طالب سحر
محفلین
ہم نے تو دیکھا ہے کہ جس کے پاس زیادہ علم ہوتا ہے وہ زیادہ پُر اعتماد ہوتا ہے اس شخص کی نسبت جس کے پاس علم کم ہو۔ یہاں ہم یہ بات واضح کر دیں کہ ویسے تو ہم دنیاوی علم کی بات کر رہے ہیں لیکن ہمارا خیال ہے کہ دینی علم پر بھی یہی بات لاگو ہوتی ہے۔
راحیل فاروق گو کہ آپ کی مخاطب لاریب مرزا ہیں، لیکن مجھے امید ہے کہ آپ اس سلسلے میں میری رائے بھی سن لیں گے۔ میرے خیال میں ہیملٹ کی خود کلامی "عرفانِ ذات" کا نتیجہ تھی جسے مروجہ اور معروف معنوں میں "اپنے سے باہر کے علم" سے ہٹا کر دیکھا جاتا ہے- جو تھوڑا بہت مجھے سمجھ آیا ھے، یہ تخصیص ویدانتی فکر اور وحدت الوجود میں موجود نہیں ہے، کیونکہ وہاں سب کچھ -- بسمیت علم و آگہی -- ایک ہی ہے- تاہم فلسفہ (خصوصاً وہ جسے "مغربی" فلسفہ کہا جاتا ہے) میں تو یہ دونوں چیزیں الگ ہیں، گو کہ کچھ overlap بھی ہو سکتا ہے-آپ کی بات درست ہے مگر اس کا اطلاق علم میں ترقی کی ابتدائی صورتوں ہی پر کیا جا سکتا ہے۔ لیکن جب یہ علم ایک خاص حد سے بڑھ جائے تو انسان سے سنبھالے نہیں سنبھلتا۔ آپ تو انگریزی کی استاد ہیں۔ ہیملٹ کا تذبذب تو آپ کو یاد ہو گا؟
کیا آپ کہہ سکتی ہیں کہ انکشاف (anagnorosis) کے بعد جب ہیملٹ کے پاس 'زیادہ علم' موجود تھا، وہ زیادہ پراعتماد ہو گیا تھا؟
دوسری بات:
یہ تردد اور تذبذب ہی تو علم بڑھاتی ھے- مزید برآں، Wittgenstein کا تو یہ کہنا ہے کہ شبہہ کرنے کے لئے کچھ چیزوں پر یقین کرنا ضروری ہے-سچ تو یہ ہے کہ داناؤں کی جھجک اور تردد ان کے بڑھے ہوئے علم اور بصیرت کے باعث ہی ہوتا ہے۔ <...> اس کے برعکس جوں جوں علم میں ترقی ہوتی ہے توں توں مختلف و متبائن نکتہ ہائے نظر سے تعارف ہونے کے باعث کسی ایک خیال پر قائم ہونا دشوار ہونے لگتا ہے اور انسان کے دل میں بے یقینی راہ پانے لگتی ہے۔
ایک ضمنی بات یہ ہے کہ کیا علم کے لئے ضروری ہے کہ وہ صرف absolute میں اظہار کرے؛ سچ صرف ایک ہو، اور shades of grey اور relativism کی ممانعت ہو؟
نمبر تین:
سائنس کوئی جامد چیز تو ہے نہیں اور نہ ہی اس کی حدود اتنی متعین ہیں کہ اس کو سماجی مضمرات سے دور رہنے میں ہی عافیت ہو- سچ تو یہ ہے کہ سائنس کی practice ایک انسانی عمل ہے- کچھ سائنس دان سماجی مضمرات کی پرواہ نہیں کرتے ہیں، اور کچھ کرتے ہیں- یہ اسی طرح سے ہے جس طرح کسی مذہب کے ماننے والوں میں سماج اور سماجی رویوں کے بارے میں بالکل یکساں practice نہیں پائی جاتی-حالانکہ خالص سائنس تو عام طور پر اپنے ثمرات کے سماجی مضمرات پر نظر ڈالنی بھی گوارا نہیں کرتی۔