لاہور کے چرچ میں 'عید میلاد' کا جشن، نماز بھی ادا کی گئی

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

قیصرانی

لائبریرین
اتنے سخت الفاظ ، وجہ؟
خود قرآن نے بھی تو مشرکین کو نجس قرار دیتے ہوئے مسجد حرام میں داخلہ منع کر دیا۔ کیا یہ بھی آپ کے نام نہاد پیغام انسانیت کے خلاف تو نہیں؟
صرف ایک مسجد میں داخلے پر پابندی کو آپ نے عمومی حکم بنا دیا :)
 

قیصرانی

لائبریرین
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام بلا شک و شبہ مسلمانوں کے بھی ننی اور رسول ہیں لیکن ان کی شریعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت نافذ ہونے پر معطل ہو گئی۔

مجھے علم ہے کہ آپ اب الفاظ سے کھیلیں گے اور ظفری بھائی بھی بہت سی دلیلیں لائیں گے لیکن قرآن کی آیت بالکل صاف اور سیدھی ہے۔ اس کو گھمانے پھرانے کی ضرورت نہیں۔
یہ تو وہی بات ہوئی کہ ہم کہتے ہیں کہ اسلام شروع سے وہی ہے جو اب ہے۔ ہر نبی نے یہی اسلام پیش کیا تھا :)
 

ساجد

محفلین
چرچ میں عید کی نماز ہوئی ہو یا باجماعت نوافل ادا کئے گئے ہوں۔ یہ فعل غلط تھا۔ خود میلاد کے حامی علماء کو اس سے اتفاق نہیں۔
خبر میں کہاں لکھا گیا ہے کہ چرچ میں عید کی نماز ادا کی گئی یا نوافل پڑھے گئے ۔
میلاد کے حامیوں کا موقف کہاں آپ کے موقف سے مطابقت رکھتا ہے ۔ یاد رکھئے کہ تمام آسمانی مذاہب اللہ کی عبادت پر مشتمل ہیں تو اگر ان لوگوں کا مساجد میں آنا جائز ہے تو اللہ کی عبادت کرنا کیسے ناجائز ہو گیا اور اللہ کے ماننے والے مسلمانوں کا ان کے چرچ میں اللہ کے سامنے سر جھکانا کیسے غلط ہو گیا ؟
اور آخر مین ایک بات آپ کو ذہن نشین کروا دوں کہ یہود اور عیسائی ، مشرکین کے حکم میں نہیں بلکہ الگ ہیں تو سوچئے کہ نماز عیسائیوں کے چرچ میں ہوئی جبکہ ستم بالا ستم کہ اندرا گاندھی مشرک کے زمرے میں ہے جس کو دارالعلوم دیوبند میں کرسی صدارت پر بٹھا کر بھی اسلام کو گزند نہ پہنچی تو چرچ میں اللہ کے سامنے سجدہ کرنے سےا سلام کو کیا خطرہ لاحق ہو گیا ۔ :)
 

عمار عامر

محفلین
خبر میں کہاں لکھا گیا ہے کہ چرچ میں عید کی نماز ادا کی گئی یا نوافل پڑھے گئے ۔
محترم بھائی، خبر میں یہ الفاظ موجود ہیں کہ "ایسا بھی پہلی بار ہوا ہے کہ مسلمانوں نے چرچ کے اندر نماز ادا کی ہو"۔
۔
1100869366-1.gif
 

حسینی

محفلین
اتنے سخت الفاظ ، وجہ؟
خود قرآن نے بھی تو مشرکین کو نجس قرار دیتے ہوئے مسجد حرام میں داخلہ منع کر دیا۔ کیا یہ بھی آپ کے نام نہاد پیغام انسانیت کے خلاف تو نہیں؟

لیکن کیا عیسائی اور یہودی اہل کتاب شمار نہیں ہوتے؟؟
اور کیا اہل کتاب پاک نہیں ہوتے؟ ان کا ہاتھ کا کھانا نہیں کھا سکتے؟؟
اہل کتاب سے نکاح جائز نہیں ہے؟؟
 

