سید اسد محمود
محفلین
متحدہ کے تین مسلئے
محمد ابراہیم عزمی ایڈووکیٹ اتوار 19 مئ 2013
لنک
ایم کیو ایم کو انتخابات کے بعد تین قسم کے مسائل کا سامنا ہے۔ نتیجے نے اندازوں کو غلط ثابت کردیا۔ نواز شریف کو تجزیئے کار سنچری تک کے اسکور کا کھلاڑی مانتے تھے۔ اگر وہ اندازوں کے مطابق نشستیں لیتے تو مولانا فضل الرحمن اور ایم کیو ایم کی قوت سودا کاری میں اضافہ ہوجاتا۔ تن تنہا حکومت بنانے کے مینڈیٹ کی گزارش پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی کے قائد نے ووٹرز سے کی تھی۔ اب جائزطریقے سے رائے ونڈ پورے پاکستان میں تن تنہا حکومت بنا سکتا ہے۔ قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے انھیں کسی بے ساکھی کی ضرورت نہیں۔ اس تنہا پرواز نے ایم کیو ایم کے مسائل میں اضافہ کیا ہے۔ اب وفاق میں ایسی پارٹی کی حکومت ہوگی جس سے متحدہ کی پچھلے پندرہ سال سے چپقلش چل رہی ہے۔
اکتوبر 98 حکیم محمد سعید کے قتل کے بعد نواز شریف نے ایم کیو ایم کے ساتھ اپنی اتحادی صوبائی حکومت ختم کرکے گورنر راج نافذکردیا۔ پھر نواز شریف کی حکومت ختم کرنیوالے مشرف سے متحدہ کی دوستی کو جدہ میں بیٹھے نواز شریف نے اچھی نظر سے نہ دیکھا ہوگا۔ لندن میں مسلم لیگ (ن) کی میزبانی میں ہونے والی کانفرنس میں متحدہ کو تنہا کرنے کی بات کو الطاف حسین نے پسند نہ کیا ہوگا۔ 2008 کے بعد بننے والی حکومتوں کا دونوں حصہ تھے۔ دونوں کے صدر زرداری سے مختلف معاملات تھے۔ اب انتخابات جیتنے کے بعد نواز شریف کو طنزیہ انداز میں پنجاب کی پارٹی کہہ کر الطاف حسین نے اپنی تلخی کا اظہار کردیا۔ اس پندرہ سالہ پیار و نفرت کے رشتے کے ہوتے ہوئے کیا متحدہ کے لیے اسلام آباد میں مخالف حکومت کی موجودگی مسائل کا سبب بنے گی۔جب ’’عزیزآباد‘‘ زرداری سے دوری پر تھا تو متحدہ نے رائے ونڈ سے خیرسگالی کے جذبات کا اظہار کیا۔
ڈاکٹر فاروق ستار نے (ن) لیگ کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔شاید کہ زرداری حکومت کو پانچ سال مکمل کرنے دینے کے معاہدے نے نواز شریف کو متحدہ سے دورکردیا۔ حکومت کے روٹھے اتحادیوں کو ملاکر ’’بلاول ہاؤس‘‘ کو پریشان کرنا نواز شریف کے ایجنڈے کا حصہ نہ تھا۔ یوں تلخیاں اس مقام پر آکر شدت اختیار کرگئیں جب چوہدری نثار نے ایم کیو ایم کے قائد اور وسیم اختر نے شہباز شریف کے خلاف نازیبا زبان استعمال کی۔ پچھلے پچیس برسوں میں متحدہ کے ساتھ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ وفاقی حکومت اپنے پہلے دن ہی ان کے بارے میں کھنچاؤ محسوس کرے۔ نواز شریف اور بے نظیر اپنی پہلی حکومتوں کی تشکیل کے لیے 90 کا دورہ کرچکے ہیں۔ پہلی مرتبہ برسراقتدار آکر آصف زرداری نے بھی یہی کیا تھا۔اسلام آباد میں ایم کیو ایم سے فاصلے رکھنے والی حکومت متحدہ کے بعد از انتخابات پہلا مسئلہ ہے۔سندھ میں پیپلز پارٹی پچھلے چار عشروں سے سب سے بڑی پارٹی ہونے کا اعزاز رکھتی ہے۔ جب ان کی حکومت کے خاتمے کے بعد طاقتور حلقے اسے اقتدار سے محروم رکھنا چاہتے ہیں تب بھی ان کے نمبرز سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔
اس مرتبہ پیپلزپارٹی کی نصف سے زیادہ نشستیں متحدہ کے لیے کوئی نئی بات نہیں۔ سن 88 اور 97 میں ایسے ہوچکا ہے اور وہ ایم کیو ایم کو شریک اقتدار کرچکے ہیں۔ اس مرتبہ بھی شہری اور دیہی پارٹیاں مل کر حکومت سازی کریں گے۔ پھر سندھ کے حوالے سے ایم کیو ایم کا دوسرا مسئلہ کیا ہے؟ دونوں مرتبہ جب پیپلز پارٹی نے متحدہ کو شریک اقتدار کیا تو وہ برابری کی بنیاد پر تھا۔ گوکہ صوبے میں تلوار کو پتنگ کے بغیر حکومت بنانے میں کوئی مشکل نہ ہوتی تھی لیکن وفاق میں پیپلز پارٹی کی کمزور حکومتوں کے لیے متحدہ کی پندرہ بیس نشستیں بڑا سہارا ہواکرتی تھیں۔ یوں متحدہ کو شریک اقتدار کرنا احسان قرار نہیں پاتا تھا۔اس مرتبہ ایک نئی چیز ہوئی ہے۔ ایسا تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔ پہلی مرتبہ پیپلزپارٹی سندھ میں حکومت بنانے جارہی ہے اور وہ بھی اسلام آباد کے اقتدار کے بغیر۔
یوں یہ متحدہ کے لیے بھی نئی صورت حال ہے وہ صوبے میں کچھ لے کر وفاق میں کچھ دینے کی پوزیشن میں ہوتی تھی۔ اب پیپلز پارٹی کو کہیں بھی ایم کیو ایم کے ووٹوں کی حاجت نہ ہوگی۔ صرف دیہی اور شہری مینڈیٹ کو ذہن میں رکھ کر متحدہ کو حکومت میں شامل کرنا پیپلزپارٹی کا مثبت اقدام کہلائے گا۔ صوبے میں احسان لینے کے بدلے وفاق میں احسان کرنیوالی پوزیشن نہ ہونا ایم کیو ایم کے لیے دوسرا مسئلہ ہے۔متحدہ کا تیسرا مسئلہ دھاندلی کا الزام اور دوبارہ انتخابات کروانے کا مطالبہ ہے۔ اتنا زوردار مطالبہ کبھی نہیں کیا گیا۔ ماضی میں متحدہ کی حریف صرف جماعت اسلامی ہوا کرتی تھی۔ پچھلی صدی کے چار قومی انتخابات میں ایم کیو ایم کے لاکھ ووٹوں کے مقابل پچیس ہزار ووٹ لے کر وہ مقابلہ کرتے رہے۔ 2002 میں متحدہ مجلس عمل کے اتحاد کی بدولت ایم کیوایم کراچی وحیدرآباد سے چھ نشستیں گنوا بیٹھی۔ پچھلے انتخابات میں جماعت کے بائیکاٹ نے ایسی کوئی صورت حال پیدا نہ ہونے دی۔
یہ پہلا انتخاب ہے جس میں جماعت کے علاوہ تحریک انصاف، سنی تحریک، مہاجرقومی موومنٹ، مجلس وحدت المسلمین اور مسلم لیگ(ن) یعنی سب مل کر پتنگ پر ڈورے ڈال رہی تھیں۔ یہ چھ طرفہ شور ایم کیو ایم کے مینڈیٹ کو چیلنج کر رہا ہے۔ بائیکاٹ، الزامات، جوابی الزامات، دھرنے، مطالبے۔ ایسا کچھ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ جیتنے والا جیت جائے اور ہارنے والا ہار نہ مانے تو جیت کا مزہ کرکرا ہوجاتا ہے۔ متحدہ کے مسائل کا مطلب کراچی کے مسائل اور شہر قائد کے مسائل کا مطلب پاکستان کے مسائل۔ نواز شریف نے عمران کی عیادت کرکے اچھی روایت کو آگے بڑھایا جائے۔ اسلام آباد میں اقتدار میں آنیوالوں کو کراچی کے مسائل کو اپنے مسائل کی فہرست میں چند ابتدائی نمبروں پر رکھنا ہوگا۔ انا والی لیگ اور اکڑ والی متحدہ کو لچک دکھانی ہوگی۔ ذمے داروں کو بہت جلد انتخابی دھاندلیوں کے حوالے سے فیصلہ کرنا ہے۔ ایسا انتخابی نظام ہو کہ کوئی کسی پر بے ایمانی کا الزام نہ لگا سکے۔
