نصیر ترابی صاحب سے ہماری ایک بہت دیرینہ دوست سے رشتہ داری تھی اور ہماری پہلی ملاقات انہی کے گھر پر محرم کی مجلس میں ہوئی اور پھر یہ سلسلہ خاصا طویل رہا نہ ہم نے کبھی سوچا کہ یہ بڑے شاعر نہ اُِنھوں نے سوچا کہ ہم کون اور کیا ۔۔۔نصیر ترابی کے لئے اعزاز کی پہلی سند ہی یہ تھی کہ وہ علامہ رشید ترابی کے صاحبزادے تھے۔ علامہ رشید ترابی کا کیا کہنے ،وہ تو علم و دانش کے بلند مینار ۔پر لوگوں جو اُنکا ہوَا بیٹھا تھا وہ بالکل ایسے نہ تھے۔۔۔ہمارا زمانہ طالبعلمی وہ دور جب کوئی کسی سے مرعوب نہ ہوتا ۔۔۔کوئی اچھا لگتا ہے تو اُسکی وجہ اُسکی قابلیت قطعی طور پر نہ ہوتی ۔۔۔۔پھر ایک لمبا عرصہ
بالکل ملاقات نہ رہی ہم غم َ روزگار سے نبرد آزما اور سلسلہ منقطع ہوا —-ایک دن ستمبر 1999 ہم جب ایم بی اے کی کلاس اٹینڈ کر رہے تو حاضری کے دوران ایک نام پکارا گیا دانش ترابی پیچھے مڑ کر دیکھا تو ہمارے کلاس فیلو تھے ایچ آر کی کلاس میں نصیر صاحب کے بیٹے جنھیں ہم نے بہت چھوٹا دیکھا تھا ۔۔۔۔کلاس کے بعد تصدیق ہوئی کے یہ نصیر صاحب کے بیٹے ہیں۔۔۔پھر بات ہوئی اور دانش نے اپنے ابا کو جاکر بتا تو نہ صرف یہ کہ اتنے عرصے بعد اُنھوں پہچان لیا بلکہ اصرار کیا کے اُن سے ضرور ملاقات کریں پھر وہی ہماری آخری ملاقات تھی جو دانش اُنکے بیٹے کے ساتھ ہوئئ وہ بڑے شاعر ہی نہں ایک بڑے انسان بھی تھے نصیر صاحب کو یاد کرنا ،پھر ان کے بار ے میں لکھنا، میرے لئے اتنا آسان نہیں ۔۔۔۔۔۔وہ بولتے تو کسی اور کو بولنے کی مجال ہوتی ۔۔۔۔۔اللّہ سے دعا ہے کہ وہ اُنکو اپنے جوارِ رحمت مین اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین
آپ کا مزاج لطیف اور طبیعت حساس ہے. آپ درحقیقت خود بڑی ہیں، اس لیے انسان بڑے سارے لگتے ہیں ... یہ درونِ کی بات ہے، جو عیاں ہورہی ہے
"زندگی خاک نہ تھی خاک اڑا کے گزری
تجھ سے کیا کہتے، تیرے پاس جو آتے گزری
دن جو گزرا تو کسی یاد کی رَو میں گزرا
شام آئی، تو کوئی خواب دکھا تے گزری
اچھے وقتوں کی تمنا میں رہی عمرِ رواں
وقت ایساتھا کہ بس ناز اُٹھاتے گزری
زندگی جس کے مقدر میں ہو خوشیاں تیری
اُس کو آتا ہے نبھانا، سو نبھاتے گزری
زندگی نام اُدھر ہے، کسی سرشاری کا
اور اِدھر دُور سے اک آس لگاتے گزری
رات کیا آئی کہ تنہائی کی سرگوشی میں
ہُو کا عالم تھا، مگر سُنتے سناتے گزری
یہ غزل نصیر ترابی کی ہے اور ایک غزل ہی ان کے تعارف کو کافی ہے. آپ کی ادب کے سلسلے میں بالخصوص ان کے فن کو لے کے کوئی بات ہُوئی؟