بیگم (شوہرسے) ۔۔ سنو جی ۔ تم میری محبت میں میرا نام لکھ سکتے ہو ؟
شوہر ۔۔ " کیوں نہیں بیگم۔ (قلم پکڑ کر) بتاؤ کہاں نام لکھوں ۔ دل پر یا ہاتھ پر ؟"
بیگم ۔۔ " نہیں ۔ تمھارے پراپرٹی کے کاغذات پر "
فوجی کی ڈیوٹی ایک بارڈر ایریا پر تھی ۔ چھٹی ملنا مشکل تھا۔ ایک دن اسے اپنی ساس کی طرف سے خط موصول ہوا۔
" دیکھو بیٹا ! میری بیٹی یعنی تمھاری بیگم بہت اکیلی رہتی ہے۔ تمھاری پورے خاندان اور گھر کے کام کاج کرتی ہے۔ ایک تم ہو کہ نوکری سر پر اٹھا رکھی ہے۔ کئی کئی مہینوں تک گھر نہیں آتے۔
اب جلدی سے کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر چھٹی لے کر گھر آؤ"
فوجی نے چٹھی پڑھی ۔ جواب لکھا اور ساس کو پارسل کردیا۔
ساس کو پارسل موصول ہوا تو اس میں ایک گرنیڈ تھا اور خط تھا۔ لکھا تھا
" آنٹی جی ۔ اگر آپ اس امرود نما چیز کی پن کھینچ لیں تو مجھے ایک ہفتہ چھٹی مل سکتی ہے۔ "
داماد نے اپنی ساس کے سامنے اپنی بیوی کی خامیاں گنواتے ہوئے کہا،
اماں، تمہاری بیٹی نے میری زندگی جہنم بنا رکھی ہے،
نہ تو اسے کھانا بنانا آتا ہے اور نہ ہی ڈھنگ سے کپڑے پہننا،
صفائی ستھرائی سے تو اسکی خاص دشمنی ہے،
اگر کوئی مہمان آ جائے تو اسکے سامنے بھی ایسے پھوہڑ پن کا مظاہرہ کرتی ہے کہ میں شرمندہ ہو کر رہ جاتا ہوں،
ساس نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہا،
تم ٹھیک کہتے ہو بیٹا،
،
اگر ایس کمینی نوں عقل موت ہوندی تے
،
،
،
،
،
،
،
،
،
،
،
،
،
،
،
،
،
،
،
ایہنوں کوئی چج دا رشتہ نہ مل جاندا۔
شوہر کا پیغام
آفس سے واپسی کا وقت ہوچکا تھا۔ لیکن شوہر ابھی تک گھر نہیں پہنچا۔ اچانک بیگم کے فون پرشوہر کا ایس ایم ایس آیا
ڈئیر! پریشان نہیں ہونا میں ہسپتال میں ہوں۔ آفس سے نکلتے وقت سیڑھیوں سے پاؤں پھسلا ۔میں تکلیف کی وجہ سے نیم بےہوشی کی حالت میں چلا گیا۔ ایک خاتون نےہمدردی کرکے ایمبولنس کو فون کیااور میں ہسپتال پہنچا۔ ڈاکٹرز نے ٹیسٹ کیے ہیں۔ پلیز پریشان نہیں ہونا۔ سر میں ہلکی سی چوٹ آئی ہے۔ چہرے پر بظاہر خراش ہے لیکن جبڑہ شدید زخمی ہے۔ ایک بازو بھی ٹوٹا ہے۔ ڈاکٹرزنے ٹانگ پر بھی پلاسٹر چڑھایا ہے جس کی وجہ سے فی الحال چل پھر نہیں سکتا۔ پلیز پریشان نہیں ہونا۔ دو پسلیاں کریک ہوئی ہیں۔ لیکن ڈاکٹرز کا کہنا ہے کچھ عرصہ تک خود بخود ٹھیک ہوجائیں گی۔ میں نے سوچا تمھیں پیغام کرکے اطلاع کردوں۔ "
بیوی کا جواب وہ ہمدرد خاتون کون تھی ؟
ایک افریقن اپنی فیملی کے ساتھ جنگل میں رہتا تھا ،ایک دن اُسے جنگل سے ایک شیشہ ملا، وہ سمجھا کہ اُس کے باپ کی تصویر ھے ، وہ اُسے اپنے ساتھ گھر لے آیا ،اور روز اُس شیشے سے باتیں کرتا تھا ،
اُس کی بیوی کو شک ہوا ، ایک دن شوہر کی غیر موجودگی اُس نے شیشہ نکالا اور اپنا عکس دیکھ کر بولی" اچھا تو یہ ھے وہ کلموہی جس سے میرا شوہر روز باتیں کرتا ھے"
اُس نے شیشہ اپنی ساس کو دکھایا تو ساس بولی،
"چڑیل کی عمر دیکھو اور کرتوت دیکھو "
کسی نے مرزا صاحب سے پوچھا کہ آپ کے خیال میں محبت شادی سے پہلے ہونی چاہئیے یا شادی کے بعد؟
جس پر مرزا صاحب نے ارشاد فرمایا،
اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ محبت شادی سے پہلے کرو یا بعد میں، مگر بیوی کو اسکی ہوا بھی نہیں لگنی چاہئیے ورنہ آپکی دو چار ہڈیوں میں فریکچر بھی ہوسکتا ہے۔
