جو کچھ بھی ہے محبت کا پھیلاؤ ہے
تیرے میرے اَبد کا کنارہ ہے یہ
استعارہ ہے یہ
روپ کا داؤ ہے
پیارکا گھاؤ ہے
جو کچھ بھی ہے محبت کا پھیلاؤ ہے
صبح دم جس گھڑی، پھول کی پنکھڑی
اوس کا آئنہ جگمگانے لگے
ایک بھنورا وہیں، دیکھ کر ہرکہیں
شاخ کی اوٹ سے،سر اٹھانے لگے
پھول،بھنورا،تلاطم ہے، ٹھہراؤ ہے
جو کچھ بھی ہے محبت کا پھیلاؤ ہے
خواب کیا کیا چنے،جال کیا کیا بُنے
موج تھمتی نہیں،رنگ ُرکتے نہیں
وقت کے فرش پر،خاک کے رقص پر
نقش جمتے نہیں،اَبر جُھکتے نہیں
ہر مسافت کی دُوری کا ِسمٹاؤ ہے
جو کچھ بھی ہے محبت کا پھیلاؤ ہے
امجد اسلام امجد