مجھے تم اس طرح سوتے مت چھوڑ کر جانا
مجھے بیشک جگا دینا
بتا دینا کے
محبت کے سفر میں ساتھ میرے چل نہیں سکتے
جدائی میں ہجر میں ساتھ میرے چل نہیں سکتے
تمہیں راستہ بدلنا ہے
میری حد سے نکلنا ہے
تمہیں کس بات کا ڈر تھا
تمہیں جانے نہیں دیتا
ارے پاگل !!!
محبت کی طبیعت میں
زبردستی نہیں ہوتی
جسے راستی بدلنا ہو
اسے راستہ بدلنے سے
جسے حد سے نکلنا ہو
اسے حد سے نکلنے سے
نہ کوئی روک پایا ہے
نہ کوئی روک پائے گا
تمہیں کس بات کا ڈر تھا
مجھے بیشک جگا دیتے
تمہیں میں دیکھ ہی لیتا
تمہیں کوئی دعا دیتا
کم از کم یوں تو نہ ہوتا
میرے پاس حقیقت ہے !
تمہارے بعد کھونے کے لئے
کچھ بھی نہیں باقی
مگر خود کو کھو جانے سے ڈرتا ہوں
میں اب سونے سے ڈرتا ہوں ۔۔۔۔!!!!
محبت کی طبیعت میں
یہ کیسا بچپنا قدرت نے رکھا ہے
کہ جتنی پرانی جتنی بھی مضبوط ہو جائے
اسے تائیدِ تازہ کی ضرورت پھر بھی رہتی ہے
یقین کی آخری حد تک دلوں میں لہلہاتی ہو
نگاہوں سے ٹپکتی ہو لہو میں جگمگاتی ہو
ہزاروں طرح سے دلکش حسیں حال بناتی ہو
اسے اظہار کے لفظوں کی حاجت پھر بھی رہتی ہے
(امجد اسلام امجد)
اپنی محبت کے افسانے کب تک راز بناؤ گے
رسوائی سے ڈرنے والو بات تم ہی پھیلاؤ گے
اس کا کیا ہے تم نہ سہی تو چاہنے والے اور بہت
ترکِ محبت کرنے والو تم تنہا رہ جاؤ گے
وہ چاند چہرے وہ بہکی باتیں سلگتے دن تھے مہکتی راتیں
وہ چھوٹے چھوٹے سے کاغذوں پر محبتوں کے پیام لکھنا
گلاب چہروں سے دل لگانا وہ چپکے چپکے نظر ملانا
وہ آرزوؤں کے خواب بننا وہ قصہّ ناتمام لکھنا
حسن رضوی