نایاب

لائبریرین
اتنے سخت الفاظ ، وجہ؟
خود قرآن نے بھی تو مشرکین کو نجس قرار دیتے ہوئے مسجد حرام میں داخلہ منع کر دیا۔ کیا یہ بھی آپ کے نام نہاد پیغام انسانیت کے خلاف تو نہیں؟
میرے محترم آپ نے مجھ سے وجہ پوچھی ۔۔۔۔۔ یہ آپ کی جانب سے آپ ہی کی فتاوی کے خلاف آپ کی لا علمی کی دلیل ہے ۔۔۔۔
اگر آپ نے ذرا سی توجہ خبر کے مندرجات کو دی ہوتی تو آپ اتنی عجلت و گرم جوشی سے " کتا کان لے گیا " سن کر بنا اپنے کان دیکھے کتے کے تعاقب میں نہ بھاگ پڑتے ۔ آپ پہلے مکمل تحقیق کرتے مسلمانوں کے اک گروہ نے کس نیت سے چرچ میں یہ میلاد کی تقریب منعقد کی ۔۔اور اس تقریب میں کیا کچھ ہوا ۔ آپ اک مجہول خبر کے سہارے فتاوی کفر بانٹنے لگے اور وہ بھی احایث کے سہارے ۔۔۔
سورت المائدہ کی جس آیت کو لیکر آپ یہود و نصاری کی مسلم دشمنی کو محکم قرار دے ہیں ۔۔۔۔ذرا اس سورت کی مکمل ترجمے کی سعادت سے مشرف ہوں ۔۔ٰیقین واثق ہے کہ یہود و نصاری بارے ہدایت ونصیحت آپ پر روشن ہو جائے گی ۔۔۔پھر ہو سکتا ہے کہ آپ کو اس سورت مبارکہ کی آیت نمبر 46 اور 47 میں اللہ کےفرمان بارے کچھ اشکال ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا ہی بہتر ہو کہ آپ قران پاک کوئی ایسی آیت سامنے لے آئیں جس میں چرچ کلیسا یا یہودیوں کی عبادت گاہوں میں جانے کی ممانعت ہو ۔۔۔
مسجدالحرام میں مشرکین کا داخلہ ممنوع ہے ۔۔ کیا قران پاک نے اس آیت میں یہود و نصاری کو براہ راست نام سے مخاطب کیا ہے ۔۔۔؟
چودہ سو سال میں حرمین شریفین کی توسیع و تعمیر میں شامل جن یہود ونصاری کویہاں داخلے کی اجازت ملتی رہی ۔کیا وہ اس آیت مبارکہ کے حکم کے خلاف تھی ۔۔؟
قران پاک میں بیان کردہ پیغام انسانیت آپ کے نزدیک بودا اور نام نہاد ہو سکتا ہے میرے نزدیک سچا اور حقیقی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
والسلام علیکم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
لیکن کیا عیسائی اور یہودی اہل کتاب شمار نہیں ہوتے؟؟
اور کیا اہل کتاب پاک نہیں ہوتے؟ ان کا ہاتھ کا کھانا نہیں کھا سکتے؟؟
اہل کتاب سے نکاح جائز نہیں ہے؟؟
اہل کتاب ہیں کون جو کتاب اتری تھی وہ اب ہے کیا ؟پھر اہل کتاب کس کو کہیں؟
 
