کیے گئے تھے جو کہ وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہو گئے مگر اس یادگار کی طرز تعمیر میں ایسی کسی نشانی کے کوئی ثبوت ابھی تک نہیں ملے۔ اس یادگار میں استعمال ہونے والی سرخ اینٹیں اسلامی طرز تعمیر کی نشاندہی کرتی ہیں جو کہ برصغیر میں کئی عمارات جیسے لال قلعہ اور بادشاہی مسجد بھی شامل ہیں وسیع پیمانے پر استعمال کی گئی ہیں۔ اس عمارت کا رقبہ اور تعمیراتی کام اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ صرف یادگاری عمارت ہے اور اس کے علاوہ اس کا کوئی مقصد نہیں ہے۔ آج کل یہ عمارت جوں کی توں، مغلیہ دور کی یادگار ہے لیکن اس کے ارد گرد بڑے اشتہار، تجارتی مراکز اور ملتان روڈ کی بے پناہ رش اس کی خوبصورتی میں حائل ہے۔

1985ء میں ڈاکٹر اعجاز انور نے روزنامہ پاکستان ٹائمز کے ایک مضمون میں تحریر کیا کہ،

“چو برجی کا سب سے خوبصورت حصہ اس کی چہار مینار سے مماثلت ہے۔ یہ بالکل اسی طرز کے چہار مینار ہیں جو حیدر آباد دکن میں 1591ء میں محمد قلی نے تعمیر کروائے تھے، جو کہ حیدر آباد میں چار شاہراوں کے ملاپ کو ظاہر کرتا تھا۔ یہ شاہراہیں حیدر آباد کے قدیم شہر میں بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ بعد میں اسی طرز کے مینار جہانگیر کے مقبرے میں بھی تعمیر کیے گئے۔ یہی طرز تعمیر اتنا مشہور ہوا کہ اس کا تجربہ تاج محل میں بھی کیا گیا، لیکن اس کی مجموعی ساخت وہی برقرار رکھی گئی جو کہ خاص طور پر مغلوں کا خاصہ ہے۔ چہار مینار کی طرح یہاں بھی طرز تعمیر میں عجب رنگ بھرے گئے ہیں، اس یادگار کا نچلا حصہ انتہائی سادہ اور اونچائی میں یہ انتہائی محنت سے تیار کردہ نقش و نگار سے مزین ہے۔ مغلیہ دور میں کئی عمارات میں سنگ مرمر کا بے دریغ استعمال کیا گیا، وہ ایک وقت میں مغلیہ طرز تعمیر کی نشانی بھی بن گیا لیکن چوبر جی میں اینٹ کا استعمال اس دور میں اس کی ممتازی حیثیت کو واضع کرتا ہے“

472px-Chauburji_from_British_Library.jpg

1880 میں چوبرجی کی ایک تصویر​

یہ یادگار درحقیقت باغ زیب النساء کا داخلی دروازہ ہوا کرتا تھا۔ زیب النساء بیگم، بادشاہ اورنگزیب کی صاحبزادی تھیں۔ اس باغ کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ کبھی یہ نواں کوٹ سے لاہور شہر کے مرکز کی جانب شمال میں توسیع شدہ باغ تھا۔ اب اتنے وسیع پیمانے پر اس باغ کے پھیلاؤ کے کوئی نشانات بھی اس علاقے میں موجود نہیں ہیں، شاید اس کی وجہ یہاں بڑے پیمانے پر ہونے والے آبادی میں اضافہ ہو۔ شہزادی زیب النساء مخفی کامقبرہ نواں کوٹ میں ہے۔
 
Qutbuddin_Aybak.jpg

قطب الدین ایبک

(دور حکومت 1206ء تا 1210ء)

برصغیر کا پہلا مسلمان بادشاہ جس نے دہلی میں اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی جو دہلی سلطنت کے نام سے مشہور ہوا۔ نسلاً ترک تھا۔ ایک سوداگر اس کو ترکستان سے خرید کر نیشا پور لے آیا اور قاضی فخرالدین عبدالعزیز کے ہاتھوں فروخت کردیا۔ جس نے اس کو سلطان شہاب الدین غوری کی خدمت میں پیش کیا۔ سلطان نے کثیر رقم دے کر اسے خرید لیا۔ شکل و صورت قبیح ہونے علاوہ ایک چھنگلیا بھی ٹوٹی ہوئی تھی۔ اس لیے لوگ اس کو ایبک شل (خستہ انگشت) کہتے تھے۔

قطب الدین نے رفتہ رفتہ اپنی صلاحیتوں کا سکہ سلطان پر بٹھا کر اس کا قرب حاصل کر لیا۔ 1192ء میں سلطان محمد غوری نے دہلی اور اجمیر فتح کرکے قطب الدین کو ان کا گورنر مقرر کیا۔ اگلے سال سلطان نے قنوج پر چڑھائی کی۔ اس جنگ میں قطب الدین ایبک نے اپنی وفا داری اور سپہ گری کا ایسا ثبوت دیا کہ سلطان نے اس کو فرزند بنا کر فرمان فرزندی اور سفید ہاتھی عطا کیا۔ قطب الدین کا ستارہ اقبال چمکتا گیا۔ اور اسکی فوجیں گجرات، راجپوتانہ، گنگا جمنا کے دوآبہ، بہار اور بنگال میں نصرت کا پرچم لہراتی ہوئی داخل ہوئیں ۔ جب سلطان محمد غوری 15 مارچ 1206ء کو جہلم کے قریب، گکھڑوں کے ہاتھوں مارا گیا تو ایبک نے جون 1206ء کو لاہور میں اپنی تخت نشینی کا اعلان کر دیا۔

