مائے نی میں کنوں آکھاں

طالب سحر

محفلین
ہم نے تو دیکھا ہے کہ جس کے پاس زیادہ علم ہوتا ہے وہ زیادہ پُر اعتماد ہوتا ہے اس شخص کی نسبت جس کے پاس علم کم ہو۔ یہاں ہم یہ بات واضح کر دیں کہ ویسے تو ہم دنیاوی علم کی بات کر رہے ہیں لیکن ہمارا خیال ہے کہ دینی علم پر بھی یہی بات لاگو ہوتی ہے۔

آپ کی بات درست ہے مگر اس کا اطلاق علم میں ترقی کی ابتدائی صورتوں ہی پر کیا جا سکتا ہے۔ لیکن جب یہ علم ایک خاص حد سے بڑھ جائے تو انسان سے سنبھالے نہیں سنبھلتا۔ آپ تو انگریزی کی استاد ہیں۔ ہیملٹ کا تذبذب تو آپ کو یاد ہو گا؟
کیا آپ کہہ سکتی ہیں کہ انکشاف (anagnorosis) کے بعد جب ہیملٹ کے پاس 'زیادہ علم' موجود تھا، وہ زیادہ پراعتماد ہو گیا تھا؟
راحیل فاروق گو کہ آپ کی مخاطب لاریب مرزا ہیں، لیکن مجھے امید ہے کہ آپ اس سلسلے میں میری رائے بھی سن لیں گے۔ میرے خیال میں ہیملٹ کی خود کلامی "عرفانِ ذات" کا نتیجہ تھی جسے مروجہ اور معروف معنوں میں "اپنے سے باہر کے علم" سے ہٹا کر دیکھا جاتا ہے- جو تھوڑا بہت مجھے سمجھ آیا ھے، یہ تخصیص ویدانتی فکر اور وحدت الوجود میں موجود نہیں ہے، کیونکہ وہاں سب کچھ -- بسمیت علم و آگہی -- ایک ہی ہے- تاہم فلسفہ (خصوصاً وہ جسے "مغربی" فلسفہ کہا جاتا ہے) میں تو یہ دونوں چیزیں الگ ہیں، گو کہ کچھ overlap بھی ہو سکتا ہے-

دوسری بات:
سچ تو یہ ہے کہ داناؤں کی جھجک اور تردد ان کے بڑھے ہوئے علم اور بصیرت کے باعث ہی ہوتا ہے۔ <...> اس کے برعکس جوں جوں علم میں ترقی ہوتی ہے توں توں مختلف و متبائن نکتہ ہائے نظر سے تعارف ہونے کے باعث کسی ایک خیال پر قائم ہونا دشوار ہونے لگتا ہے اور انسان کے دل میں بے یقینی راہ پانے لگتی ہے۔
یہ تردد اور تذبذب ہی تو علم بڑھاتی ھے- مزید برآں، Wittgenstein کا تو یہ کہنا ہے کہ شبہہ کرنے کے لئے کچھ چیزوں پر یقین کرنا ضروری ہے-

ایک ضمنی بات یہ ہے کہ کیا علم کے لئے ضروری ہے کہ وہ صرف absolute میں اظہار کرے؛ سچ صرف ایک ہو، اور shades of grey اور relativism کی ممانعت ہو؟

نمبر تین:
حالانکہ خالص سائنس تو عام طور پر اپنے ثمرات کے سماجی مضمرات پر نظر ڈالنی بھی گوارا نہیں کرتی۔
سائنس کوئی جامد چیز تو ہے نہیں اور نہ ہی اس کی حدود اتنی متعین ہیں کہ اس کو سماجی مضمرات سے دور رہنے میں ہی عافیت ہو- سچ تو یہ ہے کہ سائنس کی practice ایک انسانی عمل ہے- کچھ سائنس دان سماجی مضمرات کی پرواہ نہیں کرتے ہیں، اور کچھ کرتے ہیں- یہ اسی طرح سے ہے جس طرح کسی مذہب کے ماننے والوں میں سماج اور سماجی رویوں کے بارے میں بالکل یکساں practice نہیں پائی جاتی-
 

