راحیل فاروق
محفلین
میں موجودہ سائنس اور ٹیکنالوجی سے بےزار ہو گیا ہوں۔ بہت بےزار۔ مجھے سائنسدانوں پر غصہ آنے لگا ہے۔ شدید غصہ۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ مجھے فینفسہٖ سائنس اور ٹیکنالوجی سے کوئی عناد ہے۔ نہیں، ایسا نہیں۔ اصل میں مسئلہ یہ ہے کہ مجھے لگتا ہے کہ ہماری سائنس کچھ ایسے کاموں میں الجھ گئی ہے جن سے کہیں زیادہ ضروری کام ابھی کرنے والے رہتے ہیں۔ گویا فرض چھوڑ کر نفل ادا کرنے کے درپے ہے۔ کیسے؟ میں آپ کو سمجھاتا ہوں۔
دیکھیے، سائنس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ یہ انسانی زندگی کو بہتر بنائے۔ اس کے مسائل کو سمجھے۔ حل کرے۔ اس نظام میں آئندہ اور ممکنہ خرابیوں کا سدِباب کرے۔ سائنسدان بےچارے صبحوشام اسی مقصد سے کام کرتے رہتے ہیں۔ کوئی خلاؤں میں جھانک رہا ہے۔ کوئی پاتال کھنگال رہا ہے۔ کوئی جواہر کی کنہ کھوج رہا ہے۔کوئی بجلیوں پر کمند ڈال رہا ہے۔ کوئی فاصلوں کو زقندوں میں سمیٹ رہا ہے۔ کوئی ہواؤں کو قید کر رہا ہے۔ کوئی ریگِصحرا سے ایک نئی دنیا تخلیق کر رہا ہے۔ کوئی کسی نئی ایجاد سے دنیا کو صحرا بنانے کا سامان کر رہا ہے۔ بہت کچھ ہو رہا ہے۔ سائنسدان بہت محنت کر رہے ہیں۔ سائنس روز ایک نیا معجزہ ہمیں دکھاتی ہے اور ہم پچھلے کو بھول جاتے ہیں۔
مگر مجھے لگتا ہے یہ سب کھلونے ہیں۔ بگڑے ہوئے بچے کو نادان ماں کے تحفے۔ نادان مائیں یہی کرتی ہیں۔ بچہ بلکتا ہے، ضد کرتا ہے، پسرتا ہے، چلاتا ہے تو دوڑ کر اس کے منہ میں چوسنی ڈال دیتی ہیں۔ ہاتھ میں جھنجنا دے دیتی ہیں۔ لہک لہک کے لوری سنانے لگتی ہیں۔ جھولی میں لے کے گھمانے پھرانے لگتی ہیں۔ بچے کی تربیت انھیں ضروری محسوس نہیں ہوتی۔ بچہ جب بڑا ہو جاتا ہے تو یہی عادات پختہ ہو جاتی ہیں۔ ایسی ایسی فرمائشیں کرنے لگتا ہے جنھیں ماں پورا کرے تو مرے اور نہ کرے تو مرے۔ نہ مانی جائیں تو گھر میں ادھم مچتا ہے اور مانی جائیں تو خود بچے کے لیے مہلک ہیں۔
مجھے بس یہی لگتا ہے۔ سائنس انسانیت کی نادان ماں ہے۔ اسے ہم سے محبت ضرور ہے۔ یہ ہمارا بھلا ضرور چاہتی ہے۔ مگر جانتی نہین کہ ہمارا برا بھلا اصل میں ہے کیا ۔ محبت کے تقاضے پورے کرنے میں یہ ہمیں مسلسل بگاڑ رہی ہے۔ بظاہر دیکھنے والوں کو رشک آتا ہے کہ اس نے ہمیں کتنی سہولیات مہیا کر ڈالی ہیں۔ کتنے نخرے اٹھائے جا رہے ہیں۔ کتنی آسانیاں پیدا کی جا رہی ہیں۔ مگر ہوش والے جانتے ہیں کہ یہ ہلاکت کے سامان ہیں۔ بہت بڑی ہلاکت کے!