محمد ابراہیم عزمی ایڈووکیٹ اتوار 19 مئ 2013
لنک
ایم کیو ایم کو انتخابات کے بعد تین قسم کے مسائل کا سامنا ہے۔ نتیجے نے اندازوں کو غلط ثابت کردیا۔ نواز شریف کو تجزیئے کار سنچری تک کے اسکور کا کھلاڑی مانتے تھے۔ اگر وہ اندازوں کے مطابق نشستیں لیتے تو مولانا فضل الرحمن اور ایم کیو ایم کی قوت سودا کاری میں اضافہ ہوجاتا۔ تن تنہا حکومت بنانے کے مینڈیٹ کی گزارش پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی کے قائد نے ووٹرز سے کی تھی۔ اب جائزطریقے سے رائے ونڈ پورے پاکستان میں تن تنہا حکومت بنا سکتا ہے۔ قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے انھیں کسی بے ساکھی کی ضرورت نہیں۔ اس تنہا پرواز نے ایم کیو ایم کے مسائل میں اضافہ کیا ہے۔ اب وفاق میں ایسی پارٹی کی حکومت ہوگی جس سے متحدہ کی پچھلے پندرہ سال سے چپقلش چل رہی ہے۔
اکتوبر 98 حکیم محمد سعید کے قتل کے بعد نواز شریف نے ایم کیو ایم کے ساتھ اپنی اتحادی صوبائی حکومت ختم کرکے گورنر راج نافذکردیا۔ پھر نواز شریف کی حکومت ختم کرنیوالے مشرف سے متحدہ کی دوستی کو جدہ میں بیٹھے نواز شریف نے اچھی نظر سے نہ دیکھا ہوگا۔ لندن میں مسلم لیگ (ن) کی میزبانی میں ہونے والی کانفرنس میں متحدہ کو تنہا کرنے کی بات کو الطاف حسین نے پسند نہ کیا ہوگا۔ 2008 کے بعد بننے والی حکومتوں کا دونوں حصہ تھے۔ دونوں کے صدر زرداری سے مختلف معاملات تھے۔ اب انتخابات جیتنے کے بعد نواز شریف کو طنزیہ انداز میں پنجاب کی پارٹی کہہ کر الطاف حسین نے اپنی تلخی کا اظہار کردیا۔ اس پندرہ سالہ پیار و نفرت کے رشتے کے ہوتے ہوئے کیا متحدہ کے لیے اسلام آباد میں مخالف حکومت کی موجودگی مسائل کا سبب بنے گی۔جب ’’عزیزآباد‘‘ زرداری سے دوری پر تھا تو متحدہ نے رائے ونڈ سے خیرسگالی کے جذبات کا اظہار کیا۔
ڈاکٹر فاروق ستار نے (ن) لیگ کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔شاید کہ زرداری حکومت کو پانچ سال مکمل کرنے دینے کے معاہدے نے نواز شریف کو متحدہ سے دورکردیا۔ حکومت کے روٹھے اتحادیوں کو ملاکر ’’بلاول ہاؤس‘‘ کو پریشان کرنا نواز شریف کے ایجنڈے کا حصہ نہ تھا۔ یوں تلخیاں اس مقام پر آکر شدت اختیار کرگئیں جب چوہدری نثار نے ایم کیو ایم کے قائد اور وسیم اختر نے شہباز شریف کے خلاف نازیبا زبان استعمال کی۔ پچھلے پچیس برسوں میں متحدہ کے ساتھ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ وفاقی حکومت اپنے پہلے دن ہی ان کے بارے میں کھنچاؤ محسوس کرے۔ نواز شریف اور بے نظیر اپنی پہلی حکومتوں کی تشکیل کے لیے 90 کا دورہ کرچکے ہیں۔ پہلی مرتبہ برسراقتدار آکر آصف زرداری نے بھی یہی کیا تھا۔اسلام آباد میں ایم کیو ایم سے فاصلے رکھنے والی حکومت متحدہ کے بعد از انتخابات پہلا مسئلہ ہے۔سندھ میں پیپلز پارٹی پچھلے چار عشروں سے سب سے بڑی پارٹی ہونے کا اعزاز رکھتی ہے۔ جب ان کی حکومت کے خاتمے کے بعد طاقتور حلقے اسے اقتدار سے محروم رکھنا چاہتے ہیں تب بھی ان کے نمبرز سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔
اس مرتبہ پیپلزپارٹی کی نصف سے زیادہ نشستیں متحدہ کے لیے کوئی نئی بات نہیں۔ سن 88 اور 97 میں ایسے ہوچکا ہے اور وہ ایم کیو ایم کو شریک اقتدار کرچکے ہیں۔ اس مرتبہ بھی شہری اور دیہی پارٹیاں مل کر حکومت سازی کریں گے۔ پھر سندھ کے حوالے سے ایم کیو ایم کا دوسرا مسئلہ کیا ہے؟ دونوں مرتبہ جب پیپلز پارٹی نے متحدہ کو شریک اقتدار کیا تو وہ برابری کی بنیاد پر تھا۔ گوکہ صوبے میں تلوار کو پتنگ کے بغیر حکومت بنانے میں کوئی مشکل نہ ہوتی تھی لیکن وفاق میں پیپلز پارٹی کی کمزور حکومتوں کے لیے متحدہ کی پندرہ بیس نشستیں بڑا سہارا ہواکرتی تھیں۔ یوں متحدہ کو شریک اقتدار کرنا احسان قرار نہیں پاتا تھا۔اس مرتبہ ایک نئی چیز ہوئی ہے۔ ایسا تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔ پہلی مرتبہ پیپلزپارٹی سندھ میں حکومت بنانے جارہی ہے اور وہ بھی اسلام آباد کے اقتدار کے بغیر۔
یوں یہ متحدہ کے لیے بھی نئی صورت حال ہے وہ صوبے میں کچھ لے کر وفاق میں کچھ دینے کی پوزیشن میں ہوتی تھی۔ اب پیپلز پارٹی کو کہیں بھی ایم کیو ایم کے ووٹوں کی حاجت نہ ہوگی۔ صرف دیہی اور شہری مینڈیٹ کو ذہن میں رکھ کر متحدہ کو حکومت میں شامل کرنا پیپلزپارٹی کا مثبت اقدام کہلائے گا۔ صوبے میں احسان لینے کے بدلے وفاق میں احسان کرنیوالی پوزیشن نہ ہونا ایم کیو ایم کے لیے دوسرا مسئلہ ہے۔متحدہ کا تیسرا مسئلہ دھاندلی کا الزام اور دوبارہ انتخابات کروانے کا مطالبہ ہے۔ اتنا زوردار مطالبہ کبھی نہیں کیا گیا۔ ماضی میں متحدہ کی حریف صرف جماعت اسلامی ہوا کرتی تھی۔ پچھلی صدی کے چار قومی انتخابات میں ایم کیو ایم کے لاکھ ووٹوں کے مقابل پچیس ہزار ووٹ لے کر وہ مقابلہ کرتے رہے۔ 2002 میں متحدہ مجلس عمل کے اتحاد کی بدولت ایم کیوایم کراچی وحیدرآباد سے چھ نشستیں گنوا بیٹھی۔ پچھلے انتخابات میں جماعت کے بائیکاٹ نے ایسی کوئی صورت حال پیدا نہ ہونے دی۔
یہ پہلا انتخاب ہے جس میں جماعت کے علاوہ تحریک انصاف، سنی تحریک، مہاجرقومی موومنٹ، مجلس وحدت المسلمین اور مسلم لیگ(ن) یعنی سب مل کر پتنگ پر ڈورے ڈال رہی تھیں۔ یہ چھ طرفہ شور ایم کیو ایم کے مینڈیٹ کو چیلنج کر رہا ہے۔ بائیکاٹ، الزامات، جوابی الزامات، دھرنے، مطالبے۔ ایسا کچھ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ جیتنے والا جیت جائے اور ہارنے والا ہار نہ مانے تو جیت کا مزہ کرکرا ہوجاتا ہے۔ متحدہ کے مسائل کا مطلب کراچی کے مسائل اور شہر قائد کے مسائل کا مطلب پاکستان کے مسائل۔ نواز شریف نے عمران کی عیادت کرکے اچھی روایت کو آگے بڑھایا جائے۔ اسلام آباد میں اقتدار میں آنیوالوں کو کراچی کے مسائل کو اپنے مسائل کی فہرست میں چند ابتدائی نمبروں پر رکھنا ہوگا۔ انا والی لیگ اور اکڑ والی متحدہ کو لچک دکھانی ہوگی۔ ذمے داروں کو بہت جلد انتخابی دھاندلیوں کے حوالے سے فیصلہ کرنا ہے۔ ایسا انتخابی نظام ہو کہ کوئی کسی پر بے ایمانی کا الزام نہ لگا سکے۔