نور وجدان

لائبریرین
راحیل فاروق گو کہ آپ کی مخاطب لاریب مرزا ہیں، لیکن مجھے امید ہے کہ آپ اس سلسلے میں میری رائے بھی سن لیں گے۔ میرے خیال میں ہیملٹ کی خود کلامی "عرفانِ ذات" کا نتیجہ تھی جسے مروجہ اور معروف معنوں میں "اپنے سے باہر کے علم" سے ہٹا کر دیکھا جاتا ہے- جو تھوڑا بہت مجھے سمجھ آیا ھے، یہ تخصیص ویدانتی فکر اور وحدت الوجود میں موجود نہیں ہے، کیونکہ وہاں سب کچھ -- بسمیت علم و آگہی -- ایک ہی ہے- تاہم فلسفہ (خصوصاً وہ جسے "مغربی" فلسفہ کہا جاتا ہے) میں تو یہ دونوں چیزیں الگ ہیں، گو کہ کچھ overlap بھی ہو سکتا ہے-
دوسری بات یہی کہ کیا ہیملٹ کا تذبذب اس کے یقین میں نہیں بدلا تھا ؟ ہیلمٹ نے کہا ''عورت جس کا نام کمزوری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ ہیملٹ کی ماں کے تجربے پر مبنی خیال کیا اوفیلیہ کا خودکشی کا پیش خیمہ ثابت نہیں ہوا یا لرٹیز کو جب ہیملٹ نے قتل کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا کشکمکش یقین میں نہ بدلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔انسان کی گومگو حالت کم علمی کی وجہ سے کہ حد درجہ یقین عرفان ذات تک لے جاتا ہے ۔کالرج کے مطابق ''ہیملٹ ''شکئپئر کا آرٹسٹک فیلیر تھا کہ ایک طرف ہیلمٹ سب علم رکھتا ہے اور دوسری طرف کشمکش ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس بارے میں شاید کہیں پڑھا ہوگا کسی نے ؟ باوجود مشہور ہونے کہ یہ ڈرامہ ایک آرٹسٹک فیلیر ثابت ہوا
 

طالب سحر

محفلین
کالرج کے مطابق ''ہیملٹ ''شکئپئر کا آرٹسٹک فیلیر تھا کہ ایک طرف ہیلمٹ سب علم رکھتا ہے اور دوسری طرف کشمکش ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس بارے میں شاید کہیں پڑھا ہوگا کسی نے ؟ باوجود مشہور ہونے کہ یہ ڈرامہ ایک آرٹسٹک فیلیر ثابت ہوا