ایک شیر کی شادی ہو رہی تھی ۔
اچانک ایک چوہے نے آ کر فائرنگ شروع کر دی تو سب دُبک کر بیٹھ گئے ۔
چوہے نے شیر سے کہا : " اگر خیریت چاہتے ہو تو ولیمے کا کھانا خاموشی سے میرے بِل میں پہنچا دینا ۔۔ "
چوہے کے چلے جانے کے بعد ہاتھی نے شیر سے کہا : " یار ! تم جنگل کے بادشاہ ہو اور وہ ایک حقیر سا چوہا تمہارے سامنے بدمعاشی کر رہا تھا ۔ لعنت ہے ۔۔ "
شیر نے وضاحت کرتے ہوئے کہا : " تم نہیں جانتے ، یہ آج کل امریکی جاسوسوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے ۔۔
کلاس میں سمندری مخلوق پر گفتگو کرتے ہوئے میڈم نے بتایا کہ وھیل مچھلی 30 دن تک بغیر کچھ کھائے زندہ رہ سکتی ہے۔ جس پر ایک بچہ حیرت میں ڈوب گیا۔ کھڑے ہو کر کہنے لگا
" لیکن میڈم ! میں نے تو بائیولوجی کی کتاب میں پڑھا تھا کہ وھیل مچھلی بغیر کھائے صرف 10 دن زندہ رہ سکتی "
میڈم سٹپٹا گئی ۔ اپنی بات پر قائم رہتے ہوئے بولی " نہیں ! وہ 30 دن تک زندہ رہتی ہے"
بچے نے میڈم کے غصے اور بحث سے بچنے کے لیے بیٹھتے ہوئے کہا
" ٹھیک ہے۔ جب میں جنت میں جاؤں گا تو وھیل مچھلی سے خود ہی پوچھ لوں گا"
میڈم نے بچے کو مزید چڑانے کے لیے فاتحانہ انداز میں چوٹ کی
" لیکن اگر وھیل مچھلی جنت کی بجائے جہنم میں چلی گئی تو ۔۔۔۔۔۔۔ "
" تو میڈم ۔ پھر آپ پوچھ لیجئے گا " بچے نے کندھے اچکا کر جواب دیا
ایک قناعت پسند بیوی نے اپنے شوہر سے کہا کہ اگر میں مرگئی تو تم کتنے دن بعد دوسری شادی کروگے؟
شوہر نے جواب دیا: تم ایک قناعت پسند، سمجھدار عورت ہو، اب تم ہی بتائو اس مہنگائی کے دور میں گھڑی گھڑی کون شادی کا خرچہ کرے گا! ساری زندگی تم سے قناعت سیکھی ہے، اس لیے میری تو یہی کوشش ہوگی کہ تمہارے سوئم والی بریانی میں اپنا ولیمہ بھی نمٹ جائے۔.
ایک مرتبہ ملا نصرالدین کو خطبہ دینے کی دعوت دی گئی۔ مگر ملا اس خطبہ کے لیے دل سے راضی نہیں تھے۔ خیر، ممبر پہ کھڑے ہوکر ملا نے حاضرین سے خطب کرتے ہوئے پوچھا
‘‘ کیا آپ جانتے ہیں کہ میں اپنے خطبہ میں کیا کہنے والا ہوں؟‘‘ لوگوں نے جواب دیا ‘‘نہیں‘‘۔
ملا نے کہا ‘‘میں ان لوگوں سے خطاب کرنا نہیں چاہتا، جو یہ تک نہیں جانتے کہ میں کیا کہنے والا ہوں‘‘،
یہ کہتے ہوئے ملا وہاں سے رخصت ہوگئے۔لوگ تعجب میں پڑگئے، دوسرے ہفتہ پھر ملا کو خطبہ کے لیے طلب کیا گیا۔
اس مرتبہ ملا منبر پر کھڑے ہوکر پھر یہی سوال کیا، تو لوگوں جواب میں ‘‘ہاں‘‘ کہا۔
نصرالدین نے کہا ‘‘اچھا، تو آپ جانتے ہیں کہ میں کیا کہنے والا ہوں، تو میں میرا قیمتی وقت برباد کرنا نہیں چاہتا‘‘
اور پھر نکل پڑے۔اس بار لوگ تذبذب میں پڑگئے، اور فیصلہ کیا کہ ملا کے پھرسے خطبہ کےلیے مدعوکیا جائے۔
تیسرے ہفتے ملا پھر تشریف لائے، حسب مطابق وہی سوال پوچھا۔ اس بار لوگ تیار تھے کہ جواب میں کیا کہناہے، نصف لوگوں نے کہا ‘‘ہاں‘‘ تو بقیہ لوگوں نے ‘‘نہیں‘‘ کہا ‘‘وہ لوگ جو یہ جانتےہیں کہ میں کیا کہنے والا ہوں، بقیہ لوگوں کو بتادیں‘‘ یہ کہہ کر لوٹ گئے۔
شیخ سعدیؒ دعوت میں گئے کسی نے بات نہ پوچھی، اچھے کپڑوں والوں کی بات خوب پوچھی گئی،دوسری مرتبہ دعوت میں بہترین کپڑے پہن کرگئے توکھانا کپڑوں پرڈالنے لگے لوگوں نے معلوم کیا کہ شیخ ایسا کیوں کررہے ہیں توکہا کہ میری دعوت نہیں بلکہ کپڑوں کی دعوت ہے۔