محترمہ نور سعدیہ شیخ صاحبہ کے ساتھ ایک مصاحبہ!

ساحلِ سمندر پرنو تعمیر شدہ بندرگاہ اور اس کے دامن سے ٹِکاکروز جہاز۔۔۔ جسے اردو محفل کی اس مصاحبہ کمیٹی کی خصوصی درخواست پر انگلستان سے بلوایا گیا ہے۔
بحری جہاز کے بالائی تختے پرسجی منقش سٹیج جس پرسیاہی مائل سرخ رنگ کمخواب کو اس سنجیدگی بچھایا گیا ہے کہ یہ اپنے آخری کناروں پر سمندر ی لہروں کی طرح ابھرتا ڈوبتا دکھائی دیتا ہے ۔
اس ازلی بے خواب، کمخوا ب پرچار گاو تکیے سلیقے سے رکھے ہیں جن سے ذرا فاصلے پر بن تار ننھے سفید مائیک اور ان مائیکوں کے پہلووںمیں سونف جس کے ساتھ الائچی کے چاک جگر سے نکلے بیج نما دانوں کے دو قالب یک جان ہوتے آمیزے کی طشتریاں رکھی ہیں۔
اسٹیج سے ذرا فاصلے پر ترتیب صعودی کے تحت گول قطاروں میں سجی نشستیں ،جن کی جانب ہمارے پیارے محفلین جوق در جوق بڑھے چلے آرہے ہیں کہ کچھ ہی دیر میں یہ جہاز سمندر کی بے تاب لہروں کی جانب بڑھا چاہتا ہے۔۔۔ان کی بے تابی کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہر نشست کے سامنے ”جو چاہے لیجیے “کے کلیے کے تحت سیگریٹ، سگار، گلوریوں اور مختلف چاکلیٹ و وافر جوسز کا اہتمام کیا گیا ہے تا کہ ہمارے مہمانِ مصاحبہ کی گفتگو سے بھی لطف اندوز ہوتے رہیں اور ساتھ ساتھ اس نعمتِ خداوندی سے بھی۔
اچانک ساحلِ سمندر پر شور مچاتی لہروں کے ساتھ ایک اور شور بلند ہوا ہے۔۔۔اور یہ شور ہے جنابہ نورسعدیہ صاحبہ یعنی ہماری آج کی مہمانِ مصاحبہ کی آمد کا ۔۔۔
جن کے انتظار میں عدنان بھائی تین جوس پیک پی چکے ہیں۔اس شور کے ساتھ ہی سمندر میں ہلکا سا تلاطم پیدا ہوا ہے اور لہروں نے ساحل سے سر پٹک کرجنابہ کا پر شکوہ استقبال کیا ہے۔ پینل کمیٹی جلدی جلدی اپنا مائیک سنبھالنے لگی ہے ، سب حاضرین کے چہروں پر مسرت کا اظہار ہے اور اس سے پہلے کہ کوئی اور مہمانِ خصوصی کا تعارف کرائے ما بدولت نے جلدی سے مائیک سنبھال لیا ہے۔۔۔
تو سامعین و حاضرین ! انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور ہمارے درمیان آج ہماری اردو محفل کی وہ ہستی آ موجود ہوئی ہیں جو پسِ علم و حلم ، خلوص و صداقت اور مہر و محبت کا مجموعہ ہیں۔ ویسے تو کہا جاتا ہے وجودِ زن سے کائنات میں رنگ ہے لیکن اس مقولے کا اطلاق اردو محفل پر کیا جائے تو اس کے بے شمار رنگوں میں بڑا واضح اور خوشنما رنگ بکھیرنے میں جنابہ کا بہت ہاتھ ہے۔ کہیں یہ لوگوں کے ساتھ مصاحبے میں مصروف نظر آتی ہیں، کہیں ہنسی کی پھلجھڑیاں بکھیرتی ہیں اور کہیں اپنی وجدانی تحاریر سے شگوفے چھوڑتے ہیں۔۔۔آپ سب کی خصوصی توجہ اور تائید کے ساتھ ہم انھیں سوال و جواب کے کٹہرے میں کھینچ لائے ہیں تاکہ ہمیں آپ جنابہ کے افکار سے بھی شناسائی ہو اور آپ کی زندگی کے تجربات کے حوالے سے کچھ اصلاحی پہلو بھی مدنظر رہیں ۔
تو آپ سب کی بھر پورتالیوں کی گونج میں تشریف لاتی ہیں محترمہ نورسعدیہ صاحبہ ۔۔۔۔۔!