یہ جملہ کالرج کا نہیں بلکہ ایلیٹ کا ہے۔ دیکھئے Hamlet and His Problems
 
راحیل فاروق گو کہ آپ کی مخاطب لاریب مرزا ہیں، لیکن مجھے امید ہے کہ آپ اس سلسلے میں میری رائے بھی سن لیں گے۔ میرے خیال میں ہیملٹ کی خود کلامی "عرفانِ ذات" کا نتیجہ تھی جسے مروجہ اور معروف معنوں میں "اپنے سے باہر کے علم" سے ہٹا کر دیکھا جاتا ہے- جو تھوڑا بہت مجھے سمجھ آیا ھے، یہ تخصیص ویدانتی فکر اور وحدت الوجود میں موجود نہیں ہے، کیونکہ وہاں سب کچھ -- بسمیت علم و آگہی -- ایک ہی ہے- تاہم فلسفہ (خصوصاً وہ جسے "مغربی" فلسفہ کہا جاتا ہے) میں تو یہ دونوں چیزیں الگ ہیں، گو کہ کچھ overlap بھی ہو سکتا ہے-
مجھے آپ کی بات سے اتفاق ہے۔ مگر میں آپ کا مطمحِ نظر نہیں سمجھا۔
یہ تردد اور تذبذب ہی تو علم بڑھاتی ھے- مزید برآں، Wittgenstein کا تو یہ کہنا ہے کہ شبہہ کرنے کے لئے کچھ چیزوں پر یقین کرنا ضروری ہے-
بجا۔ تردد سے علم میں افزونی ہوتی ہے اور علم میں افزونی سے تردد پیدا ہوتا ہے۔ وٹگنسٹائن کی بات بھی شک و شبہ سے بالا تر ہے۔
ایک ضمنی بات یہ ہے کہ کیا علم کے لئے ضروری ہے کہ وہ صرف absolute میں اظہار کرے؛ سچ صرف ایک ہو، اور shades of grey اور relativism کی ممانعت ہو؟
ضروری تو ایک طرف، ہمارے خیال میں مطلق اظہار ممکن ہی نہیں۔ یہی رائے تو ہم نے پیش کی ہے کہ علم کا اظہار فقط اضافی حالت ہی میں ممکن ہے اور وہ معتبر نہیں۔ مطلق علم کےابلاغ کی کوشش ہی بے سود ہے۔
سائنس کوئی جامد چیز تو ہے نہیں اور نہ ہی اس کی حدود اتنی متعین ہیں کہ اس کو سماجی مضمرات سے دور رہنے میں ہی عافیت ہو- سچ تو یہ ہے کہ سائنس کی practice ایک انسانی عمل ہے- کچھ سائنس دان سماجی مضمرات کی پرواہ نہیں کرتے ہیں، اور کچھ کرتے ہیں- یہ اسی طرح سے ہے جس طرح کسی مذہب کے ماننے والوں میں سماج اور سماجی رویوں کے بارے میں بالکل یکساں practice نہیں پائی جاتی-
سائنس اور سائنس دانوں کے رویوں میں وہی فرق ہے جو اسلام اور مسلمانوں میں ہے۔ میں نے فقط خالص سائنسی معیارات کی جانب توجہ دلانی چاہی تھی کہ وہ معاشرتی، اخلاقی، روحانی، مذہبی وغیرہ ہمہ قسم مضمرات کی پروا نہیں کرتے۔ سائنس دانوں کی بات الگ ہے۔ وہ انسان ہوتے ہیں اور ان کے تعصبات بہرحال اپنی جگہ ہیں۔ ڈاکٹر عبدالسلام اپنے کارنامے کا مآخذ قرآن کو بتاتے تھے اور جبکہ ان کے ساتھ نوبل انعام لینے والے سٹیون وائن برگ آزادانہ کام کرتے ہوئے بالکل اسی نتیجے پر اپنی کٹر دہریت کے ساتھ پہنچے تھے۔ یعنی سائنس دان کا کوئی عقیدہ ہو تو ہو، سائنس کا بہرحال کوئی نہیں۔
دوسری بات یہی کہ کیا ہیملٹ کا تذبذب اس کے یقین میں نہیں بدلا تھا ؟ ہیلمٹ نے کہا ''عورت جس کا نام کمزوری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ ہیملٹ کی ماں کے تجربے پر مبنی خیال کیا اوفیلیہ کا خودکشی کا پیش خیمہ ثابت نہیں ہوا یا لرٹیز کو جب ہیملٹ نے قتل کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا کشکمکش یقین میں نہ بدلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر اس وحشت اور جنون کو آپ یقین سمجھنے پر مصر ہیں تو چوہا لنڈورا ہی بھلا!
کالرج کے مطابق ''ہیملٹ ''شکئپئر کا آرٹسٹک فیلیر تھا کہ ایک طرف ہیلمٹ سب علم رکھتا ہے اور دوسری طرف کشمکش ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس بارے میں شاید کہیں پڑھا ہوگا کسی نے ؟ باوجود مشہور ہونے کہ یہ ڈرامہ ایک آرٹسٹک فیلیر ثابت ہوا
یہی تو نکتہ ہے کہ علم رکھنے والا ہی کشمکش کا شکار ہوتا ہے۔
جہاں تک آرٹسٹک فیلیر کا تعلق ہے تو میں یہی کہوں گا کہ انگریزی ادب کی نصابی کتب سے باہر آ جائیے۔ ان کتابوں میں تو ابھی تک ڈاکٹر فاؤسٹس کے پلاٹ کو کمزور قرار دیا جاتا ہے۔
 

طالب سحر

محفلین
مجھے آپ کی بات سے اتفاق ہے۔ مگر میں آپ کا مطمحِ نظر نہیں سمجھا۔
میں اس بات کی طرف اشارہ کر رہا تھا کہ لاریب مرزا جس علم کی بات کر رہی ہیں وہ بنیادی طور پر knowledge of the external world ہے، جبکہ ہیملٹ کا جملہ بنیادی طور پر self-knowledge کے زمرے میں آتا ہے- میں تسلیم کرتا ہوں کہ میرے ورلڈ ویو میں یہ دونوں کیٹیگیریز الگ الگ ہیں، گو کہ ان دونوں میں overlap بھی ہوسکتا ہے-

ضروری تو ایک طرف، ہمارے خیال میں مطلق اظہار ممکن ہی نہیں۔ یہی رائے تو ہم نے پیش کی ہے کہ علم کا اظہار فقط اضافی حالت ہی میں ممکن ہے اور وہ معتبر نہیں۔ مطلق علم کےابلاغ کی کوشش ہی بے سود ہے۔
میری رائے میں کوشش بے سود تو نہیں ہے، کیونکہ بقول کارل پوپر علم اپنی حقیقت میں approximation to the truth ہے- اب جتنا "سچ" ملتا جا رہا ہے، اسے غنیمت جاننا چاہیئے-
 
آخری تدوین:

