محترم سید عمران صاحب سے گفتگو

سید عمران

محفلین
محترم سید عمران اپنا انٹرویو جاری رکھیں گوکہ سالگرہ پایہ تکمیل کو پہنچی مگر یہ سلسلہ ابھی نا مکمل ہے
ان شاء اللہ۔۔۔
والدہ کی طبیعت کچھ ناساز چل رہی ہے۔۔۔
اس لیے یہاں آمد کم کم ہے۔۔۔
جیسے ہی افاقہ ہوتا ہے ان شاء اللہ آپ کے کہے پر عمل کرتے ہیں!!!
 

اے خان

محفلین
۱) آپ کا اپنا دماغ اور ۔۔۔
۲) دوسروں کا آپ کو حوصلہ دینا ۔۔۔

۱) جب تک آپ ایسے حاکمِ مطلق نہیں بن جاتے جو دماغ کو کمفرٹ زون سے نکالنے کا سختی سے حکم نہ دے، آپ کچھ نہیں کرسکتے۔۔۔
اگر آپ دماغ کی سستی اور کاہلی والے پیغامات پر عمل کرتے رہے تو یہ آپ کی ہمت کا گراف مسلسل نیچے سے نیچے کی طرف لے جائیں گے۔۔۔
آپ خود کو اپنے دماغ کے کمفرٹ زون سے نکالنے میں کس حد تک کامیاب جارہے ہیں اس کا لٹمس پیپر اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیا ہوا ہے۔۔۔
یہ جو پانچوں وقت کی نماز پڑھی جاتی ہے اس کی کسوٹی پر اپنے آپ کو پرکھ سکتے ہیں کہ آپ کمفرٹ زون سے باہر نکلنے میں کتنا کامیاب ہورہے ہیں۔۔۔
اگر اذان ہوتے ہی آپ ایک دم ایکٹو ہوگئے، جلدی سے نماز کی تیاری مکمل کرلی اور جماعت کھڑی ہونے سے پہلے ہی مسجد میں جاکر بیٹھ گئے تو سمجھیں آپ خود کو دماغ کے کمفرٹ زون سے نکالنے میں کامیاب ہورہے ہیں، وقت آنے سے پہلے اس کی تیاری کی یہ مشق آہستہ آہستہ آپ کی زندگی کے ہر شعبے پر محیط ہوتی چلی جائے گی۔۔۔
یہاں یہ نہ سمجھیں کہ پہلے سے مسجد میں جاکر کیوں بیٹھیں، عین جماعت کھڑی ہونے پر کیوں نہ جائیں؟ تو اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں ہماری بہت مدد کی ہے، ایک روایت یہ ہے کہ جب تک بندہ نماز کے لیے منتظر بیٹھا رہتا ہے تو وہ حالت نماز ہی میں ہے، یعنی اس کو نماز پڑھے بغیر نماز کا ثواب مل رہا ہے، دوسری روایت یہ کہ اذان سے لے کر جماعت کھڑی ہونے تک کا درمیانی وقت دعاؤں کی قبولیت کا ہے۔ آپ کو اس محنت کے صلے میں دو لاجواب تحفے نقد مل رہے ہیں، اگر خاموش بیٹھے ہیں تو نماز کا ثواب مل رہا ہے اور اگر دعائیں بھی مانگنے لگے تو سونے پہ سہاگہ کا کام ہورہا ہے۔۔۔
اس کے برعکس اگر آپ نے اذان پر توجہ دینے کے بجائے گھڑی پر نظر رکھی کہ جب جماعت کا وقت ہوگا اس کے لحاظ سے تیاری کروں گا، پھر بھاگم بھاگ، مارے باندھے نماز پڑھنے گئے، کبھی تکبیر اولیٰ فوت ہوئی تو کبھی رکعات نکلیں اور کبھی تو جماعت ہی نکل گئی۔ یہ بے ترتیبی غمّاز ہے کہ ابھی آپ اپنے دماغ کے حاکم نہیں ہیں ، اس کی غلامی کے تحت زندگی بسر کررہے ہیں۔۔۔