قطب الدین ایبک کی گورنری کا زمانہ فتوحات میں گزرا تھا۔ تخت پر بیٹھ کر اس نے امور سلطنت پر توجہ دی۔ اس کا بیشتر وقت نوزائیدہ اسلامی سلطنت میں امن و امان قائم رکھنے میں گزرا۔ عالموں کا قدر دان تھا۔ اور اپنی فیاضی اور دادودہش کی وجہ سے تاریخ میں لکھ بخش کے نام سے مشہور ہے۔ نومبر 1210ء میں لاہور میں چوگان (پولو) کھیلتے ہوئے گھوڑے سے گر کر راہی ملک عدم ہوا اور انار کلی کے ایک کوچے (ایبک روڈ) میں دفن ہوا۔
Lahore%20-%20Qutub-ud-Din%20Aibak%20Tomb%20-%20Exterior%20-%20Facade%20-%20Detail%20-%20001.jpg

20120703_21.jpg


مزید تصاویر یہاں ملاحظہ کیجئیے http://www.urbanpk.com/forums/index.php?/topic/10823-lahore-sultan-qutb-ud-din-aibaks-tomb/
 

جاسمن

لائبریرین
دہی بھلے تین جگہ سے اچھے ملتے ہیں

اقبال ٹاؤن میں ایل ڈی اے کوارٹروں سے اگلے چوک میں شہنشاہ والے کے دہی بھلے اچھے ہیں
اقبال ٹاؤن میں ہی مون مارکیٹ کے پیچھے شیخ کی فروٹ چاٹ اور دہی بھلے دونوں اچھے ہیں
۔ جی پی او کے سامنے بلدیہ آفس کی سائیڈ والی گلی سے فروٹ چاٹ عالیشان ہے
نیو کیمپس سے برکت مارکیٹ کی طرف نہر کے بعد (جہاں سے کبھی گندا نالا گزرتا تھا) ایک لکڑی کا ہٹ ہے وہاں بھی دہی بھلے اچھے ملتے ہیں
گول گپے صرف دھرم پورے پھاٹک کے پاس اور وہ بھی ریلوے لائن کی طرف سے تیسری ریڑھی (نشانی پرانا سا بورڈ ایک نکر سے تھوڑا سا ٹوٹا ہوا )

دہی بھلے تو مین برج نیو کیمپس کے بہترین ہؤا کرتے تھے۔۔۔اب تو وہ شکل ہی نہیں رہی مین برج کی۔۔۔۔نجانے وہ دہی بھلے والا اب کہاں ہے!!!
 
جی تو یہ دہی بھلے والے کمبخت کیمپس سے برکت مارکیٹ کی طرف جاتے ہوئے بائیں جانب کھوکھا لگائے ہوئے ہیں
 
آخری تدوین:
میری بھی پیدائش اور تعلیم اور دوست سب لاہور کے ہی ہیں ۔ مجھے لاہور شہر کی سب سے زیادہ سکون آور جگہ داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کے مزار سے ملحق مسجد اور سب سے اچھی سیر گاہ باغ جناح لگتا ہے ۔
 

فرقان احمد

محفلین
بھوگی وال کی پیدائش ۔ جھگیاں شہاب دین اور جھگیاں ناگرہ کی پل چوبرجی اسکول اور سول لائنز کالج کی پڑھوند ۔ اقبال ٹاؤن کا عاشق اور جوہر ٹاؤن میں سسرال کا حامل بندہ بھی لاہوری ہونے کا دعوے دار ہے ۔ رسید لکھ دی تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے ۔ آمد جامد لگی رہے گی پان کھانا ہے تو جین مندر کا کھائیے ۔ نہاری کھانی ہے تو محمدی کی کھائیں ۔ حلوہ پوری چاچے بسے کی ۔ نان چھولے بھاٹی کے ۔ پاوے پا پھجے کے ۔ جوس گڑھی شاہو کا ۔ دہی بھلے کیمپس کے ۔ رو نہرو نہر شاہ دی کھوئی کی ۔ گول گپے دھرم پورے کے ۔ سجی فورٹریس کی ۔ ٹھنڈا دودھ مغل پورے گھاس منڈی کا ۔ گرم دودھ شیزان فیکٹری کے سامنے سے ۔ سیخ کباب لیاقت چوک کے ۔ بریانی الفلاح بلڈنگ کے پاس کی ۔ گولی والی بوتل مزنگ اڈے کی ۔ برفی بھا رفیق کی لال کھوہ سے ۔ کچوری لال شاہ قلندر کے میلے کی ۔ قتلمہ داتا صاحب میلے کا ۔ یخنی شاہ نور کی ۔ صندل کا شربت مزنگ کا ۔ آلو والے پراٹھے سروسز ہسپتال کے سامنے کے ۔ ساگ پراٹھا صبح صبح یتیم خانے چوک کا ۔ کڑاہی جاوا کی ۔ بھنے بٹیر صدر بازار کے ۔ فالسے سک نہر کے ۔ گنڈیریاں شالامار باغ کی ۔ مچھلی بشیر کی مزنگ سے۔ چرغہ لاہور بروسٹ کا ۔ کیک کشمیر بیکری کا ۔ کچی لسی ناصر باغ کی ۔ سلش ساندے چوک کا ۔ چکڑ چنے پونچھ روڈ کے ۔ اور مار پولیس کی
سید عمران بھیا! آپ کو معلوم ہے نا کہ اس مراسلے کو کہاں پہنچانا ہے؟ :)
 
Top