سائنس نے ہمیں جہاز بنا دیے ہیں تاکہ ہم سفر کی صعوبتوں سے بچ جائیں۔ موبائل فون تھما دیے ہیں تاکہ ہم رشتے نبھانے میں دقت محسوس نہ کریں۔ انٹرنیٹ مہیا کر دیا ہے تاکہ علم اور معلومات کی جملہ اشکال ہماری دسترس میں آ جائیں۔ طب کو بدن چیرے بغیر دل چیرنے کے قابل بنا دیا ہےتاکہ ہمارے روگ دور ہو سکیں۔خلاؤں میں جال پھینک دیے ہیں تاکہ رخشِعمر کو ایک وسیعتر میدان میسر آ جائے۔ سورج کی شعاعوں کو گرفتار کر لیا ہے تاکہ ہمیں اپنی توانائی صرف کرنے کی زحمت نہ کرنی پڑے۔ بڑے بڑے بم بنا دیے ہیں تاکہ ہم جس سے دکھی ہوں اس پر غصہ نکال سکیں۔ ہواؤں کی نبض تھام لی ہے تاکہ ہم قدرتی آفات سے زک نہ اٹھائیں۔
مگر میں مطمئن نہیں۔ مجھے یہ سائنس نہیں چاہیے۔ بلکہ غور کیا جائے تو کوئی بھی مطمئن نہیں۔ کسی کو بھی یہ سائنس درحقیقت نہیں چاہیے۔ ورنہ سب بلبلا نہ رہے ہوتے۔ ہر صبح کے اخبار چیخ چیخ کر ماتم نہ کر رہے ہوتے۔ انسانیت کے بگڑے ہوئے بچے ایک دوسرے کی جان کے لاگو نہ ہوتے۔ دھرتی ماں کا آنچل چاک کر کے سورج کی بدنگاہی کا شکار نہ ہوتے۔ ایک ہتھیار کے مقابلے میں دوسرا ہتھیار رکھ کر امن قائم نہ کرتے۔ اربوں آدمزاد اس چھوٹی سی دنیا میں ایک دوسرے کے پہلوبہپہلو تنہا نہ ہوتے۔ خودکشیاں نہ ہوتیں۔ دھماکے نہ ہوتے۔ جنگیں نہ ہوتیں۔ قتل نہ ہوتے۔ ڈاکے نہ ہوتے۔ زیادتیاں نہ ہوتیں۔ آنسو نہ ہوتے۔ بین نہ ہوتے۔ چیخیں نہ ہوتیں۔ کرب نہ ہوتے۔ وحشتیں نہ ہوتیں۔ خوف نہ ہوتے۔ مجبوریاں نہ ہوتیں۔
اس لیے میں کہتا ہوں کہ مجھے ایک سائنس چاہیے۔
وہ سائنس جو تحقیق کر کے ایسی ٹیکنالوجی لائے جو انسان کو آئیویآر کی طرح بااخلاق بنا دے۔ وہ سائنس جو ریل کی پٹڑی جیسا صبر سکھا دے۔ وہ سائنس جو محبت کا کوئی آلہ بنا کر پوری دنیا میں اسے سِم کی طرح بانٹ دے۔ وہ سائنس جو بنیآدم میں غصے کو جڑ سے اکھیڑ سکے۔ وہ سائنس جو کینے اور بغض کا علاج دریافت کرے۔ وہ سائنس جو انسان کی قدر تھری ڈی میں دکھائے۔ وہ سائنس جو خوف اور دہشت کو بم سے اڑا دے۔ وہ سائنس جو تنہائی کا مداوا ہو۔ وہ سائنس جو رشتوں کو لافانی بنا دے۔ وہ سائنس جو ظرف کو برجالعرب سے بھی بلند اٹھا دے۔وہ سائنس جو دل کی گرہیں کھول سکے۔ وہ سائنس جو غم کو رسولی کی طرح نکال پھینکے۔ وہ سائنس جو تحمل اور برداشت کی ٹھنڈک اےسی سے بھی سستی بیچے۔ وہ سائنس جو قربانی کے جذبے کو کارخانوں میں تھوک کے حساب سے پیدا کر کے گھر گھر پہنچا دے۔ وہ سائنس جو حرصوآز کو مار بھگانے والا سپرے ایجاد کرے۔ وہ سائنس جو احساس کے ستاروں پر کمند ڈالے۔ وہ سائنس جو ضمیر کی گہرائیوں میں دفن خزانے کھود لائے۔
مجھے ایک سائنس چاہیے جو محض میرے آنسو پونچھنے میں نہ لگی رہے بلکہ مجھے ہنسنا سکھائے۔ مجھے ایک ٹیکنالوجی چاہیے جو نت نئے رہڑو بنا بنا کر نہ دے بلکہ مجھے اپنی ٹانگوں پر کھڑا کرے۔ میں موجودہ سائنس اور ٹیکنالوجی سے بےزار ہو گیا ہوں۔ بہت ہی بےزار!