واہ واہ ! کیا جاندار استقبالیہ ہے ! یہ ہے آپ کی تخلیقی صلاحیتیں ! آپ نے ابھی تک جتنے بھی انٹروز کے ابتدا کی ہے بہت خوب کی ہے ، آپ کے پاس تخییل کی دولت ہے :) مجھے بہت اچھا لگا یہ سب پڑھ کے اسلیے سرگوشی کردی چپکے چپکے :)
جی بہت شکریہ جزاک اللہ۔ مصاحبے کا قبل از وقت آغاز کردیا گیا اس لیے یہ لفظ بے توقیر ہوئے بہرحال آپ کے لیے تھے اور آپ تک پہنچے۔۔۔اس کی خوشی ہے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
جی بہت شکریہ جزاک اللہ۔ مصاحبے کا قبل از وقت آغاز کردیا گیا اس لیے یہ لفظ بے توقیر ہوئے بہرحال آپ کے لیے تھے اور آپ تک پہنچے۔۔۔اس کی خوشی ہے۔
بحوالہ ابتدائیہ کی تدوین :اگر یہ بے توقیر ہوتے تو اس وقت اس لڑی میں موجود نہ ہوتے ۔ مجھے تو آپ کی صلاحیتوں کا اب پتا چلا ہے:)
 
آخری تدوین:
واہ واہ ! کیا جاندار استقبالیہ ہے !
اس لیے یہ لفظ بے توقیر ہوئے

یہ الفاظ بے توقیر نہیں ہوئے محمد خرم یاسین بھائی! اور نہ ہی ہمارے ہوتے ہوئے ہو سکتے ہیں!! یہ دیکھئیے اپنی اصل جگہ پر ہیں! ::in-love:
 

نور وجدان

لائبریرین
16) آپ کی پسندیدہ فلم، کتاب، شعر، ڈرامہ ، کھیل، رنگ؟

فلم : انسیپشن ، بلڈ دائمنڈ ، پُش
کتاب: قران پاک
شعر: شہِ کونین کے عاشق حضوری میں رہے اکثر
نگاہ یار کے طالب تجلی میں رہے اکثر


دمِ رقص محوّیت جو بسمل کی بڑھتی تھی
بکھرتی رہیں جو کرِچیاں تھیں وُجود کی


مثال دوں بھی تو کیا دوں کہ جب ارسطو نے
کسی بھی طور فلاطوں کو حوصلہ نہ دیا

ڈارمہ: دیارِ دل ، آج کل پُکار ، سنگ مرمر کا دل وغیرہ
رنگ: نیلا
 
اردو محفل کو ابھی فیس بک جیسا مقام حاصل کرنے میں بہت دیر لگے گی کیونکہ فیس بک یا دیگر سائٹس نے افرادی قوت کو اس قدر مضبوط کردیا ہے کہ مارک کے سر پر چڑھ دوڑیں ،مثال ہے بس
ویسے ہمارے لیے تو اردو محفل فیس بک سے بھی بڑھ کر ہے. ایک سال ہوگیا ہے مجھے فیس بک چھوڑے ہوئے (جب سے ایم فل شروع کیا ہے) اور فیس بک کے علاوہ کہیں ایکٹو تھی نہیں کبھی لیکن محفل نہیں چھوٹ سکتی جب کہ گھر پہ اماں تو اماں، ہاسٹل میں روم میٹ بھی تنگ سی آگئی ہے کہ جب دیکھو فون یا لیپ ٹاپ استعمال ہو رہا ہے تو محفل استعمال ہو رہی ہوتی ہے. (n)
 
