متفرق ترکی ابیات و اشعار

حسان خان

لائبریرین
نیست پاکیزه‌تر از خاکِ درت باغِ جِنان
نیست حوری ز تو در باغِ جِنان رعناتر

(محمد فضولی بغدادی)
باغِ جنّت تمہاری خاکِ در سے پاکیزہ تر نہیں ہے۔۔۔ [اور] باغِ جنّت کے اندر حُور تم سے زیباتر نہیں ہے۔
محمد فضولی بغدادی کی مندرجۂ بالا فارسی بیت کا منظوم تُرکی ترجمہ:
قاپېنېن تۏرپاغې تک پاک دئییل باغِ جِنان
حُورِ جنّت ده دئییل سن کیمی جان‌دان رعنا

(علی آغا واحد)
باغِ جنّت تمہاری خاکِ در کی مانند پاک نہیں ہے۔۔۔ [اور] حُورِ جنّت بھی تم جیسی 'جان' [و محبوب] سے زیباتر نہیں ہے۔

Qapının tоrpağı tək pak deyil baği-cinan,
Huri-cənnət də deyil sən kimi candan rə'na.

× شاعر کا تعلق جمہوریۂ آذربائجان سے تھا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
مَی و مَی‌خانهٔ عشقین یۏلون بیلدیرمه اغیاره
بلالې عاشقه ایچدیر بلا پیمانه‌سین یا رب

(ذِکری اردَبیلی)
یا رب! شراب و شراب خانۂ عشق کی راہ اغیار کو مت بتاؤ۔۔۔ [بلکہ فقط] رنج زدہ و گرفتارِ بلا عاشق کو پیمانۂ بلا پِلاؤ۔

Meyü meyxaneyi-eşqin yolun bildirmə əğyarə,
Bəlalı aşiqə içdir bəla peymanəsin, yarəb.
 

حسان خان

لائبریرین
محمد ہادی اپنی نظم 'من بیر کِتابم' (میں ایک کتاب ہوں) میں ایک جا کہتے ہیں:
علم اهلی‌دیر جهان‌دا سزاوارِ اِلتِفات
جاهل همیشه مظهرِ قهر و عِتاب‌دېر

(محمد هادی)
دنیا میں اہلِ علم اِلتفات و توجّہ کا سزاوار ہے۔۔۔ [جبکہ] جاہل ہمیشہ مظہرِ قہر و عِتاب ہے

Elm əhlidir cahanda səzavari-iltifat,
Cahil həmişə məzhəri-qəhrü itabdır.


× شاعر کا تعلق قفقازی آذربائجان سے تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
محمد ہادی اپنی نظم 'من بیر کِتابم' (میں ایک کتاب ہوں) میں ایک جا کہتے ہیں:
جاهل سنه ائدرسه جهولانه بیر خِطاب

معنالې بیر سُکوت اۏنا اعلىٰ جواب‌دېر
(محمد هادی)
جاہل اگر تم سے کوئی جاہلانہ خِطاب [و گفتگو] کرتا ہے تو ایک پُرمعنی سُکوت اُس کا اعلیٰ جواب ہے۔

Cahil sənə edərsə cəhulanə bir xitab,
Mə'nalı bir sükut ona ə'la cavabdır!


× شاعر کا تعلق قفقازی آذربائجان سے تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
بنۆم یئرۆم فنا بحری و مجنون یئری ساحل‌دۆر
باڭا بڭزتمه آنې اۏل بنۆم یانومدا عاقل‌دۆر

(رحمتی تبریزی)
میرا مسکن بحرِ فنا، [جبکہ] مجنوں کا مسکن ساحل ہے۔۔۔ مجھ سے اُس کو مشابہت مت دو، وہ میرے مقابلے میں عاقل ہے۔

Benüm yėrüm fenâ baḥrı vü Mecnûn yėri sâḥildür
Banga bengzetme anı ol benüm yânumda 'âḳildür
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
قرنِ ہجدہم کے قفقازی آذربائجانی شاعر مُلّا پناہ واقف اپنی ایک نظم کے ایک بند میں فرماتے ہیں:
من سنین وصفینی، ای ماهِ کرم،
حافظ‌دن، جامی‌دن آرتېق سؤیله‌رم،
حقّ بیلیر که، سنی نئجه ایسته‌رم،
آی بی‌وفا، قدیر‌بیلمز، بری باخ!

(مُلّا پناہ واقف)
[اے محبوب!] اے ماہِ کَرم! میں تمہارے وصف، حافظ اور جامی سے بیشتر بیان کرتا ہوں (یعنی حافظ و جامی بھی تمہاری توصیف اُس طرح نہیں کر سکتے جس طرح میں کرتا ہوں)۔۔۔ حق تعالیٰ جانتا ہے کہ میں تمہیں کس طرح چاہتا اور آرزو کرتا ہوں۔۔۔ اے بے وفا! اے قدر ناشناس! اِس طرف نگاہ کرو!

