پہلی پہلی محبتوں کا خمار
باتوں باتوں میں رات ڈھل جائے
اب کے دل میں وہ درد اترا ہے
غیر ممکن ہے آج کل جائے
زندگی خوش ہے تیرے وعدوں پر
جیسے بچے کا دل بہل جائے
ہجر کی رات ڈھل گئی محسن
اب تو دل سے کہو سنبھل جائے
آؤ تو لگاؤ ساتھ سینے کے مگر لیکن
یہ پوچھو حال دل میر حسن خنجر کی پٹھی ہوں
تیری قُ لفت محبت کا گلہ کچھ کر نہی سکتی
جگر چھلنی ہوا میرا، گئی عالم میں چھٹی ہوں
کسی کمزور لمحے میں
اگر میں تم سے یہ کہہ دوں
مجھے تم سے “محبت“ ہے
تم یہ مت سمجھ لینا
کہ۔۔۔۔۔
میں نے سچ کہا ہو گا
ایسی دل نشیں باتوں کو
ایسی دلبر اداؤں میں کہنا
مجھے بچپن سے آتا ہے
میری آنکھیں میرا چہرا
میرا یہ بے ساختہ لہجہ
یہ سب کچھ جھوٹ کہتا ہے
مگر۔۔۔۔
اس جھوٹ میں ایک سچ بھی ہے
کہ۔۔۔۔۔
مجھے تم سے “محبت“ ہے۔
کوئی وعدہ نہیں ہم میں
نہ آپس میں بہت باتیں
نہ ملنے میں بہت شوخی
نہ آخرِ شب کوئی مناجاتیں
مگر ایک ان کہی سی ہے
جو ہم دونوں سمجھتے ہیں
عجب ایک سرگوشی سی ہے
جو ہم دونوں سمجھتے ہیں
یہ سارے دلرُوبا منظر
طلسمی چاندنی راتیں
سنہری دُھوپ کے موسم
یہ ہلکے سُکھ کی برساتیں
سبھی ایک ضد میں رہتے ہیں
مجھے پہم یہ کہتے ہیں
محبت یوں نہیں اچھی
محبت یوں نہیں اچھی ۔۔۔