مستقبل میں آپ کو کسی اہم شعبے کی نظامت دی جاسکتی ہے تاکہ محفل میں کچھ تخلیقی کام ہوجائے کیونکہ آپ کی سبھی محفلین بہت مانتے ہیں اور آپ سے بہت پیار کرتے ہیں ، آپ کے بہانے سید عمران بھی تحاریر لکھا کریں گے کیونکہ وہ محفل پر موجود رہا کریں گے :) شاید باقی محفلین بھی آپ کے پیار ، روادرای خلوص کی قدر کرتے آپ کے گرد شہد کی مکھیوں کی طرح جمع ہوجائیں :)

میرا کردار اتنا ہی ہوسکتا ہے جتنا میں دیتی ہوں ، کوشش یہ کرسکتی ہوں کہ اپنی اردو کو بہتر کروں :) تاکہ محفل پر املاء کی اغلاط سے پاک اردو موجور رہے :) اردو محفل کو ابھی فیس بک جیسا مقام حاصل کرنے میں بہت دیر لگے گی کیونکہ فیس بک یا دیگر سائٹس نے افرادی قوت کو اس قدر مضبوط کردیا ہے کہ مارک کے سر پر چڑھ دوڑیں ،مثال ہے بس :) وہ سائبر دنیا کے کسی جرم سے میں پڑجائیں ، اسکے ایڈمن کو پروا نہیں ہے کیونکہ ایک اچھا بزنس چل رہا ہے یا پھر اس پر مذہبی مواد کی اشتعال انگیزی کو پھیلانے کے استعمال کیا جارہا ہے یا بہت سے ایسے متنازعہ مسائل جیسے پرائیویسی ایشو پر تو مارک کو عدالتِ عالیہ میں جوابدہ ہونا پڑا ہے ، اردو محفل کی نظامت ابھی اس لامحدود آزادی کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی ہے ، اس لیے اس سلسلے میں انتظامیہ کی جانب سے ہی اقدامات اسکے فروغ کا باعث ہوسکتے ہیں
آپ کے پرُ خلوص جذبات کا شکریہ بہن ۔
نظامت ایک بہت بڑا عہدہ ہوتاہے جس کا میں اہل نہیں۔محفلین کی محبت میرے لیے باعث صد احترام ہے ۔اغلاط پر تو ہم بھی قابو پانے کی ناکام کاشش کرتے رہتے ہیں ۔
آپ نے مستقبل کے حوالے سے جو اردو محفل کا مقابلہ فیس بک سے کیا ہے تو ہمیں آپ کی اس رائے سے اختلاف ہے ۔میں تو قطعی طور پر ایسا نہیں چاہوں گا کہ محفل کا انداز فیس بک جیسا ہو جائے ۔
 
زندگی میں آفاقیت درونِ ذات کی سیر سے حاصل کی جاسکتی ہے ، اگر میرا عکس مثال کے طور پر "عقاب" ہے تو اس سیر میں مجھے عقاب نظر بھی آجائے گا اور مجھے طریقے بھی مل جائیں گے خارج میں کیسے عامل ہونا ہے اور خارج ہی مجھے بتادے گا کہ میں عقاب ہوں ۔ اگر میرا عکس لومڑی کے یا شیر کے جیسا ہے تو وہ بھی بالکل اسی طرح مجھے بنادے گا ۔ ہر انسان کی اپنی ایک صلاحیت ہے جو اسکو ملی ہے جب انسان اس صلاحیت کا سراغ لگالیتا ہے تو وہ اپنی ذات کی شناخت کرلیتا ہے ، روحانی ہو یا دنیوی کامیابی دونوں میں ذات کی شناخت اہم ہے اور ذات کی شناخت کے بنا کوئی بھی شخص کامیاب نہیں ہوا ہے اور جن جن کو ذات کی شناخت ہوئی ہے انہوں نے اس پر اس قدر یقین کرلیا کہ گویا وہ ایسے بن گئے ۔ دنیا میں جتنے بھی مفکر ، سائنس دان ، ولی اللہ ، فاتح یا دیگر گزرے ہیں انہوں نے "نام "اسی رسائی سے حاصل کیا ہے ۔
یعنی آپ کے نزدیک کامیابی خارج سے داخل کی کیفیت میں مضمر ہے؟ یا یہ عکس داخل سے خارج کی جانب ہے۔ اگر داخل سے خارج میں ہے تو خارج کا بیان جو عکسی ہے وہ کیسے آفاقی ہوگا ؟ دوم یہ کہ کیا یہ آفاقیت محض شخصی تک محدود ہوگی یا واقعی آفاقی اقدار کو بھی چھوئے گی ؟
 