La Alma

لائبریرین
اگر Absolute Reality کے تصور سے تائب هو جائیں تو مذہب کا کوئی جواز ہی باقی نہیں رہتا اور Science بھی اپنی موت آپ مر جائے گی کیونکہ عدم تحریک انسان کو بے عمل کر دے گی ۔ہاں حقیقت اپنی جگہ پر قائم رہے گی کیونکہ وہ عقائد و نظریات سے ماورا ہے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
یہی تو نکتہ ہے کہ علم رکھنے والا ہی کشمکش کا شکار ہوتا ہے۔
جہاں تک آرٹسٹک فیلیر کا تعلق ہے تو میں یہی کہوں گا کہ انگریزی ادب کی نصابی کتب سے باہر آ جائیے۔ ان کتابوں میں تو ابھی تک ڈاکٹر فاؤسٹس کے پلاٹ کو کمزور قرار دیا جاتا ہے۔

کمال ہے ۔۔۔۔۔ جنون اور عشق ایک ہی چیز کے دو نام ہیں ۔۔۔۔۔جب انسان کا یقین حد سے بڑھا جائے تو وہ جنون بن جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔جیسا کہ کہا جاتا ہے اگر ہیملٹ پاگل تھا تو تمام جینئس پاگل ہیں اور اگر جینئس پاگل ہوتے ہیں تو شیکسپئر بھی پاگل تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہی پاگل پن ۔۔۔۔۔یہی تو اس کو یقین پر لے گیا ۔یہی تو عرفان ذات ہے جو یقین ابھرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر فاسٹس واقعی ہی ایک کمزور پلاٹ کی حامل تھا یہ بات شکو شبہ سے بالا تر نہیں مگر کوئی بھی سوفوکلیز کی ایڈپس ریکس کو کمزور پلاٹ کا نہیں کہ سکتا ۔۔۔۔۔۔مگر یہاں اس نکتے پر بات کرنے کا فائدہ نہیں
 
کمال ہے ۔۔۔۔۔ جنون اور عشق ایک ہی چیز کے دو نام ہیں ۔۔۔۔۔جب انسان کا یقین حد سے بڑھا جائے تو وہ جنون بن جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔جیسا کہ کہا جاتا ہے اگر ہیملٹ پاگل تھا تو تمام جینئس پاگل ہیں اور اگر جینئس پاگل ہوتے ہیں تو شیکسپئر بھی پاگل تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہی پاگل پن ۔۔۔۔۔یہی تو اس کو یقین پر لے گیا ۔یہی تو عرفان ذات ہے جو یقین ابھرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر فاسٹس واقعی ہی ایک کمزور پلاٹ کی حامل تھا یہ بات شکو شبہ سے بالا تر نہیں مگر کوئی بھی سوفوکلیز کی ایڈپس ریکس کو کمزور پلاٹ کا نہیں کہ سکتا ۔۔۔۔۔۔مگر یہاں اس نکتے پر بات کرنے کا فائدہ نہیں
گوئٹے کی عظمت میں اگر آپ کو کوئی شبہ نہ ہو تو اس کی ڈاکٹر فاؤسٹس کے بارے میں رائے ملاحظہ فرمائیے:
اس میں کلام نہیں کہ ناقدین کی اکثریت گوئٹے کے اس خیال کو ناقابلِ فہم خیال کرتی ہے۔ مگر آج تک میری نظر سے ڈاکٹر فاؤسٹس کے بارے میں کوئی ایسا اعتراض نہیں گزرا جو مجھے منطقی معلوم ہوا ہو۔ پھر گوئٹے جیسی شخصیت کو جب میں اپنی تائید میں کھڑا ہوا پاتا ہوں (جس نے خود بھی کم و بیش اسی کہانی کو جرمن میں فاؤسٹ کے نام سے پیش کیا) اور عوام الناس کو اس ڈرامے پر جی جان سے واری جاتے دیکھتا ہوں تو میرے پاس کوئی وجہ نہیں رہ جاتی کہ اس کے پلاٹ کو کمزور قرار دوں۔ اگر آپ نے بوطیقا کا مطالعہ کیا ہے تو یہ تو آپ جانتی ہی ہوں گی کہ تنقید کے مسلمہ اصولوں کے مطابق کمزور پلاٹ کا حامل کھیل اثر پزیری میں ناکام رہتا ہے!
 