دیکھیے، سائنس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ یہ انسانی زندگی کو بہتر بنائے۔ اس کے مسائل کو سمجھے۔ حل کرے۔ اس نظام میں آئندہ اور ممکنہ خرابیوں کا سدِباب کرے۔ سائنسدان بےچارے صبحوشام اسی مقصد سے کام کرتے رہتے ہیں۔ کوئی خلاؤں میں جھانک رہا ہے۔ کوئی پاتال کھنگال رہا ہے۔ کوئی جواہر کی کنہ کھوج رہا ہے۔کوئی بجلیوں پر کمند ڈال رہا ہے۔ کوئی فاصلوں کو زقندوں میں سمیٹ رہا ہے۔ کوئی ہواؤں کو قید کر رہا ہے۔ کوئی ریگِصحرا سے ایک نئی دنیا تخلیق کر رہا ہے۔ کوئی کسی نئی ایجاد سے دنیا کو صحرا بنانے کا سامان کر رہا ہے۔ بہت کچھ ہو رہا ہے۔ سائنسدان بہت محنت کر رہے ہیں۔ سائنس روز ایک نیا معجزہ ہمیں دکھاتی ہے اور ہم پچھلے کو بھول جاتے ہیں۔
مگر مجھے لگتا ہے یہ سب کھلونے ہیں۔ بگڑے ہوئے بچے کو نادان ماں کے تحفے۔ نادان مائیں یہی کرتی ہیں۔ بچہ بلکتا ہے، ضد کرتا ہے، پسرتا ہے، چلاتا ہے تو دوڑ کر اس کے منہ میں چوسنی ڈال دیتی ہیں۔ ہاتھ میں جھنجنا دے دیتی ہیں۔ لہک لہک کے لوری سنانے لگتی ہیں۔ جھولی میں لے کے گھمانے پھرانے لگتی ہیں۔ بچے کی تربیت انھیں ضروری محسوس نہیں ہوتی۔ بچہ جب بڑا ہو جاتا ہے تو یہی عادات پختہ ہو جاتی ہیں۔ ایسی ایسی فرمائشیں کرنے لگتا ہے جنھیں ماں پورا کرے تو مرے اور نہ کرے تو مرے۔ نہ مانی جائیں تو گھر میں ادھم مچتا ہے اور مانی جائیں تو خود بچے کے لیے مہلک ہیں۔
مجھے بس یہی لگتا ہے۔ سائنس انسانیت کی نادان ماں ہے۔ اسے ہم سے محبت ضرور ہے۔ یہ ہمارا بھلا ضرور چاہتی ہے۔ مگر جانتی نہین کہ ہمارا برا بھلا اصل میں ہے کیا ۔ محبت کے تقاضے پورے کرنے میں یہ ہمیں مسلسل بگاڑ رہی ہے۔ بظاہر دیکھنے والوں کو رشک آتا ہے کہ اس نے ہمیں کتنی سہولیات مہیا کر ڈالی ہیں۔ کتنے نخرے اٹھائے جا رہے ہیں۔ کتنی آسانیاں پیدا کی جا رہی ہیں۔ مگر ہوش والے جانتے ہیں کہ یہ ہلاکت کے سامان ہیں۔ بہت بڑی ہلاکت کے!