زندگی میں آفاقیت درونِ ذات کی سیر سے حاصل کی جاسکتی ہے ، اگر میرا عکس مثال کے طور پر "عقاب" ہے تو اس سیر میں مجھے عقاب نظر بھی آجائے گا اور مجھے طریقے بھی مل جائیں گے خارج میں کیسے عامل ہونا ہے اور خارج ہی مجھے بتادے گا کہ میں عقاب ہوں ۔ اگر میرا عکس لومڑی کے یا شیر کے جیسا ہے تو وہ بھی بالکل اسی طرح مجھے بنادے گا ۔ ہر انسان کی اپنی ایک صلاحیت ہے جو اسکو ملی ہے جب انسان اس صلاحیت کا سراغ لگالیتا ہے تو وہ اپنی ذات کی شناخت کرلیتا ہے ، روحانی ہو یا دنیوی کامیابی دونوں میں ذات کی شناخت اہم ہے اور ذات کی شناخت کے بنا کوئی بھی شخص کامیاب نہیں ہوا ہے اور جن جن کو ذات کی شناخت ہوئی ہے انہوں نے اس پر اس قدر یقین کرلیا کہ گویا وہ ایسے بن گئے ۔ دنیا میں جتنے بھی مفکر ، سائنس دان ، ولی اللہ ، فاتح یا دیگر گزرے ہیں انہوں نے "نام "اسی رسائی سے حاصل کیا ہے ۔
آپ کے نزدیک آفاقیت کا مفہوم کیا ہے ؟
 

نور وجدان

لائبریرین
ویسے ہمارے لیے تو اردو محفل فیس بک سے بھی بڑھ کر ہے. ایک سال ہوگیا ہے مجھے فیس بک چھوڑے ہوئے (جب سے ایم فل شروع کیا ہے) اور فیس بک کے علاوہ کہیں ایکٹو تھی نہیں کبھی لیکن محفل نہیں چھوٹ سکتی جب کہ گھر پہ اماں تو اماں، ہاسٹل میں روم میٹ بھی تنگ سی آگئی ہے کہ جب دیکھو فون یا لیپ ٹاپ استعمال ہو رہا ہے تو محفل استعمال ہو رہی ہوتی ہے. (n)

آپ کے پرُ خلوص جذبات کا شکریہ بہن ۔
نظامت ایک بہت بڑا عہدہ ہوتاہے جس کا میں اہل نہیں۔محفلین کی محبت میرے لیے باعث صد احترام ہے ۔اغلاط پر تو ہم بھی قابو پانے کی ناکام کاشش کرتے رہتے ہیں ۔
آپ نے مستقبل کے حوالے سے جو اردو محفل کا مقابلہ فیس بک سے کیا ہے تو ہمیں آپ کی اس رائے سے اختلاف ہے ۔میں تو قطعی طور پر ایسا نہیں چاہوں گا کہ محفل کا انداز فیس بک جیسا ہو جائے ۔

میں نے فیس بک بنانے کی بات نہیں کی بلکہ اس کی پالیسز سے پیدا ہونے والی خامیاں گنوائیں اور یہ تو کہا ہی نہیں محفل کو فیس بک بنائیں. موازنہ کبھی بھی کسی بات کو لاگو کرنے کے لیے نہیں کیا جاتا
 