میری طالب علمانہ معلومات کے مطابق چرچ میں نفل نماز پڑھنا یا نا پڑھنا ایک فروعی مسئلہ ہے، ایمان یا کفر نہیں ۔ میری معلومات کے مطابق چرچ میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔
اگر کچھ عیسائی حضرات مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے چرچ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا میلاد مناتے ہیں تو ہمیں کیوں اعتراض ہو؟
کیا ہم وہاں نعت پڑھ سکتے ہیں؟ (چرچ میں) یا دعا مانگ سکتے ہیں اللہ سے اسکے بارے میں جید علماء سے پوچھ لینا چاہئے ۔
صرف شرکت کرنے میں تو کوئی حرج نہیں لگتا۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
نفل جماعت کا با جماعت ادا کرنا کوئی عقیدہ کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ احکام سے متعلق فقہی اختلاف ہے جو کہ زیادہ سے زیادہ فروعی اختلاف کہلا سکتا ہے جہاں تک میرا ناقص مطالعہ ہے تو ہے اس مسئلہ میں تمام مکاتب فکر کا اس بات تک تو اتفاق ہے کہ نفل کی نماز کا باجماعت اہتمام بغیر تداعی کے بلا کراہت جائز ہے یعنی کسی بھی نفل نماز کی جماعت باقاعدہ پروگرام کے تحت ادا کرنا تو مکروہ ہے لیکن بغیر تداعی کے بلاکراہت جائز ہے اور اسی طرح تہجد کی جماعت اگر اتفاقاً بغیر کسی پروگرام کے پڑھی جائے تو وہ بھی بلاکراہت جائز ہوگی ۔۔۔والسلام
 
یہ خبر غلط ہے مسلمانوں نے چرچ میں نماز ادا نہیں کی۔
اگر کوئی فوٹو شوٹو دکھائیں تو 1 سے 2 فیصد کہہ سکتے ہیں کہ کیا صحیح کیا غلط۔

یہاں دو ذکر پائے گئے ہیں ایک اسپیشل پرئیر کا اور ایک عصر کی اذان اور عصر کی پرئیر کا۔
The Christian, Sikh, Hindu and Muslim leaders jointly cut the birthday cake of the Holy Prophet (blessings and peace be upon him) and made special prayer on the occasion. Call for Asr prayer was given in Church and prayer offered. There was arrangement for Milad feast after the conclusion of the programme.
ربط: منہاج القرآن اورگنائزیشن

صاحبزادہ صاحب نے حضور کی اس سنت کا بھی خصوصی ذکر کیا جس میں کفارکے وفد کی میزابانی ، مسجد میں قیام اور عبادت کی انجام دہی کی اجازت دی گئی تھی۔ :angel:
Sahibzada Hussain Mohi-ud-Din Qadri, the chief guest of the ceremony, congratulated Reverend Chaman Sardar on hosting the Milad ceremony. In his speech, he said that Shaykh-ul-Islam Dr Muhammad Tahir-ul-Qadri founded Muslim-Christian Dialogue Forum 12 years ago in compliance with the Sunna of the Holy Prophet (blessings and peace be upon him) wherein he hosted the Christian delegation from Najran and made them stay and worship in the Prophet's Mosque 1400 years ago.
 

عثمان

محفلین
کیا آپ کو امینہ ودود یاد نہیں جس نے امریکہ میں ایک گرجا گھر میں جمعہ کی نماز کی امامت کی تھی اور اس کے پیچھے مردوں اور عورتوں نے اکٹھے نماز ادا کی تھی۔
یہ الگ بات ہے کہ وہ نماز تھی یا نماز پڑھنے کی ایکٹنگ کی گئی تھی۔
چھ سات برس پرانا واقعہ جس میں شرکت کرنے والے سو ، ڈیڑھ سو افراد جو خود اس واقعہ کو بھول گئے ہونگے۔ نہ جانے آپ اسے یہاں بے محل کیوں گھسیٹ رہے ہیں۔
 
لیکن کیا عیسائی اور یہودی اہل کتاب شمار نہیں ہوتے؟؟
اور کیا اہل کتاب پاک نہیں ہوتے؟ ان کا ہاتھ کا کھانا نہیں کھا سکتے؟؟
اہل کتاب سے نکاح جائز نہیں ہے؟؟
چلیے پھر ہو جائیں کچھ برگر، اسٹیکس اور ہاٹ ڈاگز قیصرانی بھائی کے پڑوس سے :lol:
ایک کہاوت سنی تھی کے یہودی کے ہاں سو مت اور عیسائی کے ہاں کھاؤ مت۔ لیکن شاید اس کھانے کی ممانعت صرف اجزاء اور ترکیب کی وجہ سے ہے۔
 