Mən sənin vəsfini, еy mahi-kərəm,
Hafizdən, Camidən artıq söylərəm,
Haqq bilir ki, səni nеcə istərəm,
Ay bivəfa, qədirbilməz, bəri bax!


× مندرجۂ بالا بند گیارہ ہِجوں کے ہِجائی وزن میں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
علی‌المُرتضیٰ‌دن ایسته، واقف، هر نه ایسترسن
اۏنو قېلمېش کرم‌لی حضرتِ وهّاب ایگیت‌لرده

(مُلّا پناه واقف)
اے واقف! تم جو کچھ بھی خواہش کرتے ہو، اُس کو علی المُرتضیٰ سے خواہش کرو۔۔۔ اُن کو حضرتِ وہّاب (یعنی خدائے عطا کنندہ) نے جوانوں [اور دِلاوروں کے زُمرے] میں باکرَم بنایا ہے۔

Əliyyəlmürtəzadən istə, Vaqif, hər nə istərsən,
Оnu qılmış kərəmli həzrəti-Vəhhab igitlərdə.

× شاعر کا تعلق قفقازی آذربائجان سے تھا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ای گُلِ خندان، فراقېندان سنین قان آغلارام
ائیلرم شام و سَحر چاکِ گریبان آغلارام

(مُلّا پناه واقف)
اے گُلِ خنداں! تمہارے فراق کے باعث میں خون روتا ہوں
میں شام و سَحَر گریبان کو چاک کرتا ہوں [اور] روتا ہوں

Еy güli-xəndan, fəraqından sənin qan ağlaram,
Еylərəm şamü səhər çaki-giriban ağlaram.


× شاعر کا تعلق قفقازی آذربائجان سے تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
کؤنۆل شمعِ رویینده پروانه‌دیر
اۏنا سوزدن خوف و پروا نه‌دیر

(ابوالحسن راجی تبریزی)
[میرا] دل تمہارے چہرے کی شمع میں پروانہ ہے۔۔۔ اُس کو سوز سے خوف و پروا کیا ہے؟

Könül şәm'i-ruyindә pәrvanәdir,
Ona suzdәn xövfü pәrva nәdir.
 

حسان خان

لائبریرین
بیلرسن اگر باخسان آیینه‌یه
سنه اۏخشادېر خلق آیی نه‌یه

(ابوالحسن راجی تبریزی)
اگر تم آئینے پر نگاہ کر لو تو جان جاؤ گے کہ مردُم ماہ کو تم سے مشابہت کیوں دیتے ہیں۔

Bilәrsәn әgәr baxsan ayinәyә,
Sәnә oxşadır xәlq ayi nәyә?

 

حسان خان

لائبریرین
چېخارماز سنی یاددان ماه، سال،
اۏنو سن ده بیر یاده، ای ماه، سال!

(ابوالحسن راجی تبریزی)
خواہ ماہ و سال گذر جائیں، وہ (راجی) تمہیں یاد سے نہیں نکالے گا۔۔۔ اے ماہ! تم بھی ذرا [ایک بار] اُس کو یاد میں لاؤ۔

Çıxarmaz sәni yaddan mah, sal,
Onu sәn dә bir yadә, ey mah, sal!
 

حسان خان

لائبریرین
ابوالحسن راجی تبریزی کے ایک نوحے کا ایک بند:
شهرِ یثرب‌دن اۏلان وقته مسافر زینب،
یئددی قارداشینه ائیلردی تفاخر زینب،
ایندی قان آغلاماسون، نئیله‌سۆن آخر زینب،
بیرجه بیماری قالوب یئددی برادر یئرینه.

(راجی تبریزی)
شہرِ یثرب سے سفر پر روانہ ہوتے وقت زینب خود کے سات برادروں پر فخر کرتی تھی۔۔۔ [لیکن] اِس وقت [اگر] وہ خون نہ روئے، تو آخر زینب کیا کرے؟ [کہ] سات برادروں کی بجائے اُس کے پاس فقط ایک بیمار باقی بچا ہے۔

Şəhri-Yəsribdən olan vəqtə müsafir Zeynəb,
Yeddi qardaşinə eylərdi təfaxür Zeynəb,
İndi qan ağlamasun, neyləsün axir Zeynəb,
Bircə Bimari qalub yeddi bəradər yerinə.