نور وجدان

لائبریرین
یعنی آپ کے نزدیک کامیابی خارج سے داخل کی کیفیت میں مضمر ہے؟ یا یہ عکس داخل سے خارج کی جانب ہے۔ اگر داخل سے خارج میں ہے تو خارج کا بیان جو عکسی ہے وہ کیسے آفاقی ہوگا ؟ دوم یہ کہ کیا یہ آفاقیت محض شخصی تک محدود ہوگی یا واقعی آفاقی اقدار کو بھی چھوئے گی ؟

آپ کے نزدیک آفاقیت کا مفہوم کیا ہے ؟

آفاقیت سے مراد عالمگیریت ہے. سب سے عالی، سب سے بُلند ہستی اللہ ہے. اس کی صفات جابجا پھیلی ہوئی ہیں ... کسی چیز، انسان، ہستی میں اک صفت، کسی میں دو ایک سے زائد صفات موجود ہیں مگر حضورِ پاک ص میں تمام صفات موجود ہیں ... آپ کی فطرت صادق و امین ہونا تھی. آپ نے بچپن ہی سے ان صفات کی پہچان کرلی تھی. اس لیے زبانِ خلق(خارج ) نے آپ کو صادق و امین کہنا شروع کردیا تو گویا
آپ کی فطرت، درون میں جو صلاحیتیں موجود تھیں آپ ص نے ان پر عمل کرتے آفاقیت حاصل کرلی اور خالق سے انہی صلاحیتوں کی پہچان کرتے، عمل کرتے ربط بنالیا ... جب ظاہر اور باطن یکساں ہوجاتا ہے تو پھر گواہی دی جاتی ہے ... جیسے تمام انبیاء پاک نے اللہ کے ہونے کی گواہی دی ... اور احسن خلق کی صورت میں جب زمانے نے ان کو پایا تو انہوں نے انبیاء کی گواہی دے دی. زمانہ سچ کو سچ اور جھوٹ جھوٹ کہتا ہے.


آفاقیت شخصی نہیں ہوگی ورنہ آفاقیت نہیں ہوگی. آفاقیت میں ہر چیز کا منبع صرف ذات باری تعالی ہی. .... بدھا نے درون تک مکمل رسائی حاصل کی ہوتی تو ویرانے میں بیٹھے کلمہ پڑھ لیتا، ہاں اس نے درون تک رسائی حاصل ضرور کی ہے ... ہندوؤں کی مذہبی کتب الہامی نہیں مگر ان میں حضور پاک ص کی آمد کا ذکر موجود ہے، ان کے بارے میں پیشن گوئیاں بھی ہیں کہ آپ ص کے اوصاف ایسے ایسے ہوں گے ... کوئی شخص درون ذات کس حد تک رسائی حاصل کرتا ہے یہ منحصر کرتا ہے پرسن ٹو پرسن
 
آفاقیت سے مراد عالمگیریت ہے. سب سے عالی، سب سے بُلند ہستی اللہ ہے. اس کی صفات جابجا پھیلی ہوئی ہیں ... کسی چیز، انسان، ہستی میں اک صفت، کسی میں دو ایک سے زائد صفات موجود ہیں مگر حضورِ پاک ص میں تمام صفات موجود ہیں ... آپ کی فطرت صادق و امین ہونا تھی. آپ نے بچپن ہی سے ان صفات کی پہچان کرلی تھی. اس لیے زبانِ خلق(خارج ) نے آپ کو صادق و امین کہنا شروع کردیا تو گویا
آپ کی فطرت، درون میں جو صلاحیتیں موجود تھیں آپ ص نے ان پر عمل کرتے آفاقیت حاصل کرلی اور خالق سے انہی صلاحیتوں کی پہچان کرتے، عمل کرتے ربط بنالیا ... جب ظاہر اور باطن یکساں ہوجاتا ہے تو پھر گواہی دی جاتی ہے ... جیسے تمام انبیاء پاک نے اللہ کے ہونے کی گواہی دی ... اور احسن خلق کی صورت میں جب زمانے نے ان کو پایا تو انہوں نے انبیاء کی گواہی دے دی. زمانہ سچ کو سچ اور جھوٹ جھوٹ کہتا ہے.


