محب علوی
مدیر
متفق
مگر ہماری نظر میں عمران کا ن لیگ سے ٹکرانا اسٹیبلیشمنٹ کے مفاد میں ہے۔ اور عمران کو ایک بار پھر معافی مانگنی پڑے گی۔
اسٹیبلشمنٹ کے پاس ق لیگ ، ایم کیو ایم اور اب تو مشرف بذات خود بھی موجود ہے۔
متفق
مگر ہماری نظر میں عمران کا ن لیگ سے ٹکرانا اسٹیبلیشمنٹ کے مفاد میں ہے۔ اور عمران کو ایک بار پھر معافی مانگنی پڑے گی۔
اسٹیبلشمنٹ کے پاس ق لیگ ، ایم کیو ایم اور اب تو مشرف بذات خود بھی موجود ہے۔
پہلے آپ فرمارہے تھے کہ فوج کے جرنیل، اعلیٰ عدلیہ اور بیوروکریسی ہی اسٹیبلشمنٹ ہے۔۔۔نواز لیگ کو گرانے کے لیے صرف عمران ہے یا قادری۔ قادری پہلے ہی پٹ گیا ہے
سہیل وڑائچ، نجم سیٹھی، شاہ زیب خان زادہ، عامر غوری ۔۔۔ یہ دو چار نام تو ذہن میں آ رہے ہیں ۔۔۔ یہ سب اس بات پر متفق تھے کہ جلسہ واقعی بہت بڑا تھا لیکن تیس اکتوبر 2011ء کا جلسہ زیادہ بڑا تھا اور یوں بھی منتخب نمائندوں کے ہوتے ہوئے جلسہ مزید بڑا ہونا چاہیے تھا ۔۔۔ نہ کہ تعداد میں پچھلے جلسے کے برابر یا کم ۔۔۔یہ اندازہ آپ نے کیسے لگایا کہ پہلے والا بڑا تھا اور یہ نہیں جبکہ زیادہ رپورٹس پہلے والے سے بڑے ہونے کی ہیں اور اس میں ایک سیدھا جواز تو منتخب نمائندوں کی شرکت بھی ہے۔
میں نہیں جانتی کہ آپ دونوں جلسوں میں شریک تھے یا نہیں۔ بہرحال میں دونوں جلسوں میں شریک تھی 23 مارچ کا جلسہ 11 اکتوبر کے جلسے سے ڈیڑھ گنا بڑاتھا۔ گاڑیاں فٹ پاتھوں پر بھی پارک ہوئیں۔ حضوری باغ اور بادشاہی مسجد میں بھی شرکا کا ہجوم تھا23 مارچ کا جلسہ "بے مثال" ہرگز نہیں تھا ۔۔۔ اس سے پہلے ایسے جلسے ہوتے رہے ہیں ۔۔۔ حتیٰ کہ عمران خان صاحب کا تیس اکتوبر 2011ء کا جلسہ ان کے حالیہ جلسہء لاہور سے بڑا تھا ۔۔۔ پورے پاکستان سے اسی ہزار نمائندے الگ آئے تھے ۔۔۔ ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ جلسہ "تاریخی" ضرور تھا ۔۔۔ اور سونامی نے پھر سے "کم بیک" ضرور کیا ۔۔۔
میں نہیں جانتی کہ آپ دونوں جلسوں میں شریک تھے یا نہیں۔ بہرحال میں دونوں جلسوں میں شریک تھی 23 مارچ کا جلسہ 11 اکتوبر کے جلسے سے ڈیڑھ گنا بڑاتھا۔ گاڑیاں فٹ پاتھوں پر بھی پارک ہوئیں۔ حضوری باغ اور بادشاہی مسجد میں بھی شرکا کا ہجوم تھا
میں نہیں جانتی کہ آپ دونوں جلسوں میں شریک تھے یا نہیں۔ بہرحال میں دونوں جلسوں میں شریک تھی 23 مارچ کا جلسہ 11 اکتوبر کے جلسے سے ڈیڑھ گنا بڑاتھا۔ گاڑیاں فٹ پاتھوں پر بھی پارک ہوئیں۔ حضوری باغ اور بادشاہی مسجد میں بھی شرکا کا ہجوم تھا
پہلے آپ فرمارہے تھے کہ فوج کے جرنیل، اعلیٰ عدلیہ اور بیوروکریسی ہی اسٹیبلشمنٹ ہے۔۔۔
دوسرا نکتہ یہ ارشاد ہوا کہ نواز لیگ کو گرانے کیلئے اسٹیبلشمنٹ نے دو مہرے آگے کئے یعنی عمران اور قادری۔۔۔
تیسرا نکتہ یہ ہے کہ اسی اسٹیبلشمنٹ نے پھر نجانے کیا سوچ کر اپنے ایک مہرے یعنی قادری کو بساط سے باہر کردیا۔۔
بابا جی اگر اسٹیبلشمنٹ نامی کسی چیز کا وجود ہوتا اور قادری انکا مہرہ ہوتا، تو پھر اس اسٹیبلشمنٹ کی عقل اور طرزِ عمل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے کہ انکے مہرے نے تو بقول آپکے پوری پوری کارکردگی دکھا دی لیکن پھر بھی نجانے کیوں انہوں نے اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا، جرنیلوں نے سنہری موقرے کے ہوتے ہوئے بھی سیاست دانوں کی چھٹی نہیں کی، اور اعلیٰ عدلیہ نے اپنے ہی مہرے کی پٹیشن سننے سے انکار کردیا۔۔
بات کچھ بنی نہیں۔۔ کوئی نئی تھیوری لائیے۔
اسکی نیت مجھے ٹھیک لگتی ہے۔
