مجمع لگا ہوا ہے قلندر کے آس پاس ۔ فاتح الدین بشیر

جاسمن

لائبریرین
کون سا شعر زیادہ اچھا ہے؟ نہیں یہ بالکل نہیں کہا جا سکتا۔ ہر شعر نگینہ ہے۔ ہر شعر موتی ہے۔ آپ کے پاس بہت نایاب موتی ہیں۔ اور کنتے پیارے قافیے استعمال کرتے ہیں! بہت تشفی ہوتی ہے آپ کی شاعری پڑھ کے۔اور یہ تبصرہ مجھے بہت ہی کم لگ رہا ہے۔ سمجھ نہیں آ رہی کہ مزید کیا لکھوں۔ اِس لئے تھوڑے کو بہت جانیں۔:D
 

فاتح

لائبریرین
عالم ہے ہُو کا قبرِ سکندر کے آس پاس
مجمع لگا ہوا ہے قلندر کے آس پاس


خوابوں کو عاق کر کے نکالا ہی تھا ابھی
بازار لگ گیا ہے مرے گھر کے آس پاس

شاید اسی میں حسرتیں دفنا رہا ہوں میں
سگرٹ کی راکھ بکھری ہے بستر کے آس پاس

ابھرا ستارۂ سحَری ڈوب بھی گیا
سوتا رہا میں لوحِ مقدر کے آس پاس

تصویر ہاتھ میں تھی تصور دماغ میں
منظر تھا مجھ میں اور میں منظر کے آس پاس

پوری غزل بہت خوب ہے ۔۔۔۔۔ آخری شعر میں باہر نکلے ہی نہیں ۔۔۔۔۔ قنوطیت رنگ بھر دیتی ہے ۔بہت خوب
بہت شکریہ سعدیہ۔ جیتی رہو
 

فاتح

لائبریرین
کون سا شعر زیادہ اچھا ہے؟ نہیں یہ بالکل نہیں کہا جا سکتا۔ ہر شعر نگینہ ہے۔ ہر شعر موتی ہے۔ آپ کے پاس بہت نایاب موتی ہیں۔ اور کنتے پیارے قافیے استعمال کرتے ہیں! بہت تشفی ہوتی ہے آپ کی شاعری پڑھ کے۔اور یہ تبصرہ مجھے بہت ہی کم لگ رہا ہے۔ سمجھ نہیں آ رہی کہ مزید کیا لکھوں۔ اِس لئے تھوڑے کو بہت جانیں۔:D
اتنی بھرپور اور خوبصورت داد نے تو ہمیں مغرور کر دیا ہے۔ نوازش
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
شاید اسی میں حسرتیں دفنا رہا ہوں میں​
سگرٹ کی راکھ بکھری ہے بستر کے آس پاس

واہ واہ واہ! اچھی غزل ہے !!! اور مندرجہ بالا شعر تو بہت ہی خوبصورت ہے ! کیا عکاسی ہے فاتح بھائی ! سلامت رہیئے !! اللہ کرے زورِ بیاں اور زیادہ!
(حسنِ اتفاق دیکھئے کہ 2003 کی میری ایک مسلسل غزل کی ردیف بھی یہی ’’آس پاس‘‘ ہے ۔ :) )
 

فاتح

لائبریرین
شاید اسی میں حسرتیں دفنا رہا ہوں میں
سگرٹ کی راکھ بکھری ہے بستر کے آس پاس

واہ واہ واہ! اچھی غزل ہے !!! اور مندرجہ بالا شعر تو بہت ہی خوبصورت ہے ! کیا عکاسی ہے فاتح بھائی ! سلامت رہیئے !! اللہ کرے زورِ بیاں اور زیادہ!

(حسنِ اتفاق دیکھئے کہ 2003 کی میری ایک مسلسل غزل کی ردیف بھی یہی ’’آس پاس‘‘ ہے ۔ :) )
بڑی محبت ہے حضور۔
کلیات شاہ نصیر کا مطالعہ کر رہا تھا تو اس زمین میں شاہ نصیر کی دو غزلیں پڑھیں اور طبیعت رواں ہو گئی اور یہ غزل ہوئی۔
شاہ نصیر کی اس زمین میں ان کی دونوں غزلوں کے مطلع پڑھ کر لطف اٹھائیے:

یک چند ہم پھرے ہیں ترے گھر کے آس پاس
مہ وش! ٹک اب تو بیٹھنے دے در کے آس پاس

اور

شیشے دھرے ہیں واں مرے دلبر کے آس پاس
یاں آبلے ہیں اس دلِ مضطر کے آس پاس
 

ناصر رانا

محفلین
بہت خوب۔
مطلع اور مقطع دونوں ہی پھڑکن سے بھرپور ہیں خاص کر مطلع۔
باقی غزل کا ہر شعربھی لاجواب ہے۔ مزہ آگیا پڑھ کر۔
 

عباس اعوان

محفلین
کیا خوب غزل ہے ۔ ایک ایک شعر اعلیٰ ہے۔
ابھرا ستارۂ سحَری ڈوب بھی گیا
سوتا رہا میں لوحِ مقدر کے آس پاس

تصویر ہاتھ میں تھی تصور دماغ میں
منظر تھا مجھ میں اور میں منظر کے آس پاس
اور ان کی تو کیا ہی بات ہے۔
ڈھیروں داد اور بہت بہت شکریہ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بڑی محبت ہے حضور۔
کلیات شاہ نصیر کا مطالعہ کر رہا تھا تو اس زمین میں شاہ نصیر کی دو غزلیں پڑھیں اور طبیعت رواں ہو گئی اور یہ غزل ہوئی۔
شاہ نصیر کی اس زمین میں ان کی دونوں غزلوں کے مطلع پڑھ کر لطف اٹھائیے:

یک چند ہم پھرے ہیں ترے گھر کے آس پاس
مہ وش! ٹک اب تو بیٹھنے دے در کے آس پاس

اور

شیشے دھرے ہیں واں مرے دلبر کے آس پاس
یاں آبلے ہیں اس دلِ مضطر کے آس پاس

بہت اعلیٰ ۔ فاتح بھائی ! نہ صرف یہ کہ آپ زمین کو دہلی سے نکال کر بلادِ جدید لے آئے بلکہ زمین کا حق بھی ادا کردیا ! واہ!
اگر شاہ نصیر کی کلیات کا ربط بھی عنایت ہوسکے تو ممنون رہوں گا۔
 
Top