× مصرعِ ثانی کا قافیہ عیب دار ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
یہاں benim yerim نہیں آئے گا؟
آپ نے درست فرمایا، برادر۔ لیکن جس مقالے سے میں نے یہ بیت نقل کی ہے وہاں مُصحِّحِ متن نے قدیم طرزِ تلفظ کو محفوظ رکھا تھا۔ شواہد کی روشنی میں قدیم تلفظ 'بنۆم یئرۆم' ہی تھا، 'بنیم یئریم' معاصر زبان میں رائج ہے۔ 'ساحل‌دۆر' اور 'عاقل‌دۆر' کا بھی معاصر زبان میں تلفظ 'ساحل‌دیر' اور 'عاقل‌دیر' ہو گا۔ بہ علاوہ، گافِ غُنّہ بھی معاصر زبان میں استعمال نہیں ہوتا اور نون میں تبدیل ہو چکا ہے۔
ایک اور جالبِ توجہ چیز یہ ہے کہ 'بن' حالا استانبولی میں استعمال ہوتا ہے، لیکن گذشتہ ادوار میں یہ آذربائجان میں بھی رائج تھا، جہاں اب وہ متروک ہو کر 'من' کے لیے جگہ خالی کر چکا ہے۔

پس نوشت: 'یانومدا' کا تلفظ بھی معاصر زبان مین 'یانېمدا' کیا جاتا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
سابقاً ذوق وئریردی شُعَرایا شیراز
ایندی شیرازې کئچیب آب و هوایِ تبریز

(راجی تبریزی)
گذشتہ زمانے میں شاعروں کو شہرِ شیراز ذوق دیتا تھا۔۔۔ حالا شہرِ تبریز کی آب و ہوا شیراز سے آگے نِکل گئی ہے۔

Sabiqən zövq verirdi şüəraya Şiraz
İndi Şirazı keçib abü həvayi-Təbriz!
 

حسان خان

لائبریرین
قفقازی آذربائجانی شاعرہ «خورشید بانو ناتوان» ایک عاشورائی مرثیے کے مطلع میں بادِ صبا سے مُخاطِب ہو کر کہتی ہیں:
سؤیله حۆسئینه، ائی صبا، کرب‌ۆبلایه گلمه‌سۆن
گلسه، دۆشه‌ر بو دشت‌ده درد ۆ بلایه، گلمه‌سۆن

(خورشید بانو ناتوان)
اے صبا! حُسین سے کہو کہ وہ کرب و بلا مت آئے!۔۔۔ اگر وہ آئے گا تو وہ اِس دشت میں درد و بلا میں گِر جائے (گرفتار ہو جائے) گا، مت آئے!

Söylə Hüseynə, ey səba, Kərbübəlayə gəlməsün,
Gəlsə, düşər bu dəştdə dərdü bəlayə, gəlməsün.
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ایندی شیرازې کئچیب آب و هوایِ تبریز
İndi Şirazı keçib abü həvayi-Təbriz!
لطفا اس مصرعے کا تجزیہ کردیں
ایندی = حالا، اب، اِس وقت
شیرازې = شیراز کو
کئچمک = گذرنا (ایک ذیلی معنی 'آگے نکلنا'، 'سبقت حاصل کرنا' اور 'عقب چھوڑنا' بھی ہے۔)
کئچیب = گذر گیا ہے
شیرازې کئچیب = شیراز کو گذر گیا ہے (یعنی شیراز سے آگے نکل گیا ہے یا شیراز کو عقَب چھوڑ دیا ہے)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
بو رسم‌دۆر عاشق‌لره دیوانه دئیه‌للر
بو طایفه‌ده حوصله دریا گرک اۏلسون

(راجی تبریزی)
یہ رسم ہے کہ عاشقوں کو دیوانہ کہتے ہیں۔۔۔۔ [لہٰذا] اِس گروہ میں حوصلہ بحر [جتنا] ہونا چاہیے۔

Bu rəsmdür aşiqlərə divanə deyəllər,
Bu taifədə hövsələ dərya gərək olsun.


× دئیه‌للر = دئیه‌رلر

× علی طاہری اور مسعود معتمدی نے اپنے مقالے 'برداشت‌هایِ عرفانیِ راجی از دیوانِ حافظ' میں اِس بیت کی یہ تعبیر کی ہے:
[اگرچہ] یہ مرسوم ہے کہ عاشقوں کو دیوانہ کہتے ہیں [لیکن] اِس جماعت کا حوصلہ بحر [کے بقدر] ہونا چاہیے۔
لیکن میری رائے میں بیت کی اوّل الذکر تعبیر ارجَح ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
هجران و وصل لازم و ملزومِ عشق‌دۆر
بیر گۆن گؤرنده یۆز گۆن ایشیم آه و زار‌دۆر

(راجی تبریزی)
ہجران و وصل عشق میں لازم و ملزوم ہیں۔۔۔ جب ایک روز [یار کو] دیکھتا ہوں تو صد روز [تک] میرا کار آہ و زاری [ہوتا] ہے (یعنی یار کو ایک روز دیکھنے پر صد روز تک آہ و زاری کرتا ہوں)۔

Hicranü vəsl lazimü məlzumi-eşqdür
Bir gün görəndə yüz gün işim ahü zardür
 
آخری تدوین:
Top