اسکے دور میں بہت اچھےمنصوبے بنتے ہین جیسے موٹر وے۔ جس کے اثرات دوررس ہیں۔ بھلا مانس ہے
مگر اسکو اسکی ٹرم پوری نہیں کرنے دیتے ظالم لوگ
نیت تو شائد صوفی محمد کی بھی ٹھیک تھی، وہ بھی شریعت لانا چاہتا تھا۔
آپ نے شائد سنا نہیں "نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہے"
نیت ٹھیک ہے
منصوبے اچھے بناتا ہے
بیرونی دباو ملک کے مفاد میں قبول نہیں کرتا
ملکی دباو سے بھی اب بہت ازاد ہے
تمام صوبوں میں اس کی نمائندگی ہے یا جماعتوں سے الحاق ہے
ذاتی ماضی بھی بے داغ ہے۔
اسی کے دور میں پاکستانیت فروغ پاتی ہے۔
اور کیا چاہیے؟
آپ کسی لالا لینڈ کی تو بات نہیں کر رہے جہاں پر نواز شریف نام کا وزیر اعظم یہ سب کام کر چکا ہے۔
مجھے اچھی طرح سے یاد ہے قریباً ایک سال قبل آپ نے مولانا فضل الرحمٰن کی سپورٹ میں دھاگہ بنایا تھا کہ اس مرتبہ اس کو ووٹ دیں، اب اچانک نواز شریف کہاں سے آ گیا؟
شہباز کی کارکردگی اچھی رہی۔ بڑے اچھے ترقیاتی منصوبے بنائے بالخصوص میٹرو بس تو بہت اچھی رہی
نواز نے بھی مجموعی طور پر مہذب طریقہ سے اپوزیشن کا کردار ادا کیا۔
سوال گندم جواب مسور کی دال
آپ نے تاریخ سے ابھی بھی کچھ نہیں سیکھا۔۔۔آپ جس پارٹی کی حمایت کرتے ہیں ، اقتدار ملنے کے بعد وہ ملک و قوم کا بھرکس نکال دیتی ہے۔ اب ن لیگ کی حمایت کر رہے ہیں، تو ہم دعا کرتے ہیں کہ ن لیگ کو اقتدار نہ ہی ملے تو اچھا ہےپانچ سال پہلے میں پی پی کا حمایتی تھا
مگر اب کارکردگی کی بنیاد پر ن لیگ کا
آپ نے تاریخ سے ابھی بھی کچھ نہیں سیکھا۔۔۔ آپ جس پارٹی کی حمایت کرتے ہیں ، اقتدار ملنے کے بعد وہ ملک و قوم کا بھرکس نکال دیتی ہے۔ اب ن لیگ کی حمایت کر رہے ہیں، تو ہم دعا کرتے ہیں کہ ن لیگ کو اقتدار نہ ہی ملے تو اچھا ہے
محترمہ! آپ کی بات تسلیم بھی کر لی جائے تب بھی نومنتخب عہدے دار جن کی تعداد اسی ہزار بتائی جاتی ہے، ان کی تعداد کو جلسے کے شرکاء کی تعداد سے منہا کر کے دیکھا جائے تو پوزیشن اب بھی وہی ہے تحریک انصاف کی ۔۔۔ جو ڈیڑھ سال قبل تھی ۔۔۔ کوئی غیرمعمولی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے ۔۔۔ البتہ یہ ایک کامیاب جلسہ تھا اور عمران خان نے انٹرا پارٹی الیکشن کے باوجود پارٹی کی مقبولیت کو ایک سطح پر برقرار رکھا ۔۔۔ یہ اپنی جگہ پر ایک بڑی کامیابی ہے ۔۔۔میں نہیں جانتی کہ آپ دونوں جلسوں میں شریک تھے یا نہیں۔ بہرحال میں دونوں جلسوں میں شریک تھی 23 مارچ کا جلسہ 11 اکتوبر کے جلسے سے ڈیڑھ گنا بڑاتھا۔ گاڑیاں فٹ پاتھوں پر بھی پارک ہوئیں۔ حضوری باغ اور بادشاہی مسجد میں بھی شرکا کا ہجوم تھا
میرا خیال ہے بات جلسے کے شرکا کی ہو رہی ہے۔ اور رہی بات عہدیداران کی تو ظاہر ہے کہ وہ تحریکِ انصاف کے پُرانے حمایتی ہیں اُنہیں نہ تو پچھلے جلسے سے منہا کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس جلسہ سے ۔ اور کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ن لیگ یا کسی اور جماعت کے جلسے میں عہدیدار شریک نہیں ہوتےمحترمہ! آپ کی بات تسلیم بھی کر لی جائے تب بھی نومنتخب عہدے دار جن کی تعداد اسی ہزار بتائی جاتی ہے، ان کی تعداد کو جلسے کے شرکاء کی تعداد سے منہا کر کے دیکھا جائے تو پوزیشن اب بھی وہی ہے تحریک انصاف کی ۔۔۔ جو ڈیڑھ سال قبل تھی ۔۔۔ کوئی غیرمعمولی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے ۔۔۔ البتہ یہ ایک کامیاب جلسہ تھا اور عمران خان نے انٹرا پارٹی الیکشن کے باوجود پارٹی کی مقبولیت کو ایک سطح پر برقرار رکھا ۔۔۔ یہ اپنی جگہ پر ایک بڑی کامیابی ہے ۔۔۔