آفاقیت شخصی نہیں ہوگی ورنہ آفاقیت نہیں ہوگی. آفاقیت میں ہر چیز کا منبع صرف ذات باری تعالی ہی. .... بدھا نے درون تک مکمل رسائی حاصل کی ہوتی تو ویرانے میں بیٹھے کلمہ پڑھ لیتا، ہاں اس نے درون تک رسائی حاصل ضرور کی ہے ... ہندوؤں کی مذہبی کتب الہامی نہیں مگر ان میں حضور پاک ص کی آمد کا ذکر موجود ہے، ان کے بارے میں پیشن گوئیاں بھی ہیں کہ آپ ص کے اوصاف ایسے ایسے ہوں گے ... کوئی شخص درون ذات کس حد تک رسائی حاصل کرتا ہے یہ منحصر کرتا ہے پرسن ٹو پرسن
آفاقیت سے مراد عالمگیریت ہے. سب سے عالی، سب سے بُلند ہستی اللہ ہے. اس کی صفات جابجا پھیلی ہوئی ہیں ... کسی چیز، انسان، ہستی میں اک صفت، کسی میں دو ایک سے زائد صفات موجود ہیں مگر حضورِ پاک ص میں تمام صفات موجود ہیں ... آپ کی فطرت صادق و امین ہونا تھی. آپ نے بچپن ہی سے ان صفات کی پہچان کرلی تھی. اس لیے زبانِ خلق(خارج ) نے آپ کو صادق و امین کہنا شروع کردیا تو گویا
آپ کی فطرت، درون میں جو صلاحیتیں موجود تھیں آپ ص نے ان پر عمل کرتے آفاقیت حاصل کرلی اور خالق سے انہی صلاحیتوں کی پہچان کرتے، عمل کرتے ربط بنالیا ... جب ظاہر اور باطن یکساں ہوجاتا ہے تو پھر گواہی دی جاتی ہے ... جیسے تمام انبیاء پاک نے اللہ کے ہونے کی گواہی دی ... اور احسن خلق کی صورت میں جب زمانے نے ان کو پایا تو انہوں نے انبیاء کی گواہی دے دی. زمانہ سچ کو سچ اور جھوٹ جھوٹ کہتا ہے.


آفاقیت شخصی نہیں ہوگی ورنہ آفاقیت نہیں ہوگی. آفاقیت میں ہر چیز کا منبع صرف ذات باری تعالی ہی. .... بدھا نے درون تک مکمل رسائی حاصل کی ہوتی تو ویرانے میں بیٹھے کلمہ پڑھ لیتا، ہاں اس نے درون تک رسائی حاصل ضرور کی ہے ... ہندوؤں کی مذہبی کتب الہامی نہیں مگر ان میں حضور پاک ص کی آمد کا ذکر موجود ہے، ان کے بارے میں پیشن گوئیاں بھی ہیں کہ آپ ص کے اوصاف ایسے ایسے ہوں گے ... کوئی شخص درون ذات کس حد تک رسائی حاصل کرتا ہے یہ منحصر کرتا ہے پرسن ٹو پرسن