نور وجدان

لائبریرین
گوئٹے کی عظمت میں اگر آپ کو کوئی شبہ نہ ہو تو اس کی ڈاکٹر فاؤسٹس کے بارے میں رائے ملاحظہ فرمائیے:
اس میں کلام نہیں کہ ناقدین کی اکثریت گوئٹے کے اس خیال کو ناقابلِ فہم خیال کرتی ہے۔ مگر آج تک میری نظر سے ڈاکٹر فاؤسٹس کے بارے میں کوئی ایسا اعتراض نہیں گزرا جو مجھے منطقی معلوم ہوا ہو۔ پھر گوئٹے جیسی شخصیت کو جب میں اپنی تائید میں کھڑا ہوا پاتا ہوں (جس نے خود بھی کم و بیش اسی کہانی کو جرمن میں فاؤسٹ کے نام سے پیش کیا) اور عوام الناس کو اس ڈرامے پر جی جان سے واری جاتے دیکھتا ہوں تو میرے پاس کوئی وجہ نہیں رہ جاتی کہ اس کے پلاٹ کو کمزور قرار دوں۔ اگر آپ نے بوطیقا کا مطالعہ کیا ہے تو یہ تو آپ جانتی ہی ہوں گی کہ تنقید کے مسلمہ اصولوں کے مطابق کمزور پلاٹ کا حامل کھیل اثر پزیری میں ناکام رہتا ہے!
میں نے یقین کے بارے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے ۔ میں اپنی رائے کو کسی بھی فلسفی کی رائے سے اہم جانتی ہوں اس لیے بنا حوالہ دیے بات کی جانے چاہیے ۔ بلاشبہ مارلو کی اثرپذیری اس کی اعلی شاعرانہ زبان کی وجہ سے تھی ، شاعری کے بارے میں ہر کوئی جانتا اس میں کتنی اثر پذیری ہے ۔ اگر آپ کہتے اس کا پلاٹ کمزور نہیں ہے تو بتایے کیوں لگتا ہے کمزور نہیں ہے ۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اس میں کوئی خامی نہیں ہے تو ان اعتراضات کا دفاع کردیجئے ۔ مجھے اگر کوئی اعتراض ہوا تو اس پر بات کرلیں گے ورنہ اتفاق رائے ہوجائے گا ۔
 

طالب سحر

محفلین
اگر Absolute Reality کے تصور سے تائب هو جائیں تو مذہب کا کوئی جواز ہی باقی نہیں رہتا اور Science بھی اپنی موت آپ مر جائے گی کیونکہ عدم تحریک انسان کو بے عمل کر دے گی ۔ہاں حقیقت اپنی جگہ پر قائم رہے گی کیونکہ وہ عقائد و نظریات سے ماورا ہے۔

دیگر تمام انواع کی طرح انسان کی بنیادی جبلتیں اس کو عدم تحریک کی جانب لے کر نہیں جایئں گی۔ (یہاں ماحولیاتی آلودگی کے نتیجے میں معدومیت کے خطرے کا ذکر نہیں ہے۔) اب تو پہلے کے مقابلے میں انسانی تہذیب و تمدن کافی پیچیدہ ہوچکی ہے، اور عدم تحریک کا امکان تو نظر نہیں آتا- ویسے بھی انسان بمقابلہ فطرت تو شروع سے ہی ہے اور لگتا ہے کہ جاری رہے گا:

تو شب آفریدی چراغ آفریدم
سفال آفریدی ایاغ آفریدم
بیابان و کهسار و راغ آفریدی
خیابان و گلزار و باغ آفریدم
من آنم که از سنگ آئینه سازم
من آنم که از زهر نوشینه سازم
-- اقبال
منظوم ترجمہ: ربط
 
اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اس میں کوئی خامی نہیں ہے تو ان اعتراضات کا دفاع کردیجئے ۔ مجھے اگر کوئی اعتراض ہوا تو اس پر بات کرلیں گے ورنہ اتفاق رائے ہوجائے گا ۔
کن اعتراضات کا؟
مجھے بتائیے کہ آپ کو ڈاکٹر فاؤسٹس کے پلاٹ میں کیا سقم نظر آتا ہے؟ میں مقدور بھر تفہیم کے لیے حاضر ہوں۔
تو شب آفریدی چراغ آفریدم
سفال آفریدی ایاغ آفریدم
بیابان و کهسار و راغ آفریدی
خیابان و گلزار و باغ آفریدم
من آنم که از سنگ آئینه سازم
من آنم که از زهر نوشینه سازم
قصور وار، غریب الدیار ہوں، لیکن
ترا خرابہ فرشتے نہ کر سکے آباد ! ! !​
 

La Alma

لائبریرین
دیگر تمام انواع کی طرح انسان کی بنیادی جبلتیں اس کو عدم تحریک کی جانب لے کر نہیں جایئں گی۔ (یہاں ماحولیاتی آلودگی کے نتیجے میں معدومیت کے خطرے کا ذکر نہیں ہے۔) اب تو پہلے کے مقابلے میں انسانی تہذیب و تمدن کافی پیچیدہ ہوچکی ہے، اور عدم تحریک کا امکان تو نظر نہیں آتا- ویسے بھی انسان بمقابلہ فطرت تو شروع سے ہی ہے اور لگتا ہے کہ جاری رہے گا:

