جاسمن

لائبریرین
ٹونک، راجستھان سے
پروفیسر ڈاکٹر ارشد عبدالحمید کی نظم
دوپَٹّے کا پھول
مَیّا!
میرے لَڑَکپَن میں
جب آنکھ میں کچھ گِر جاتا تھا
تو مجھ کو گودی میں لِٹا کر
دوپَٹّے کا پھول بنا کر
اُس کو پُھونکوں سے بھرتی تھی
جانے کیا جادُو کرتی تھی
پھول کو آنکھوں پر رکھتے ہی
جیسے شِفا ہو جاتی تھی
مجھ کو نیند آ جاتی تھی
مَیّا!
آج بھی اِن آنکھوں میں
خوابوں کے کچھ موٹے تِنکے
صبح و شام کَھٹکتے ہیں
نیند کی پَریاں رُوٹھ گئی ہیں
ذِہن میں اِک ہُو کا عالَم ہے
لیکن مَیّا تیرا دوپَٹّا
تیری پُھونکیں کہاں سے لاؤں
لگتا ہے خوابوں کے تِنکے
ساری عمر نہیں نکلیں گے
ساری عمر یُوں ہی گزرے گی
مجھ کو نیند نہیں آئے گی
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
اوہ ہتھ جیہڑے رکھاں وانگوں دھپاں نوں ڈک لیندے سن
رت ڈھلی تے اکھیں ڈٹھا ہاڑ اچ سڑدے کلے نیں
نیرنگ خیال (ذوالقرنین)

ویسے یہ شعر ماں باپ دونوں کے لیے ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
ماں
ہو گئے جواں بچے ، بوڑھی ہو رہی ہے ماں
بے چراغ آنکھوں میں خواب بو رہی ہے ماں

روٹی اپنے حصے کی دے کے اپنے بچوں کو
صبر کی ردا اوڑھے بھوکی سو رہی ہے ماں

دیکھ کر بہو کو ، کیا یاد آ گیا اس کو
کن حسین خوابوں میں آج کھو رہی ہے ماں

سانس کی مریضہ ہے پھر بھی ٹھنڈے پانی سے
کتنی سخت سردی میں کپڑے دھو رہی ہے ماں

منتظر نگاہیں ہیں ، لب پہ بس دعائیں ہیں
پل دو پل بھی بچوں سے دور جو رہی ہے ماں

کھیلنے سے جو مجھ کو روکتی تھی مٹی میں
اوڑھ کر وہی مٹی آج سو رہی ہے ماں

غیر کی شکایت پر ، پھر کسی شرارت پر
مار کر مجھے عارف خود بھی رو رہی ہے ماں

عارف شفیق
 

جاسمن

لائبریرین
سہارا ماں ہے

دکھ کے لمحوں میں مرا ایک سہارا ماں ہے
میں اگر ڈوبتی کشتی ہوں کنارہ ماں ہے

اُس کے قدموں میں جو جنت ہے تو مطلب یہ ہے
آسمانوں سے جسے رب نے اتارا ماں ہے

خوشبو ایسی کہ مری روح تلک مہکی ہے
روشنی ایسی کہ بس نور کا دھارا ماں ہے

تپتے صحراؤں میں کس طرح بھٹک سکتی ہوں
مجھ کو جو راہ دکھائے وہ ستارہ ماں ہے

اُس کے ہر دکھ کو میں لفظوں میں سموتی کیسے
میں نے اشکوں سے بس اک لفظ اُبھارا ’’ماں‘‘ ہے

سب نے پوچھا کہ بھنور سے تُو بچے گی کیسے
میں نے بے ساختہ نجمہ یہ پکارا ’’ماں ہے‘‘
ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ
 