۲) دوسروں کا آپ کو حوصلہ دینا اتنا بڑا ٹانک ہے، زندگی کی اتنی بڑی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تعزیت اور عیادت کرنے کو عبادت بنا دیا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکرا کر دیکھنے کو صدقہ فرمادیا۔۔۔
جب آپ غم و صدمے کے بوجھ سے نڈھال ہورہے ہوں تو کسی کا کندھا آپ کا غم ختم تو نہیں کرتا لیکن اس کی شدت توڑ ڈالتا ہے، اس کے حوصلے اور تسلی کے بول آپ کے زمین سے لگے مورال کا گراف ہمالیہ کی چوٹیوں تک پہنچادیتے ہیں۔۔۔
آپ ناکامیوں کا بوجھ لیے منہ بسورے بیٹھے ہوتے ہیں کہ امنگوں بھری ایک بھرپور مسکراہٹ آپ کو ماضی کی ناکامیوں کا بوجھ اتار کر کامیابیوں کی محنت کے لئے ایک دم اپنے پاؤں پر کھڑا کردیتی ہے۔۔۔
اور آپ ساری زندگی اس ایک مسکراہٹ، تسلی بھرے اس ایک بول کو بُھلا نہیں پاتے!!!
زبردست ماشاءاللہ جزاک اللہ
 

اے خان

محفلین
ان شاء اللہ۔۔۔
والدہ کی طبیعت کچھ ناساز چل رہی ہے۔۔۔
اس لیے یہاں آمد کم کم ہے۔۔۔
جیسے ہی افاقہ ہوتا ہے ان شاء اللہ آپ کے کہے پر عمل کرتے ہیں!!!
اللہ تعالیٰ آپ کی والدہ کو جلد صحت کاملہ عطا فرمائے آمین
 
ان شاء اللہ۔۔۔
والدہ کی طبیعت کچھ ناساز چل رہی ہے۔۔۔
اس لیے یہاں آمد کم کم ہے۔۔۔
جیسے ہی افاقہ ہوتا ہے ان شاء اللہ آپ کے کہے پر عمل کرتے ہیں!!!
اللہ کریم آپ کی والدہ کو صحت کاملہ عطا فرمائیں ،آمین
 