حسینی

محفلین
اہل کتاب ہیں کون جو کتاب اتری تھی وہ اب ہے کیا ؟پھر اہل کتاب کس کو کہیں؟

جہاں تک میری معلومات ہیں۔ اور میری معلومات ناقص بھی ہو سکتی ہیں۔ آج کے مسیحی اور یہودی پر بھی اہل کتاب کا اطلاق ہوتا ہے۔ اور ان پر وہی تمام شرعی احکام جاری ہوتے ہیں۔
فقہ تشیع کے مطابق اہل کتاب پاک ہیں۔ ان کے ساتھ کھانا پینا جائز اور ان کے جسم پاک ہیں۔۔۔ اور ان سے نکاح منقطع کرنا بھی جائز ہے۔

ان سب کے علاوہ مذکورہ واقعے کو اس تناظر میں دیکھا جائے۔۔ کہ جہاں لوگ ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہوں۔۔ چرچ، مساجد اور امام بارگاہیں کچھ بھی محفوظ نہیں۔
وہاں امن ، اتحاد، بھائی چارے اور رواداری کی صرف بات نہیں ، عملی مظاہرہ بھی ہو رہا ہے۔۔ اس طرح کی باتوں کی بجائے حوصلہ شکنی کرنے کے حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
اتحاد اور امن وہ اصول ہیں جن کے لیے اسلام کے بہت سارے فرعی احکام تبدیل ہو جاتے ہیں۔
 

عمار عامر

محفلین
ان سب کے علاوہ مذکورہ واقعے کو اس تناظر میں دیکھا جائے۔۔ کہ جہاں لوگ ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہوں۔۔ چرچ، مساجد اور امام بارگاہیں کچھ بھی محفوظ نہیں۔
وہاں امن ، اتحاد، بھائی چارے اور رواداری کی صرف بات نہیں ، عملی مظاہرہ بھی ہو رہا ہے۔۔ اس طرح کی باتوں کی بجائے حوصلہ شکنی کرنے کے حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
اتحاد اور امن وہ اصول ہیں جن کے لیے اسلام کے بہت سارے فرعی احکام تبدیل ہو جاتے ہیں۔

اتحاد و اتفاق کی خاطر متفقہ مجالس قائم کرنے، ایک اسٹیج پر بین المذاہب ڈائیلاگ، یا چرچ و مساجد میں تقریبات جن میں دونوں طرف کے لوگ شریک ہو سکیں، منعقد کی جا سکتی ہیں۔
لیکن اتحاد کا یہ مطلب بھی تو نہیں کہ آپ اپنے بنیادی اصولوں سے ہی دستبردار ہو جائیں۔ فرض نمازیں چرچ میں ادا کرنے لگ جائیں کہ بھائی چارہ بڑھے گا؟
پھر یہ بھی دیکھئے کہ اس سے مسلمان و عیسائی تو قریب آئیں گے یا نہیں، خود مسلمانوں ہی میں اختلاف و انتشار پھیلے گا، جس کی پہلے ہی کوئی کمی نہیں۔
 

عمار عامر

محفلین
۔
آپ اک مجہول خبر کے سہارے فتاوی کفر بانٹنے لگے اور وہ بھی احایث کے سہارے ۔۔۔۔۔
محترم میں نے کسی کی تکفیر نہیں کی اور یہ میرا مقام بھی نہیں۔ کسی سے دینی اختلاف کا یہ مطلب نہیں کہ اسے کافر قرار دیا جائے۔یا اختلاف کرنے والے پر فتاویٰ کفر بانٹنے کا بہتان عائد کر دیا جائے۔


