سید عاطف علی
لائبریرین
محبت ماورائے عقل اک ایسی حقیقت ہے
جسے میں خود سمجھ لیتا ہوں سمجھائی نہیں جاتی
جسے میں خود سمجھ لیتا ہوں سمجھائی نہیں جاتی
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کراک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل
ساری دنیا کو محبت کی نشانی دی ہے
بے حد کمالمحبت ماورائے عقل اک ایسی حقیقت ہے
جسے میں خود سمجھ لیتا ہوں سمجھائی نہیں جاتی
دل میں ہو سوز محبت کا وہ چھوٹا سا شررمحبت ماورائے عقل اک ایسی حقیقت ہے
جسے میں خود سمجھ لیتا ہوں سمجھائی نہیں جاتی
واہ واہ سید صاحبجس نے تجھ حسن پر نگاہ کیا
نور خورشید فرش راہ کیا
حق نے اپنے کرم ستی مج کوں
ملک خوبی کا پادشاہ کیا
مشق غفلت سے تیرہ باطن نے
صفحۂ زندگی سیاہ کیا
حوض کوثر کا تشنہ لب کب ہے
اس زنخداں کی جس نے چاہ کیا
کوچۂ زلف میں گیا جب دل
برگ سنبل کوں زاد راہ کیا
برق خرمن ہے جان دشمن کا
درد سیں جس نے ایک آہ کیا
مت جلا اب سراجؔ کوں ظالم
شعلۂ غم کوں عذر خواہ کیا
سراج اورنگ آبادی