سیما علی

لائبریرین
ماں

سنو ماں ! کچھ نہیں ایسا
یونہی تم وہم کرتی ہو
تمہیں کیوں ایسا لگتا ہے
نجانے یہ گماں کیوں ہے
کہ اب بھی چھوٹی چھوٹی
باتوں پہ پہروں سلگتی ہوں -
بہت واویلا کرتی ہوں.
نہیں ماں ! اب نہیں لڑتی
قسم لے لو بھلے مجھ سے
کوئی جھگڑا نہیں کرتی .
بناں تیرے نہیں سنتا کوئی
میری کہانی کو
میں کیسے روک سکتی ہوں
سمے کی اس روانی کو -
تمھیں میں سچ بتاوں ماں
جدا جب سے ہوئی ہو تم!
ھے ہر سو ایک خالی پن
ھو جیسے دل بناں دھڑکن -
میں اب پتھریلی راہوں پر
بہت دھیرے سے چلتی ہوں
سلگتی ریت کی صورت
بہت اندر سے جلتی ہوں
تجھے کیسے بتاوں ماں
بہت خاموش رہتی ہوں
کسی سے کچھ نہیں کہتی
ہجر کا درد سہتی ہوں-
دل مضطر کے سب رستے
محبت کو ترستے ہیں
ھوا ھے تن بدن چھلنی
بہت پتھر برستے ہیں.
یونہی ہر موڑ رستے پہ
کسی سے گفتگو کرتے
گماں ہوتا ھے ماں تیرا-
تیرے آنچل کی ٹھنڈی
چھاوں پہروں یاد آتی ہے
میں اکثر چونک جاتی ہوں
تیری خوشبو ستاتی ہے-
کبھی یونہی اکیلے میں
تیری آواز آتی ہے
کہ جیسے تو بلاتی ھے.
میری انگلی کو تھامے ہر
جگہ تو ، ساتھ چلتی تھی
تو مجھ کو چھوڑ کے تنہا
کہیں جانے سے ڈرتی تھی.
تو پھر ایسا ھوا کیا ماں ؟
تو رخ کو موڑ کے چلدی
مجھے تو چھوڑ کے چلدی؟
ہوا کیا ماں ، بتا ناں ماں ؟
لو دیکھو پھر وہی باتیں
ارے ماں کیا ہوا پھر سے -
کیوں ایسے وھم کرتی ہو
کہا ناں کچھ نہیں ایسا!
ملی ہے صبر کو منزل
مجھے ہے ہر خوشی حاصل
سبھی رشتے مقدر ہیں
میری پرواہ کرتے ہیں.
مگر میں کیا کروں دل کا
اسے کیسے میں سمجھاؤں
بناں تیرے نہ جی پاؤں
عمر کی ہو کوئی منزل
بھلے ھو اک جہاں حاصل
خوشی کا کوئی منظر ہو
یا ھو پھر درد کا لمحہ
یونہی بس وقفے وقفے سے
میرا ساون برستا ہے
تیرے ھاتھوں کی گرمی کو
یہ میرا من ترستا ہے
ہر اک لمحے میں ہر پل میں
تجھے میں یاد کرتی ہوں
چھپا کے درد دنیا سے
یہی فریاد کرتی ہوں .
یہ دل کرتا ھے تیری گود
میں چاپ سو جاؤں -
تیرا گم گشتہ حصہ ہوں
تجھی میں پھر سما جاؤں.
 

سیما علی

لائبریرین
ماں محسوس ہوتی ہے۔۔۔۔۔
جب بیزار ہوتا ہوں زمانے بھر کی اُلجھن سے
اپنوں کی عداوت سے۔۔۔۔سورج کی تمازت سے
پہروں جب میں جلتا ہوں
جب ایسے میں گھٹا آکر سورج ڈھانپ دیتی ہے
تو ماں محسوس ہوتی ہے
بازارِ زیست میں ہر سُو روپے پیسوں کی چھن چھن ہے
کہیں تحفوں کی چاہت ہے ۔۔۔۔۔کہیں رشتوں کی اُلجھن ہے
ہماری زندگی جب لگے کسی آتش کا ایندھن ہے
ایسے میں کوئی پوچھے کہ روٹی کھائی ہے تم نے ؟
تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں ۔۔۔
ماں محسوس ہوتی ہے ۔۔۔۔
نمازوں میں ۔۔۔۔دعاؤں میں
قرآں کی پاک صداؤں میں ز
جب ذکر جنت کا آتا ہے
قسم معبود کی میرے، ایسے ساعت میں مجھ کو
ماں محسوس ہو تی ہے ۔۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
یہ چلتی پھرتی دُعاؤں کا عالمی دن ہے
دعائیں لیجے کہ ماؤں کا عالمی دن ہے

جو روز صبح مُصلّے سے ہو کے آتی ہیں
اُنہی خموش صداؤں کا عالمی دن ہے

تمام رنگ ہیں جن سے ہماری ہستی کے
اُنہی سفید رِداؤں کا عالمی دن ہے

بھڑکتے وقت کے شعلوں میں ریشمی ٹھنڈک
کڑکتی دھوپ میں چھاؤں کا عالمی دن ہے

تمام عُمر چمکتا ہے مامتا کا چراغ
کہاں بس آج ہی ماؤں کا عالمی دن ہے

رحمان فارس ❤️
 

جاسمن

لائبریرین
شہرِ خاموش مجھے ماں کے سبب سے ہے عزیز
اس علاقے میں مری بھاگ بھری رہتی ہے
کومل جوئیہ
 

سیما علی

لائبریرین
کوئی دَم کی مہمان ہوں جانِ مادر آؤ بھی
رہ گیا آنکھوں میں دم میرا ٹک کر آؤ بھی

