آپ کے گھر پر اردو ادب میں دلچسپی کس کس کو ہے؟
پہلے تو ہم سمجھتے تھے کہ ہم ہی ہم ہیں۔۔۔
کیوں کہ بچپن سے ہی ہر وقت کتاب آنکھوں کے سامنے رہتی تھی۔۔۔
چھوٹی چھوٹی کہانیوں کی کتابیں، پھر نسبتاً بڑے سائز کے رسالے۔۔۔
اس وقت بچوں کے ماہانہ جتنے رسالے چھپتے تھے تقریباً سب ہمارے گھر آتے تھے۔۔۔
پھر طلسم ہوشربا پڑھی تو بار بار پڑھتے، آج بھی اس کی فینٹسی کا مزہ دل میں ہے۔۔۔
لیکن جب میڑک کیا تو والد صاحب نے بانگ درا لاکر دی اور کہا کہ کچھ شاعری بھی پڑھو،
دیکھو اقبال نے کتنے اچھے انداز میں فطرت کا حسن بیان کیا ہے۔۔۔
پھر جوش بھرے انداز سے یہ اشعار پڑھے۔۔۔
اے ہمالہ اے فصیلِ کشورِ ہندوستاں
چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں
تجھ میں کچھ پیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشاں
تو جواں ہے گردشِ شام و سحر کے درمیاں
اور۔۔۔
آتی ہے ندی فرازِ کوہ سے گاتی ہوئی
کوثر و تسنیم کی موجوں کو شرماتی ہوئی
آئینہ سا شاہدِ قدرت کو دِکھلاتی ہوئی
سنگِ رہ سے گاہ بچتی گاہ ٹکراتی ہوئی
اشعار میں اور پڑھنے کے انداز میں اتنا ردھم اور ترنم محسوس ہوا کہ ایک ہی دفعہ میں سن کر یاد ہوگئے، پھر نہ جانے کتنا عرصے انہیں دہراتے رہے۔۔۔
یہ زندگی میں شاعری کا پہلا سبق تھا۔۔۔
بعد میں معلوم ہوا کہ والد صاحب خود بہت اچھے شاعر ہیں، بلکہ نوآموز لوگوں کو صلاح بھی دیتے ہیں۔ان کی نثر میں بھی بہت سلاست اور روانی تھی۔آج بھی ان کے خطوط محفوظ ہیں، جب پڑھو لطف آتا ہے، الفاظ پر اتنی گرفت اور تحریر اتنی اچھی گویا کاغذ پر جابجا نگینے ٹنکے ہوئے ہیں۔۔۔
لطف کی بات یہ کہ تحریر تصحیح کے قلم کی کاٹ چھانٹ سے محفوظ ہوتی تھی، یعنی لکھ کر کبھی نہیں کاٹا کہ غلط لفظ یا غلط بات لکھ دی ہے۔ یہی بات ہم نے حکیم سعید صاحب کی تحریر میں دیکھی، جب ہمدرد لائبریری میں ان کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریریں دیکھیں کہ روانی کے ساتھ صفحات کے صفحات لکھے ہوئے ہیں مگر کہیں کاٹ پیٹ کا نشان نہیں، رواں اور صاف ستھری تحریر۔۔۔
گو والد صاحب کی خواہش کے باوجود شعر و شاعری کی طرف طبیعت زیادہ مائل نہ ہوسکی لیکن اتنا ہوا کہ بے زار بھی نہ ہوئی۔۔۔
کوئی اچھےاشعار کہے تو مطلع سے جو نظر پھسلتی ہے تو مقطع پر جاکر ہی سانس لیتی ہے۔۔۔
آج بھی کچھ اشعار ایک دفعہ ہی سن کر یاد ہوجاتے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ خامی بھی ہےکہ بعض اشعار جن کا مضمون اچھا ہوتا ہے باوجود محنت اور کوشش کے یاد نہیں ہوتے۔۔۔
یہ تو حال رہا شاعری کا۔۔۔
اب کرتے ہیں بات نثر کی۔۔۔
ہمارے ایک قریبی کزن عمر میں ہم سے بہت بڑے تھے، ان کی کتابوں کی ایک شیلف تھی، ابھی ہمارا بچپن تھا، جب ہم ان کے گھر جاتے اور شیلف سے نظر آتی کتابوں پر للچائی نظر رکھتے تو عین اسی وقت وہ ہم پر عقابی نظر رکھتے کہ بچے ہماری کتابیں برباد نہ کردیں۔۔۔
ایک مرتبہ ان کے گھر گئے تو وہ موجود نہیں تھے، معلوم ہوا کہ بہت دیر سے آئیں گے، واہ کیا شاندار موقع تھا، جلدی سے شیلف میں سے ایک کتاب نکالی، جس کی رنگین جلد کے باعث ہمیشہ سے اس پر نظر تھی۔ ’’دجلہ‘‘ از شفیق الرحمٰن۔ بس جلدی سے ایک کونہ پکڑا اور جو پڑھنا شروع کیاتو لفظ لفظ اپنے سحر میں جکڑتا گیا۔ آج تک اس سحر سے نہ نکل سکے۔۔۔
گو اس کے بعد بہت سے ادیبوں کو پڑھا جو اچھے بھی لگے مگر شفیق الرحمٰن کے طلسم ہوشربا کا طلسم کوئی نہ توڑ سکا!!!