عمر سیف
محفلین
تمہارا نام میں لکھتا ہوں کاغذ پر
دیکھتا ہوں ، سوچتا ہوں
وہ کاغذ پھاڑ دیتا ہوں
پھر اُن کاغذ کے ٹُکڑوں کو
مُٹّھی میں بھینچتا ہوں
پھینک دیتا ہوں
وہیں پر بیٹھ کر لڑتا ہوں خود سے
وہی کاغذ اُٹھاتا ہوں
آنکھوں سے لگاتا ہوں
پھر اپنے پاس رکھے پانی کے پیالے میں
وہ کاغذ ڈال دیتا ہوں
میں تُم کو سوچتا ہوں
پھر اُس پانی کو
تعویذِ محبت جان کر پی لیتا ہوں
دیکھتا ہوں ، سوچتا ہوں
وہ کاغذ پھاڑ دیتا ہوں
پھر اُن کاغذ کے ٹُکڑوں کو
مُٹّھی میں بھینچتا ہوں
پھینک دیتا ہوں
وہیں پر بیٹھ کر لڑتا ہوں خود سے
وہی کاغذ اُٹھاتا ہوں
آنکھوں سے لگاتا ہوں
پھر اپنے پاس رکھے پانی کے پیالے میں
وہ کاغذ ڈال دیتا ہوں
میں تُم کو سوچتا ہوں
پھر اُس پانی کو
تعویذِ محبت جان کر پی لیتا ہوں