جاں کُنی کا وقت ہے اور جاں نکل سکتی نہیں
سینہ سوزاں پہ ہے فُرقت کا پتھر آؤ بھی
 

سیما علی

لائبریرین
کس کو دکھاؤں گا میں ’’ اَ مڑی ‘‘ سینے کے ناسور
کس کے سہارے چھوڑ کے مجھ کو جانے لگی ہے دُور
کس کی دعائیں لے کے اَمڑی جاؤں گا اسکول
کس کا استقبال کرے گا اب مجھ کو مخمور
کون رکھے گا ماتھے پہ روشن صبحوں جیسا ہاتھ
کون جگا کے برسائے گا بسم اللہ کا نور
نیند کو دے گا کون اب ’’ آیہ کُرسی ‘‘ کا انعام
کون کرے گا سانسوں کو تقدیسوں سے معمور
کون کرے گا آنکھ کو میٹھے خوابوں سے لبریز
کون کرے گا عزم کو اُونچے جذبوں سے بھرپور
کون کرے گا لمحوں کو خوشیوں سے سرشار
کون بہاروں کو کردے گا خدمت پر مامور
کِس کی اُڈیکیں بنی رہیں گی شاہ در کی دہلیز
میری چاہت سے کون سماعت اب ہوگی مسرور
کون ہے اب جو آکے سمیٹے بکھرے ہوئے اعصاب
تُوہی بتا اب کس سے مجھ کو ملے گا نور شعور
تُو تو میری ساری اُمنگیں لے گئی اپنے ساتھ
ویسے تو اِک لاش ہوں جینے پر مجبور
ہو گئی سارے نظاروں کی دلداری معدوم
پھیکا چاند ہے جیسے اِک یرقان زدہ مزدور
سارے سورج اندھے سارے موسم ہیں بے رنگ
آج ہوئے ہیں سارے جلوے نظروں سے مستور
سوچوں نے بھی چھوڑ دیا ہے اب تو میرا ساتھ
اندر کوسوں تک تاریکی ذہن دُکھوں سے چُور
جاناہے مجبوری تو پھر ایسی ذات بتا
جِس کے پاؤں میں سُکھ پائے یہ تیرا رنجور
جس کے قدموں کے نیچے ہو میرا بہشت آباد
میری راہ میں پھول بچھانا ہو جس کا دستور
جِس کی ہر مسکان میں لاکھوں سجدوںکا اخلاص
جِس کی لوری میں سورہٗ رحمن کو سوز و سرور
جِس کی پلکیں میرا مقدر کرتی ہوں تحریر
جِس کی پیشانی کی لکیریں ہوں میرا منشور
سید نصیر شاہ
 

جاسمن

لائبریرین
ہم لوگ کہ ہیں ماؤں سے بچھڑے ہوئے بچے
حصے میں کسی کے بھی محبت نہیں آئی
اعتبار ساجد
 

اربش علی

محفلین
عِلم کی سنجیدہ گُفتاری، بُڑھاپے کا شعور
دُنیَوی اعزاز کی شوکت، جوانی کا غرور

زندگی کی اَوج‌گاہوں سے اُتر آتے ہیں ہم
صُحبتِ مادر میں طفلِ سادہ رہ جاتے ہیں ہم

بے تکلّف خندہ زن ہیں، فکر سے آزاد ہیں
پھر اُسی کھوئے ہوئے فردوس میں آباد ہیں

(اقبال، "والدہ مرحومہ کی یاد میں")
 

اربش علی

محفلین
کس کو اب ہوگا وطن میں آہ! میرا انتظار
کون میرا خط نہ آنے سے رہے گا بےقرار!
خاکِ مرقد پر تری لے کر یہ فریاد آؤں گا
اب دُعاے نیم شب میں کس کو مَیں یاد آؤں گا!

تربیت سے تیری مَیں انجم کا ہم قسمت ہُوا
گھر مِرے اجداد کا سرمایۂ عزّت ہُوا
دفترِ ہستی میں تھی زرّیں ورَق تیری حیات
تھی سراپا دین و دُنیا کا سبق تیری حیات
عمر بھر تیری محبّت میری خدمت گر رہی
مَیں تری خدمت کے قابل جب ہُوا تُو چل بسی
وہ جواں، قامت میں ہے جو صُورتِ سروِ بلند
تیری خدمت سے ہُوا جو مجھ سے بڑھ کر بہرہ مند
کاروبارِ زندگانی میں وہ ہم پہلو مرا
وہ محبّت میں تری تصویر، وہ بازو مرا

تجھ کو مثلِ طفلکِ بے دست و پا روتا ہے وہ
صبر سے ناآشنا صبح و مسا روتا ہے وہ

تُخم جس کا تُو ہماری کِشتِ جاں میں بو گئی
شرکتِ غم سے وہ اُلفت اور محکم ہوگئی

(اقبال، "والدہ مرحومہ کی یاد میں")
 
Top