سائنس نے ہمیں جہاز بنا دیے ہیں تاکہ ہم سفر کی صعوبتوں سے بچ جائیں۔ موبائل فون تھما دیے ہیں تاکہ ہم رشتے نبھانے میں دقت محسوس نہ کریں۔ انٹرنیٹ مہیا کر دیا ہے تاکہ علم اور معلومات کی جملہ اشکال ہماری دسترس میں آ جائیں۔ طب کو بدن چیرے بغیر دل چیرنے کے قابل بنا دیا ہےتاکہ ہمارے روگ دور ہو سکیں۔خلاؤں میں جال پھینک دیے ہیں تاکہ رخشِعمر کو ایک وسیعتر میدان میسر آ جائے۔ سورج کی شعاعوں کو گرفتار کر لیا ہے تاکہ ہمیں اپنی توانائی صرف کرنے کی زحمت نہ کرنی پڑے۔ بڑے بڑے بم بنا دیے ہیں تاکہ ہم جس سے دکھی ہوں اس پر غصہ نکال سکیں۔ ہواؤں کی نبض تھام لی ہے تاکہ ہم قدرتی آفات سے زک نہ اٹھائیں۔
مگر میں مطمئن نہیں۔ مجھے یہ سائنس نہیں چاہیے۔ بلکہ غور کیا جائے تو کوئی بھی مطمئن نہیں۔ کسی کو بھی یہ سائنس درحقیقت نہیں چاہیے۔ ورنہ سب بلبلا نہ رہے ہوتے۔ ہر صبح کے اخبار چیخ چیخ کر ماتم نہ کر رہے ہوتے۔ انسانیت کے بگڑے ہوئے بچے ایک دوسرے کی جان کے لاگو نہ ہوتے۔ دھرتی ماں کا آنچل چاک کر کے سورج کی بدنگاہی کا شکار نہ ہوتے۔ ایک ہتھیار کے مقابلے میں دوسرا ہتھیار رکھ کر امن قائم نہ کرتے۔ اربوں آدمزاد اس چھوٹی سی دنیا میں ایک دوسرے کے پہلوبہپہلو تنہا نہ ہوتے۔ خودکشیاں نہ ہوتیں۔ دھماکے نہ ہوتے۔ جنگیں نہ ہوتیں۔ قتل نہ ہوتے۔ ڈاکے نہ ہوتے۔ زیادتیاں نہ ہوتیں۔ آنسو نہ ہوتے۔ بین نہ ہوتے۔ چیخیں نہ ہوتیں۔ کرب نہ ہوتے۔ وحشتیں نہ ہوتیں۔ خوف نہ ہوتے۔ مجبوریاں نہ ہوتیں۔
اس لیے میں کہتا ہوں کہ مجھے ایک سائنس چاہیے۔
وہ سائنس جو تحقیق کر کے ایسی ٹیکنالوجی لائے جو انسان کو آئیویآر کی طرح بااخلاق بنا دے۔ وہ سائنس جو ریل کی پٹڑی جیسا صبر سکھا دے۔ وہ سائنس جو محبت کا کوئی آلہ بنا کر پوری دنیا میں اسے سِم کی طرح بانٹ دے۔ وہ سائنس جو بنیآدم میں غصے کو جڑ سے اکھیڑ سکے۔ وہ سائنس جو کینے اور بغض کا علاج دریافت کرے۔ وہ سائنس جو انسان کی قدر تھری ڈی میں دکھائے۔ وہ سائنس جو خوف اور دہشت کو بم سے اڑا دے۔ وہ سائنس جو تنہائی کا مداوا ہو۔ وہ سائنس جو رشتوں کو لافانی بنا دے۔ وہ سائنس جو ظرف کو برجالعرب سے بھی بلند اٹھا دے۔وہ سائنس جو دل کی گرہیں کھول سکے۔ وہ سائنس جو غم کو رسولی کی طرح نکال پھینکے۔ وہ سائنس جو تحمل اور برداشت کی ٹھنڈک اےسی سے بھی سستی بیچے۔ وہ سائنس جو قربانی کے جذبے کو کارخانوں میں تھوک کے حساب سے پیدا کر کے گھر گھر پہنچا دے۔ وہ سائنس جو حرصوآز کو مار بھگانے والا سپرے ایجاد کرے۔ وہ سائنس جو احساس کے ستاروں پر کمند ڈالے۔ وہ سائنس جو ضمیر کی گہرائیوں میں دفن خزانے کھود لائے۔
مجھے ایک سائنس چاہیے جو محض میرے آنسو پونچھنے میں نہ لگی رہے بلکہ مجھے ہنسنا سکھائے۔ مجھے ایک ٹیکنالوجی چاہیے جو نت نئے رہڑو بنا بنا کر نہ دے بلکہ مجھے اپنی ٹانگوں پر کھڑا کرے۔ میں موجودہ سائنس اور ٹیکنالوجی سے بےزار ہو گیا ہوں۔ بہت ہی بےزار!
تو کارِزمیں را نکو ساختی
کہ باآسماں نیز پرداختی
کہ باآسماں نیز پرداختی