چونکہ یہ مصاحبہ ہے اس لیے میں اسی زمرے میں ایک دو سوال کرنا چاہتا ہوں اگر آپ کو برا نہ لگے تو اور اگر لگے تو قبل از وقت معذرت۔۔۔
پہلا سوال یہ کہ اشخاص معاشرہ، پھر قوم اور پھر اقوامِ عالم کی تشکیل کرتے ہیں، عموماً آفاقیت ایسی خصوصیات کو کہا جاتا ہے جو دنیا بھر میں قابلِ قبول ہوں جیسے سچ بولنا، جھوٹ سے پرہیز وغیرہ۔۔۔میرا خیال ہے کہ سوال اسی ضمن میں ہے ۔ویسے یہ باقاعدہ اردو شاعری کی اصطلاح بھی ہے اس ضمن میں آپ آفاقیت کے بارے میں کیا کہنا چاہیں گی ؟
دوسرا سوال یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جو کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیمبر بھیجے ہوسکتا ہے کہ ہندومت مذہب جو اب ہمارے مطابق انتہائی تحریفات کی وجہ سے محض شرک اور کفر ہی رہ گیا ہے ، اس کے بانی بھی انھیں میں سے ایک ہوں اور اسی سبب یہ پیش گوئیاں موجود ہوں ؟ اس بارے میں کیا خیال ہے ؟ اور اگر یہ ممکنات میں سے ہے تو ہم کس طرح بدھا کی روحانی حدود و قیود کا ادراک کرسکتے ہیں ؟
تیسرا سوال یہ کہ آپ کے بقول اللہ تعالیٰ کی صفات جا بجا ہیں اور یہ کسی میں ایک اور کسی میں دو ہوتی ہیں لیکن نبی کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم میں مکمل موجود ہیں تو کیا اس کا مطلب یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کل صفات نبی کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آموجود ہوئیں ؟ کیا اس طرح خالق و مخلوق کا ایک ہی ماننا لازم نہیں آئے گا؟
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
17)پری سکول، سکول، کالج، یونیورسٹی، پوسٹ یونیورسٹی۔ ان میں سے کون سا دور سب سے اچھا تھا اور کیوں؟

ایم اے.. جہاں تک کالج اور یونیورسٹی کی بات ہے اس سے دور رہی ہوں. میں نے پارٹ ایف ایس سی ٹیچنگ کی جاب کا باقاعدہ آغاز کیا تھس اور باقی سب تعلیم as a private student کے طور پوری کرتی رہی ہوں ... اچھے سارے ادوار ہوتے ہیں، ایم اے کا دور اس لیے پسند ہے کہ میں نے اک استاد کو استاد کے روپ میں دیکھا اور پایا تھا جبکہ اس سے پہلے میں پروفیشنلز سے بات چیت میں رہی ہوں.
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
18) کیا لکھنا یا لکھنے کا تصور ہی آپ کو تھکا دیتا ہے یا یہ عمل اور تصور آپ کے لیے تپتی دوپہر میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ثابت ہوتا ہے؟
لکھنے کا عمل خوشگوار ہوتا ہے اور یہ تھکاتا نہیں ہے. یہ وہ عمل ہے کہ جو بھوک، پیاس سے بھی بے نیاز کرسکتا ہے
 

نور وجدان

لائبریرین
19) آپ نے اپنے موجودہ تعلیمی شعبے کا انتخاب ہی کیوں کیا؟
جو انتخاب میں نے کیے، جو فیصلے میں نے کیے وہ وقت کی دھول ہوگئے اور جو فیصلے اُس ذات نے کیے وہ سب پورے ہوگئے. موجودہ تعلیمی شعبہ وقت اور حالات کا تقاضہ تھا. بی اے میں میتھس اور اکنامکس میرے مضامین تھے. میتھس کے لیے بمشکل وقت نکال کے پڑھا تھا اور باقی کسی بھی مضمون کو بی اے میں پڑھ نہ سکی اور پیپر سے ایک دن پہلے تمام بکس پڑھ کے پیپر دے کے آئی تھی. میتھس کے علاوہ سب کا زرلٹ اچھا تھا. اس بات نے مجھے بس یہی سوچنے پر مجبور کردیا میں بنا پڑھے ہی کامیاب ہوسکتی ہوں، محنت کا فائدہ نہیں اور نہ ہی وقت کیونکہ میں صبح جاب کرتے، کچھ ٹیوشنز لیتے کافی تھک جایا کرتی تھی. اس لیے اس کا انتخاب آسانی کے لیے کیا تھا مگر یہ سبجیکٹ میری زندگی میں انقلاب لے آیا.
 
آخری تدوین:
Top