تو شب آفریدی چراغ آفریدم
سفال آفریدی ایاغ آفریدم
بیابان و کهسار و راغ آفریدی
خیابان و گلزار و باغ آفریدم
من آنم که از سنگ آئینه سازم
من آنم که از زهر نوشینه سازم
-- اقبال
منظوم ترجمہ: ربط
آپ کی بات بجا ہے ۔ انسان کی یہی بنیادی جبلت اسے مطلق حقیقت سے کبھی اعراض نہیں کرنے دے گی ۔بنیادی جبلت ارادے کی پابند نہیں ہوتی ، بلکہ ودیعت ہوتی ہے، ارادہ تو بس جبلت کی تشریح کرتا ہے ۔ یہاں ارادے سے مراد وہ " free will" نہیں جس کی بنیاد پر حق اور باطل کا انتخاب ہوتا ہے بلکہ وہ جستجو ہے جو قدرت کے رازوں سے پردہ اٹھاتی ہے جسے ہم روزمرہ بول چال میں " Science" کہتے ھیں۔
 

La Alma

لائبریرین
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ فطرت ، مذہب اور سائنس ایک ہی سلسلے کی کڑی ھیں جس کے سرے اس دن سے جا ملتے ھیں جب خدا نے آدم کوتمام اسماء کا علم سکھایا اور فرشتوں کے سامنے تخلیق انسانیت کی توجیہ بھی یہی پیش کی ۔یہ سارے علوم انسان کی فطرت میں بدرجہ اتم پہلے سے ہی موجود ھیں۔بس ارتقائی عمل کے نتیجے میں سلسلہ وار منکشف ہوتے ھیں، پھر کوئی پیروکار مذہب کا اتباع کرتےهوئےان تک رسائی حاصل کر لیتا ہے اور کوئی منکر اپنی فطری جستجو سے کام لیتا ہوا اپنا مقصد پا لیتا ہے اسی طرح کی ایک مثال جناب راحیل فاروق نے بھی اوپر ڈاکٹر عبدالسلام کی بابت بیان کرتےهوئے دی ہے۔یہ ودیعت کردہ فطرت انسان کو مطلق حقیقت سے بچھڑنے نہیں دے گی ۔اور یہی نت نئی تحقیق اور ایجادات کا در وا کرتی جائے گی ۔
 

طالب سحر

محفلین
آپ کی بات بجا ہے ۔ انسان کی یہی بنیادی جبلت اسے مطلق حقیقت سے کبھی اعراض نہیں کرنے دے گی ۔بنیادی جبلت ارادے کی پابند نہیں ہوتی ، بلکہ ودیعت ہوتی ہے، ارادہ تو بس جبلت کی تشریح کرتا ہے ۔ یہاں ارادے سے مراد وہ " free will" نہیں جس کی بنیاد پر حق اور باطل کا انتخاب ہوتا ہے بلکہ وہ جستجو ہے جو قدرت کے رازوں سے پردہ اٹھاتی ہے جسے ہم روزمرہ بول چال میں " Science" کہتے ھیں۔

آپ کے پہلے مراسلے میں جو استدلال ہے، وہ میں نے کچھ اس طرح سے سمجھا: absolute reality کے تصور سے تائب ہونے کے نتیجے میں انسان میں مذہب کا کوئی جواز نہیں ہو گا؛ اور انسان عدم تحریک کی وجہ سے بے عمل ہو جائے گا- آپ کا assertion یہ بھی تھا کہ ثانی الذکر کی وجہ سے سائنس بھی اپنی موت آپ مر جائے گی- میری رائے میں آپ نے پہلے مراسلے میں جو cause and effect بیان کئے ہیں، وہ درست نہیں ہیں- میرے خیال میں بحیثیتِ مجموعی انسان کی بنیادی جبلتیں اس کو عدم تحریک کی طرف مائل نہیں کر سکتی ہیں، جس کے نتیجے میں سائنس کا اپنی موت آپ مرنا بعید از خیال ہے-
 

