ش
شہزاد احمد
مہمان
محترمہ! تیس اکتوبر 2011ء کا جلسہ اور تئیس مارچ 2013ء کا جلسہ اپنی اپنی جگہ پر تاریخی اہمیت رکھتے ہیں ۔۔۔ اس جلسے سے شاید بہت زیادہ توقعات وابستہ کر لی گئی تھیں اس لیے نسبتاَ چھوٹا معلوم ہوا ۔۔۔ ویسے بھی محمد مالک، سہیل وڑائچ، شاہ زیب خان زادہ، عامر غوری اور نجم سیٹھی کے علاوہ کئی اور اینکر پرسن اور تجزیہ نگاروں کو سنا اور پڑھا ۔۔۔ سب اس بات پر متفق نظر آئے کہ تیس اکتوبر 2011ء کے جلسے میں حاضرین کی تعداد زیادہ تھی ۔۔۔ ویسے تئیس مارچ کا جلسہ بھی ایک کامیاب جلسہ تھا ۔۔۔ اس سے بھلا کس کو انکار ہے! ہاں یہ ضرور ہے کہ تیس اکتوبر 2011ء کے تاریخی جلسے میں لاہوریوں کی تعداد زیادہ تھی ۔۔۔ اس مرتبہ باہر سے آنے والے زیادہ تھے، لاہور والے ابھی "سوچ" رہے ہیں ۔۔۔ شاید اگلا جلسہ ان کو بھی باہر آنے پر مجبور کر دے ۔۔۔میرا خیال ہے بات جلسے کے شرکا کی ہو رہی ہے۔ اور رہی بات عہدیداران کی تو ظاہر ہے کہ وہ تحریکِ انصاف کے پُرانے حمایتی ہیں اُنہیں نہ تو پچھلے جلسے سے منہا کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس جلسہ سے ۔ اور کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ن لیگ یا کسی اور جماعت کے جلسے میں عہدیدار شریک نہیں ہوتے