سید عمران

محفلین
عشق مجازی عشقِ حقیقی کے لیے کتنا ضروری ہے جب کہ یہ محض اتفاقیہ واقعہ ہو؟
نہ جانے اس نظریہ کی داغ بیل کب اور کیسے پڑی کہ عشق حقیقی کا راستہ عشق مجازی سے ہوکر گزرتا ہے۔۔۔
توبہ، نعوذ باللہ!!!
کیا یہ اسلام کی تعلیمات ہیں کہ کسی کی ماں بہن بیٹی پر ڈورے ڈالیں جائیں، تنہائیوں میں ان کو یاد کرکے آہیں بھری جائیں؟؟؟
کیا کوئی غیرت مند انسان یہ سوچ سکتا ہے کہ کوئی مرد اس کی خواتین کے بارے میں ایسا رویہ رکھے؟؟؟
اور کیا اللہ تعالیٰ اور اللہ کے رسول اس کا حکم تو کیا ترغیب بھی دے سکتے ہیں؟؟؟
عشق حقیقی سراسر طاعت و پاکیزگی۔۔۔
عشق مجازی سر تا پا مصیبت و معصیت۔۔۔
عشق حقیقی دلوں کی سرشاری اور سرمستی ۔۔۔
عشق مجازی دل کی وہ بے چینی اور بدمستی جو لوگوں کو پاگل کرکے پاگل خانے تک پہنچا دے۔۔۔
ایک عشق دونوں جہاں کے اطمینان و سکون کا نام۔۔۔
دوسرا عشق دونوں جہاں کی تباہی و بربادی کا عنوان۔۔۔
کیا کسی کی ماں بہن پر ڈورے ڈالنے والا یا بری نظر سے دیکھنے والا ولی اللہ ہوسکتا ہے؟؟؟
اللہ تعالیٰ تو حکم دے رہے ہیں:
قل للمؤمنین یغضوا من ابصارھم۔۔۔
اے ہمارے نبی مومن مردوں سے کہہ دیجیے کہ (نامحرم عورتیں سے) اپنی نگاہیں نیچی رکھیں کہ یہ عصمت کی حفاظت کا راستہ ہے۔۔۔
آگے یہی حکم عورتوں کو بھی دیا ہے۔۔۔
اور رسول اللہ کی حدیث پاک ہے۔۔۔
لعن اللہ الناظر و المنظور الیہ۔۔۔
خدا کی لعنت ہو بدنظری کرنے والے پر ، اور اس پر جو اپنے آپ کو بدنظری کروانے کے لیے پیش کرے۔۔۔
ان وعیدوں کے ہوتے ہوئے عشق مجازی میں مبتلا واصل باللہ ہونے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا۔۔۔
خدا کے غضب کے اعمال میں ملوث ہونے والا ان کی بارگاہ محبت میں کیسے داخل ہوسکتا ہے؟؟؟
اللہ اور اس کے رسول نے برے راستے پر پڑنے والے ہر ہر قدم پر تنبیہ کی ہے مثلاً مرد و زن کا اختلاط نہ ہو، کسی ضرورت سے بات کرنی ہو تو نگاہوں کو ہر ممکنہ طور پر نیچے رکھیں اور خواتین اپنے فطری لوچ و نزاکت سے بات نہ کریں، راستوں میں خوشبوئیں بکھیرتی، زیور بجاتی نہ چلیں تاکہ غیر مردوں کا دل ان کی طرف راغب نہ ہو۔۔۔
اتنی احتیاطیں اسی لیے بتائیں کہ نہ ہمارے بندے معاشرے میں ذلیل و رسوا ہوں، نہ ان کے متعلقین بے عزت ہوں۔۔۔
کسی لڑکے یا لڑکی کی غلط کاری طشت از بام ہوجاتی ہے تو سارے خاندان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔۔۔
البتہ اتنی بات ہوسکتی ہے کہ اگر کوئی عاشق مجازی تائب ہوجائےاور خدا کی طرف رجوع کرے تو چوں کہ اس نے عشق کا کچھ ذائقہ چکھ لیا ہے ، تو جب اس کے عشق کا رُخ خدا کی طرف ہوجائے گا تو اس کی رفتار تیز ہوسکتی ہے۔۔۔
بس سارے فسانے کا نچوڑ اتنی سی بات ہے ۔۔۔
تاریخ میں آج تک اللہ کے کسی ولی نے اس حوالے سے شہرت نہیں پائی کہ وہ عشق مجازی سے گزر کر عشق حقیقی تک پہنچا ہو۔۔۔
شیخ عبدالقادر جیلانی ہوں یا حسن بصری، جنید بغدادی ہوں یا ابراہیم ابن ادھم تمام بزرگ متبع شریعت و سنت تھے۔۔۔