نور وجدان

لائبریرین
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ فطرت ، مذہب اور سائنس ایک ہی سلسلے کی کڑی ھیں جس کے سرے اس دن سے جا ملتے ھیں جب خدا نے آدم کوتمام اسماء کا علم سکھایا اور فرشتوں کے سامنے تخلیق انسانیت کی توجیہ بھی یہی پیش کی ۔یہ سارے علوم انسان کی فطرت میں بدرجہ اتم پہلے سے ہی موجود ھیں۔بس ارتقائی عمل کے نتیجے میں سلسلہ وار منکشف ہوتے ھیں، پھر کوئی پیروکار مذہب کا اتباع کرتےهوئےان تک رسائی حاصل کر لیتا ہے اور کوئی منکر اپنی فطری جستجو سے کام لیتا ہوا اپنا مقصد پا لیتا ہے اسی طرح کی ایک مثال جناب راحیل فاروق نے بھی اوپر ڈاکٹر عبدالسلام کی بابت بیان کرتےهوئے دی ہے۔یہ ودیعت کردہ فطرت انسان کو مطلق حقیقت سے بچھڑنے نہیں دے گی ۔اور یہی نت نئی تحقیق اور ایجادات کا در وا کرتی جائے گی ۔
آپ کی اس بات سے تھوڑا سا اختلاف کروں گی کہ فطرت۔۔۔۔۔۔۔ مذہب اور سائنس پر حاوی ہوتی ہے ، جبکہ مروجہ شاخیں سے اس سے پھوٹتی ہیں ۔ انسان کا وجدان جب جاگ جاتا ہے تو انسان یقین کی جانب ہوتا ہے یا یقین پر قائم ہوتا ہے ۔ آئن سٹائن کو کریزی بھی کہا جاتا تھا مگر بہت بڑا سائنس دان تھا ۔ اس طرح یہاں بات ہیملٹ کی ہو رہی تھی کہ ہیملٹ دیوانگی کا چوغہ چڑھاتا ہے چونکہ اس نے علم اپنے تجربے سے حاصل نہیں کیا ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس لیے ''ٹو بھی ، ناٹ ٹو بھی ''۔۔۔۔۔۔۔کی کشمکش میں ہوتا ہے ۔۔۔۔جیسے ہی سارے حقائق پالیتا ہے تو اس کی دیوانگی میں فرزانگی کی گواہی پولینئس دیتا ہے ۔۔۔۔۔۔

Though this be madness, yet there is method in 't.

اگر اس وحشت اور جنون کو آپ یقین سمجھنے پر مصر ہیں تو چوہا لنڈورا ہی بھلا!

وحشت ، جنون ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور فرزانگی ایک ہی شخص میں کب اکٹھے ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔اس کی مثال اسی ڈرامے سے مل جاتی ہے ۔۔۔۔

کن اعتراضات کا؟
مجھے بتائیے کہ آپ کو ڈاکٹر فاؤسٹس کے پلاٹ میں کیا سقم نظر آتا ہے؟ میں مقدور بھر تفہیم کے لیے حاضر ہوں۔
فاسٹس کی بات آپ نے کی ہے ۔ آپ بہتر۔۔۔مجھے تو آپ کی اس بات سے اختلاف ہے کہ علم جب حد سے بڑھ جائے تو انسان کنفیوژ ہوجاتا ہے


 

La Alma

لائبریرین
آپ کے پہلے مراسلے میں جو استدلال ہے، وہ میں نے کچھ اس طرح سے سمجھا: absolute reality کے تصور سے تائب ہونے کے نتیجے میں انسان میں مذہب کا کوئی جواز نہیں ہو گا؛ اور انسان عدم تحریک کی وجہ سے بے عمل ہو جائے گا- آپ کا assertion یہ بھی تھا کہ ثانی الذکر کی وجہ سے سائنس بھی اپنی موت آپ مر جائے گی- میری رائے میں آپ نے پہلے مراسلے میں جو cause and effect بیان کئے ہیں، وہ درست نہیں ہیں- میرے خیال میں بحیثیتِ مجموعی انسان کی بنیادی جبلتیں اس کو عدم تحریک کی طرف مائل نہیں کر سکتی ہیں، جس کے نتیجے میں سائنس کا اپنی موت آپ مرنا بعید از خیال ہے-
جی درست ۔لیکن میرا پہلا مراسلہ شروع ہی ایک conditional statement سے ہوا ہے جیسے ہم کہیں ، اگر خدا نہ ہوتا تو ۔۔۔یہاں پر بھی اسی 'if' and then' والا معاملہ ہے ۔ میرے بعد کے مراسلے اسی بات کی وضاحت میں ھیں کہ یہ "if" ہی بعید از خیال ہے سو عدم تحریک کا سوال نہیں۔
 

