محترم اشفاق احمد اور فیض احمد فیض بارے کہا جاتا ہے کہ
کہ ان کے سوچ و افکار آپس میں " لازم و ملزوم " کا درجہ رکھتے ہیں ۔
آپ کس حد تک اس بارے متفق ہیں ۔ اور کیوں ؟
فیض صاحب کے بارے کچھ انکشاف تو اشفاق احمد نے اُن کے بارے میں ملامتی صوفی کے عنوان سے دیباچہ لکھ کر کیا تھا
ان کی باہم سوچ کے دھارے یکساں ہونے کے باوجود قاری کے سامنے بڑے الگ رنگ اور اسلوب میں سامنے آتے ہیں
فیض صاحب نے حق وصداقت کا پرچم بلند کیا اور حق گوئی میں اشفاق احمد بھی صف اول میں نظرآتے ہیں ایک اگر نظریہ تو دوسرا
اس کی ترویج ، ایک استعارہ تو دوسرا کھلا اشارہ-
محترم اشفاق احمد صاحب کی تحاریر بارے اگر یہ کہا جائے کہ صرف " لفاظی " ہے تو اس کا دفاع کن الفاظ میں کریں گے ۔؟
اگر اشفاق تحریر کو سرسری سا پڑھا جائے اُس کی گہرائی اورگیرائی کو سمجھنے کی استطاعت نہ ہو تو اسے پڑھنے والے
کی بدقسمتی ہی کہا جاسکتا ہے کہ اُسے سورج کی روشنی نظر نہیں آتی محض تپش کو سورج کی علامت سمجھتا ہے
اشفاق احمد الفاظ پر خوب دسترس رکھتے ہیں اور جزئیات کو پیش کرنے میں کمال کی ماہرت رکھتے ہیں اسے کوئی
لفاظی جانے تو کم نظری ہی کہوں گا-
محترم اشفاق احمد صاحب کی " گڈریا " میں گڈریا کون ہے ؟ اور اس تحریر میں گڈریا کن اوصاف سے متصف ہونا لازم قرار پاتا ہے ؟
اشفاق احمد صاحب نے اس تحریر سے کس پیغام کو عام کرنے کی سعی کی ہے ۔ ؟
گڈریا اپنے ریوڑکا نگہبان بھی ہوتا ہے اور اس کو راہ دکھانے اور راہ پرڈالنے والا بھی، وہ راہ کا تعین اور سراغ منزل کو جانتا ہے پہچانتا ہے
ریوڑکو آگے بڑھنے کا حوصلہ بھی دیتا ہے اس کی مشکلات کو بھی سمجھتا اور ان کو دور بھی کرتا ہے - مسیحائی کا وصف بھی رکھتا ہے
تواپنے گروہ کے لیے جذبہءایثاربھی- کمزوروں کا حامی ومدگارجو اُن کو مشکل راہوں پر آسانیاں فراہم کرتا ہے ،ہمت وحوصلہ دیتا ہے
اشفاق احمد نے گڈریا میں ہادی ، رہنما کی مرشد کی اُستاد کی اہمیت کو اُجاگر بھی کیا اور اس کی ہرفرد کے لیے اس کی ضرورت کو جتا دیا ہے کہ
اس کے بناء انسان بے راہ ہوجائے گا، اس کے بتائےاصولوں سے انحراف بھٹکا دے گا - اشفاق احمد کا یہ پیغام ایک عام آدمی سے لے کر
تصوف کے طالب علم تک کو بڑے واضح الفاظ میں سنائی دیتا ہے-
" زاویہ " یہ زاویہ کیا ہے ۔ اور کس کی نظر اس زاویے پر سدا مرکوز رہتی ہے ۔ ؟
زاویہ اس باطنی نظر رکھنے والے کا بیان اور نقطہءنظر ہے جو بہت سی سمتوں سے واقف ہے، اسے مجاز میں حقیٖقت
کے جلوے نظرآتے ہیں تو اُن کو بیان کرتا جاتا ہے آواز دے دیتا ہے- اس زاویے کواہمت کو اُجاگر کیا ہے جو حق ہے جس سے
سارے نظام کو قیام ہے جس سے آدمیت کو معراج عطا ہوتی ہے
محترم اشفاق احمد کی تحاریر کا مطالعہ کرتے ہوئے کبھی آپ کو یہ محسوس ہوا کہ ان تحاریر میں اس سچے پیغام کو عام زبان میں بیان کیا جا رہا ہے جسے اسلام کی بنیاد قرار دیا گیا ہے ۔ ؟
بابا کا ایک وصف سادگی ہے عام آدمی کی زبان میں گفتگو ہے جس پڑھ کر کسی فلسفی کے نظریات کا گمان نہیں ہوتا بلکہ زندگی کے روزمرہ
معاملات میں راہنمائی ملتی ہے ، عزت نفس کا درس ملتا ہے، اخلاق کی تعمیر ہوتی ہے دین اسلام کی ترویج ہوتی ہے بناء مبلغ کا رُعب اپنائے
کسی چچا یا ماموں کی سی شفقت کے ساتھ سرپر ہاتھ پھیر کر سمجھاتی ہوئی آواز جو اپنائیت ہی اپنائیت ہو جو اجنبی لہجہ بن کر ڈارتی نہیں
اسلام کا پیغام جس قدرسادہ ہے اور زندگی کے اُمور سے متعلق ہے جس میں دین بھی اور دنیا بھی تحفظ بھی ہے اور اپنائیت بھی جو
ہاتھ تھام کر اخلاق کا درس دیتا ہے مسکراہٹ کو صدقہ کہتا ہے محبت کی نظرسے والدین کو دیکھ لینا عبادت کہتا ہے اس سادہ سبق
کو بابا نے اپنایا اور سنایا
جب مریدوں کی تعداد اوراضافے کی خواہش ہو تو توجہ کا ارتکاز (کم ) ہوجاتا ہے - نمود کا بھیڑ محفل میں گھس کر بھنبھنانے لگتا ہے -؟
یہ ارتکاز مرید سے نسبت رکھتا ہے کہ شیخ سے ؟
مردید کی لیے مجمع ہوتا ہے ساتھ چلنے والوں کا اُس کی راہ میں تعداد روکاٹ نہیں ڈالتی مگر تعداد میں اضافے کے خواہش مند شیخ کے لیے نمود ونمائش کا پھندا جس میں پھنس کر وہ توجہ سے محروم ہوجاتاہے- رہنما اگر اسی فکر میں رہے کہ تعداد بڑھ رہی ہے تو زبان پرہندسے
ہوں گے ذکر نہیں -