کیا ہی بہتر ہو کہ آپ قران پاک کوئی ایسی آیت سامنے لے آئیں جس میں چرچ کلیسا یا یہودیوں کی عبادت گاہوں میں جانے کی ممانعت ہو ۔۔۔
اہل علم جانتے ہیں کہ دینی معاملات میں حکم دیکھا جاتا ہے اور دنیاوی معاملات میں منع کی دلیل پوچھی جاتی ہے۔
چرچ یا کلیسا یا یہودیوں کی عبادت گاہوں میں جانے کی ممانعت کا قائل ہی کون ہے؟
قرآن نے فرض نماز مسجد میں ادا کرنے کا حکم دیا ہے، اور رکوع و سجود کرنے والوں کے ساتھ رکوع و سجود کا حکم دیا ہے۔ ہمیں اتنا ہی کرنا چاہئے ، جتنا قرآن نے کہہ دیا۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کبھی کسی کلیسا میں یا یہودیوں کی عبادت گاہ میں ایک دفعہ بھی فرض یا نفل نماز ادا کی ہو، تو ہمارے لئے بالکل جائز و درست ہوگا، ورنہ نہیں۔
مسجدالحرام میں مشرکین کا داخلہ ممنوع ہے ۔۔ کیا قران پاک نے اس آیت میں یہود و نصاری کو براہ راست نام سے مخاطب کیا ہے ۔۔۔ ؟
چودہ سو سال میں حرمین شریفین کی توسیع و تعمیر میں شامل جن یہود ونصاری کویہاں داخلے کی اجازت ملتی رہی ۔کیا وہ اس آیت مبارکہ کے حکم کے خلاف تھی ۔۔؟
آپ سمجھے نہیں بھائی۔
آپ نے اعتراض کیا تھا کہ لگتا ہے مختلف فیہ احادیث توگھول کر پی لیں مگر قران پاک کے پیغام انسانیت سے انجان رہے ۔
مجھے لگا کہ آپ شاید مساجد میں غیرمسلموں کو عبادت سے منع کرنے والی بات کو قرآن کے مخالف سمجھ رہے ہیں۔
جبکہ قرآن سے ثابت ہے کہ مشرکین کو بھی مسجد حرام میں داخلہ تک کی اجازت نہیں۔کجا یہ کہ عبادت کی اجازت ہو۔
اگر یہ انسانیت کے خلاف نہیں (کیونکہ مشرک بھی بہرحال انسان تو ہیں نا) تو وہ انسانیت کے خلاف کیسے؟
چودہ سو سال میں حرمین شریفین میں کسی یہودی یا نصرانی کو عبادت کی اجازت دی گئی ہو تو پیش کیجئے، کیونکہ یہود و نصاریٰ کے حوالے سے اصل محل اعتراض وہی ہے۔مجرد ان کا داخلہ ممنوع نہیں۔
 
وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنۡ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰہِ اَنۡ یُّذۡکَرَ فِیۡہَا اسۡمُہٗ وَ سَعٰی فِیۡ خَرَابِہَا ؕ اُولٰٓئِکَ مَا کَانَ لَہُمۡ اَنۡ یَّدۡخُلُوۡہَاۤ اِلَّا خَآئِفِیۡنَ ۬ؕ لَہُمۡ فِی الدُّنۡیَا خِزۡیٌ وَّ لَہُمۡ فِی الۡاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱۱۴﴾
اور اس سے زیادہ ظالم کون ہے جس نے منع کیا کہ اللہ کی مسجدوں میں اس کا نام بلند کیا جائے اور انہیں ویران کرنے کی کوشش کی۔ (حالانکہ) ان کے لئے اس کے سوا کچھ جائز نہ تھا کہ وہ ان (مسجدوں) میں ڈرتے ہوئے داخل ہوتے۔ ان کے لئے دنیا میں ذلت اور آخرت میں بہت بڑا عذاب (مقدر) ہے۔
[جالندھری]‏ اور اس سے بڑھ کر کون ظالم ہے جو خدا کی مسجدوں میں خدا کے نام کا ذکر کئے جانے کو منع کرے اور ان کی ویرانی میں ساعی ہو؟ ان لوگوں کو کچھ حق نہیں کہ ان میں داخل ہوں مگر ڈرتے ہوئے ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں بڑا عذاب ہے ‏
[محمودالحسن‏] اور اس سے بڑا ظالم کون جس نے منع کیا اللہ کی مسجدوں میں کہ لیا جاوے وہاں نام اس کا اور کوشش کی ان کے اجاڑنے میں ف٤ ایسوں کو لائق نہیں کہ داخل ہوں ان میں مگر ڈرتے ہوئے ف۵ ان کے لئے دنیا میں ذلت ہے ف ٦ اور ان کے لئے آخرت میں بڑا عذاب ہے‏
[جوناگڑھی]‏ اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ تعالٰی کی مسجدوں میں اللہ تعالٰی کے ذکر کئے جانے کو روکے (١) ان کی بربادی کی کوشش کرے (٢) ایسے لوگوں کو خوف کھاتے ہوئے ہی اس میں جانا چاہیے (٣) ان کے لئے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں بھی بڑا عذاب ہے۔‏
تفسیر ابن كثیر
نصاریٰ اور یہودی مکافات عمل کا شکار!
اس آیت کی تفسیر میں دو قول ہیں ایک تو یہ کہ اس سے مراد نصاریٰ ہیں دوسرا یہ کہ اس سے مراد مشرکین ہیں نصرانی بھی بیت المقدس کی مسجد میں پلیدی ڈال دیتے تھے اور لوگوں کو اس میں نماز ادا کرنے سے روکتے تھے، بخت نصر نے جب بیت المقدس کی بربادی کے لئے چڑھائی کے تھی تو ان نصرانیوں نے اس کا ساتھ دیا تھا اور مدد کی تھی، بخت نصر بابل کا رہنے والا مجوسی تھا اور یہودیوں کی دشمنی پر نصرانیوں نے بھی اس کا ساتھ دیا تھا اور اس لئے بھی کہ بنی اسرائیل نے حضرت یحییٰ بن زکریا علیہ السلام کو قتل کر ڈالا تھا اور مشرکین نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حدیبیہ والے سال کعبتہ اللہ سے روکا تھا یہاں تک کہ ذی طوی میں آپ کو قربانیاں دینا پڑیں اور مشرکین سے صلح کرنے کے بعد آپ وہیں سے واپس آ گئے حالانکہ یہ امن کی جگہ تھی باپ اور بھائی کے قاتل کو بھی یہاں کوئی نہیں چھیڑتا تھا اور ان کی کوشش یہی تھی کہ ذکر اللہ اور حج و عمرہ کرنے والی مسلم جماعت کو روک دیں حضرت ابن عباس کا یہی قول ہے ابن جریر نے پہلے قول کو پسند فرمایا ہے اور کہا ہے کہ مشرکین کعبتہ اللہ کو برباد کرنے کی سعی نہیں کرتے تھے یہ سعی نصاری کی تھی کہ وہ بیت المقدس کی ویرانی کے درپے ہو گئے تھے۔ لیکن حقیقت میں دوسرا قول زیادہ صحیح ہے، ابن زید اور حضرت عباس کا قول بھی یہی ہے اور اس بات کو بھی نہ بھولنا چاہئے کہ جب نصرانیوں نے یہودیوں کو بیت المقدس سے روکا تھا اس وقت یہودی بھی محض بےدین ہو چکے تھے ان پر تو حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ بن مریم کی زبانی لعنتیں نازل ہو چکی تھیں وہ نافرمان اور حد سے متجاوز ہو چکے تھے اور نصرانی حضرت مسیح کے دین پر تھے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت سے مراد مشرکین مکہ ہیں اور یہ بھی ایک وجہ ہے کہ اوپر یہود و نصاریٰ کی مذمت بیان ہوئی تھی اور یہاں مشرکین عرب کی اس بدخصلت کا بیان ہو رہا ہے کہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابیوں کو مسجد الحرام سے روکا مکہ سے نکالا پھر حج وغیرہ سے بھی روک دیا۔ امام ابن جریر کا یہ فرمان کہ مکہ والے بیت اللہ کی ویرانی میں کوشاں نہ تھے اس کا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کو وہاں سے روکنے اور نکال دینے اور بیت اللہ میں بت بٹھا دینے سے بڑھ کر اس کی ویرانی کیا ہو سکتی ہے؟ خود قرآن میں موجود ہے آیت (وھم یصدون عن المسجد الحرام) اور جگہ فرمایا آیت (ما کان للمشرکین ان یعمروا) الخ یعنی یہ لوگ مسجد حرام سے روکتے ہیں مشرکوں سے اللہ کی مسجدیں آباد نہیں ہو سکتیں جو اپنے کفر کے خود گواہ ہیں جن کے اعمال غارت ہیں اور جو ہمیشہ کے لئے جہنمی ہیں مسجدوں کی آبادی ان لوگوں سے ہوتی ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والے اور نماز و زکوۃ کے پابند اور صرف اللہ ہی سے ڈرنے والے ہیں یہی لوگ راہ راست والے ہیں اور جگہ فرمایا آیت (ھم الذین کفروا و صدو کم عن المسجد الحرام) الخ ان لوگوں نے بھی کفر کیا اور تمہیں مسجد حرام سے بھی روکا اور قربانیوں کو ان کے ذبح ہونے کی جگہ تک نہ پہنچنے دیا اگر ہمیں ان مومن مردوں عورتوں کا خیال نہ ہوتا جو اپنی ضعیفی اور کم قوتی کے باعث مکہ سے نہیں نکل سکے۔ جنہیں تم جانتے بھی نہیں ہو تو ہم تمہیں ان سے لڑ کر ان کے غارت کر دینے کا حکم دیتے لیکن یہ بےگناہ مسلمان پیس نہ دیئے جائیں اس لئے ہم نے سردست یہ حکم نہیں دیا لیکن یہ کفار اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے تو وہ وقت دور نہیں جب ان پر ہمارے درد ناک عذاب برس پڑیں۔ پس جب وہ مسلمان ہستیں جن سے مسجدوں کی آبادی حقیقی معنی میں ہے وہ ہی روک دیئے گئے تو مسجدوں کے اجاڑنے میں کوسنی کمی رہ گئی؟ مسجدوں کی آبادی صرف ظاہری زیب و زینت رنگ و روغن سے نہیں ہوتی بلکہ اس میں ذکر اللہ ہونا اس میں شریعت کا قائم رہنا اور شرک اور ظاہری میل کچیل سے پاک رکھنا یہ ان کی حقیقی آبادی ہے پھر فرمایا کہ انہیں لائق نہیں کہ بےخوفی اور بےباکی کے ساتھ بیت اللہ میں نہ آنے دو ہم تمہیں غالب کر دیں گے اس وقت یہی کرنا چنانچہ جب مکہ فتح ہو گیا اگلے سال ۹ہجری اعلان کرا دیا کہ اس سال کے بعد حج میں کوئی مشرک نہ آنے پائے اور بیت اللہ شریف کا طواف کوئی ننگا ہو کر نہ کرے جن لوگوں کے درمیان صلح کی کوئی مدت مقرر ہوئی ہے وہ قائم ہے یہ حکم دراصل تصدیق اور عمل ہے اس آیت پر آیت (یا ایھا الذین