La Alma

لائبریرین
آپ کی اس بات سے تھوڑا سا اختلاف کروں گی کہ فطرت۔۔۔۔۔۔۔ مذہب اور سائنس پر حاوی ہوتی ہے ، جبکہ مروجہ شاخیں سے اس سے پھوٹتی ہیں ۔ انسان کا وجدان جب جاگ جاتا ہے تو انسان یقین کی جانب ہوتا ہے یا یقین پر قائم ہوتا ہے ۔ آئن سٹائن کو کریزی بھی کہا جاتا تھا مگر بہت بڑا سائنس دان تھا ۔ اس طرح یہاں بات ہیملٹ کی ہو رہی تھی کہ ہیملٹ دیوانگی کا چوغہ چڑھاتا ہے چونکہ اس نے علم اپنے تجربے سے حاصل نہیں کیا ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس لیے ''ٹو بھی ، ناٹ ٹو بھی ''۔۔۔۔۔۔۔کی کشمکش میں ہوتا ہے ۔۔۔۔جیسے ہی سارے حقائق پالیتا ہے تو اس کی دیوانگی میں فرزانگی کی گواہی پولینئس دیتا ہے ۔۔۔۔۔۔

معافی چاہتی ہوں میں آپ کے اختلاف کی نوعیت کو صحیح طرح سے سمجھ نہیں پائی ۔ آپ نے جو مثالیں بیان کیں ھیں ان کا تعلق تو سماجی رویوں اور نفسیاتی عوامل سے ہے ۔" to be or not to be " کی کشمکش میں تجربے کی اہمیت اپنی جگہ لیکن اس میں قوت ارادی اور مشاہدے کا بھی عمل دخل ہوتا ہے ۔
دیوانگی میں فرزانگی دو طرح سے ہی ممکن ہے ، ایک تو اصل پاگل پن کی حالت میں کسی کار نمایاں کا سرزد هو جانا ،مگر یہ "chance and coincidence" کا نتیجہ ہی هو سکتا ہے ۔اس میں کوئی شخصی کمال نہیں ہوتا ۔اور دوسری قسم کے وہ لوگ جو حقیقی طور پر دیوانے نہیں ہوتے بلکہ معاشرے کا مخصوص طبقہ اپنے محدود علم اور تعصب کی بنا پر ان کے مطلق اپنی رائے قائم کر لیتا ہے، جیسے کفار، نبی صلعم کو بھی شاعر اور دیوانہ کہتے تھے ۔
 
آخری تدوین:

طالب سحر

محفلین
جی درست ۔لیکن میرا پہلا مراسلہ شروع ہی ایک conditional statement سے ہوا ہے جیسے ہم کہیں ، اگر خدا نہ ہوتا تو ۔۔۔یہاں پر بھی اسی 'if' and then' والا معاملہ ہے ۔ میرے بعد کے مراسلے اسی بات کی وضاحت میں ھیں کہ یہ "if" ہی بعید از خیال ہے سو عدم تحریک کا سوال نہیں۔

میں تو یہ اصرار کروں گا کہ "اگر" بعید از قیاس نہیں ہے- جو absolute reality ایک موحد کے لئے ہے، وہ لااردی کے لئے نہیں ہے- کچھ لوگوں کے لئے nihilism بھی تو ایک tenable position ہوتی ہے- ان سب باتوں کے باوجود یہ ضروری تو نہیں کہ تشکیک، لااردیت، یا الحاد کا نتیجہ عدم تحریک ہی میں نکلے-
 

طالب سحر

محفلین
اگر انسان کو خدا کا حقیقی عرفان کسی قدر نصیب ہو جائے تو وہ اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے میں اتنا بے باک اور نڈر ہرگز نہیں ہو سکتا جتنا مجھ جیسا کوئی جاہل ہوتا ہے۔
اس بات کا اطلاق حسین بن منصور حلاج پر تو نہیں ہوتا نا؟ غالب حلاج کو جتنا چاہیں "تُنک ظرف" بول لیں، تصوف کے فریم ورک میں رہتے ہوئے حلاج کو تو عرفان مل گیا تھا، اور حلاج بے باک بھی ہو گئے تھے-

علم کی زیادتی کا سب سے زیادہ تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ یہ قوتِ عمل سے محروم کر دیتی ہے۔
صائمہ شاہ اور نور سعدیہ شیخ کی طرح مجھے بھی یہ بات problematic assertion لگتی ہے، کیونکہ علم (یا زیادہ علم) قوتِ عمل سے محروم کیوں کرے گا- مجھے تو لگتا ہے کی بے عملی کی وجوہات کچھ اور ہوتی ہوں گی- ضروری تو نہیں کہ ہمتوں کی پستی کی وجہ شوق کی بلندی ہو۔

دوسری بات: علم کی زیادتی کیا ہوتی ہے؟ مجھے تو اقبال کا یہ شعر بہت معنی خیز لگتا ہے:

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
 
Top