امنوا انما المشرکون نجس فلا یقربوا المسجد الحرام بعد عامھم ھذا) یعنی مشرک لوگ نجس ہیں اس سال کے بعد انہیں مسجد حرام میں نہ آنے دو اور یہ معنی بھی بیان کئے گئے ہیں کہ چاہئے تو یہ تھا کہ یہ مشرک کانپتے ہوئے اور خوف زدہ مسجد میں آئیں لیکن برخلاف اس کے الٹے یہ مسلمانوں کو روک رہے ہیں یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالٰی ایمانداروں کو بشارت دیتا ہے کہ عنقریب میں تمہیں غلبہ دوں گا اور یہ مشرک اس مسجد کی طرف رخ کرنے سے بھی کپکپانے لگیں گے چنانچہ یہی ہوا اور حضور علیہ السلام نے وصیت کی کہ جزیرہ عرب میں دو دین باقی نہ رہنے پائیں اور یہود و نصاریٰ کو وہاں سے نکال دیا جائے الحمد اللہ کہ اس امت کے بزرگوں نے اس وصیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل بھی کر دکھایا اس سے مسجدوں کی فضیلت اور بزرگی بھی ثابت ہوئی بالخصوص اس جگہ کی اور مسجد کی جہاں سب سے بڑے اور کل جن وانس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھیجے گئے تھے۔ ان کافر پر دنیا کی رسوائی بھی آئی، جس طرح انہوں نے مسلمانوں کو روکا جلا وطن کیا ٹھیک اس کا پورا بدلہ انہیں ملا یہ بھی روکے گئے، جلا وطن کئے گئے اور ابھی اخروی عذاب باقی ہیں کیونکہ انہوں نے بیت اللہ شریف کی حرمت توڑی وہاں بت بٹھائے غیر اللہ سے دعائیں اور مناجاتیں شروع کر دیں۔ ننگے ہو کر بیت اللہ کا طواف کیا وغیرہ اور اگر اس سے مراد نصرانی لئے جائیں تو بھی ظاہر ہے کہ انہوں نے بھی بیت المقدس کی بےحرمتی کی تھی، بالخصوص اس صخرہ(پتھر) کی جس کی طرف یہود نماز پڑھتے تھے، اسی طرح جب یہودیوں نے بھی نصرانیوں سے بہت زیادہ ہتک کی اور تو ان پر ذلت بھی اس وجہ سے زیادہ نازل ہوئی دنیا کی رسوائی سے مراد امام مہدی کے زمانہ کی رسوائی بھی ہے اور جزیہ کی ادائیگی بھی ہے حدیث شریف میں ایک دعا وارد ہوئی ہے۔دعا( اللھم احسن عاقبتنا فی الامور کلھا واجرنا من خزی الدنیا و عذاب الاخرۃ) اے اللہ تو ہمارے تمام کاموں کا انجام اچھا کر اور دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب سے نجات دے۔ یہ حدیث حسن ہے مسند احمد میں موجود ہے صحاح ستہ میں نہیں اس کے راوی بشر بن ارطاۃ صحابی ہیں۔ ان سے ایک تو یہ حدیث مروی ہے دوسری وہ حدیث مروی ہے جس میں ہے کہ غزوے اور جنگ کے موقعہ پر ہاتھ نہ کاٹے جائیں۔
 
اب کوئی صاحب یہ اعتراض نہ فرمائیں کہ عید میلاد بھی اگر عید ہے تو اس کی نماز کیوں نہیں ہوتی۔

چرچ میں عید کی نماز ہوئی ہو یا باجماعت نوافل ادا کئے گئے ہوں۔ یہ فعل غلط تھا۔
کتنی قلابازیاں کھائیں گے جناب؟ ایک بات کا خود آپ کو حتمی علم نہیں تو آپ نے ایک دم گولہ باری کیوں شروع کردی؟

محترم بھائی، خبر میں یہ الفاظ موجود ہیں کہ "ایسا بھی پہلی بار ہوا ہے کہ مسلمانوں نے چرچ کے اندر نماز ادا کی ہو"۔
آپ تو ایکسپریس اخبار کی خبر پر ایسے ایمان لے آئے ہیں جیسے اخبار نہ ہوا، الہامی کتاب ہوگئی۔ یا آپ اتنے سادہ لوح ہیں کہ آپ کو ہمارے خبری میڈیا کی بے خبری کا تاحال علم نہیں ہے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top