اتباع شریعت اور کسی متبع سنت بزرگ کی رہبری خدا تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔۔۔
آج تک تمام اولیاء اسی راستے سے خدا تک پہنچے ہیں۔۔۔
اور یہی سنت صحابہ ہے۔۔۔
مستند رستے وہی مانے گئے
جن سے ہوکر ترے دیوانے گئے!!!
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
نہ جانے اس نظریہ کی داغ بیل کب اور کیسے پڑی کہ عشق حقیقی کا راستہ عشق مجازی سے ہوکر گزرتا ہے۔۔۔
توبہ، نعوذ باللہ!!!
کیا یہ اسلام کی تعلیمات ہیں کہ کسی کی ماں بہن بیٹی پر ڈورے ڈالیں جائیں، تنہائیوں میں ان کو یاد کرکے آہیں بھری جائیں؟؟؟
کیا کوئی غیرت مند انسان یہ سوچ سکتا ہے کہ کوئی مرد اس کی خواتین کے بارے میں ایسا رویہ رکھے؟؟؟
اور کیا اللہ تعالیٰ اور اللہ کے رسول اس کا حکم تو کیا ترغیب بھی دے سکتے ہیں؟؟؟
عشق حقیقی سراسر طاعت و پاکیزگی۔۔۔
عشق مجازی سر تا پا مصیبت و معصیت۔۔۔
عشق حقیقی دلوں کی سرشاری اور سرمستی ۔۔۔
عشق مجازی دل کی وہ بے چینی اور بدمستی جو لوگوں کو پاگل کرکے پاگل خانے تک پہنچا دے۔۔۔
ایک عشق دونوں جہاں کے اطمینان و سکون کا نام۔۔۔
دوسرا عشق دونوں جہاں کی تباہی و بربادی کا عنوان۔۔۔
کیا کسی کی ماں بہن پر ڈورے ڈالنے والا یا بری نظر سے دیکھنے والا ولی اللہ ہوسکتا ہے؟؟؟
اللہ تعالیٰ تو حکم دے رہے ہیں:
قل للمؤمنین یغضوا من ابصارھم۔۔۔
اے ہمارے نبی مومن مردوں سے کہہ دیجیے کہ (نامحرم عورتیں سے) اپنی نگاہیں نیچی رکھیں کہ یہ عصمت کی حفاظت کا راستہ ہے۔۔۔
آگے یہی حکم عورتوں کو بھی دیا ہے۔۔۔
اور رسول اللہ کی حدیث پاک ہے۔۔۔
لعن اللہ الناظر و المنظور الیہ۔۔۔
خدا کی لعنت ہو بدنظری کرنے والے پر ، اور اس پر جو اپنے آپ کو بدنظری کروانے کے لیے پیش کرے۔۔۔
ان وعیدوں کے ہوتے ہوئے عشق مجازی میں مبتلا واصل باللہ ہونے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا۔۔۔
خدا کے غضب کے اعمال میں ملوث ہونے والا ان کی بارگاہ محبت میں کیسے داخل ہوسکتا ہے؟؟؟
اللہ اور اس کے رسول نے برے راستے پر پڑنے والے ہر ہر قدم پر تنبیہ کی ہے مثلاً مرد و زن کا اختلاط نہ ہو، کسی ضرورت سے بات کرنی ہو تو نگاہوں کو ہر ممکنہ طور پر نیچے رکھیں اور خواتین اپنے فطری لوچ و نزاکت سے بات نہ کریں، راستوں میں خوشبوئیں بکھیرتی، زیور بجاتی نہ چلیں تاکہ غیر مردوں کا دل ان کی طرف راغب نہ ہو۔۔۔
اتنی احتیاطیں اسی لیے بتائیں کہ نہ ہمارے بندے معاشرے میں ذلیل و رسوا ہوں، نہ ان کے متعلقین بے عزت ہوں۔۔۔
کسی لڑکے یا لڑکی کی غلط کاری طشت از بام ہوجاتی ہے تو سارے خاندان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔۔۔
البتہ اتنی بات ہوسکتی ہے کہ اگر کوئی عاشق مجازی تائب ہوجائےاور خدا کی طرف رجوع کرے تو چوں کہ اس نے عشق کا کچھ ذائقہ چکھ لیا ہے ، تو جب اس کے عشق کا رُخ خدا کی طرف ہوجائے گا تو اس کی رفتار تیز ہوسکتی ہے۔۔۔
بس سارے فسانے کا نچوڑ اتنی سی بات ہے ۔۔۔
تاریخ میں آج تک اللہ کے کسی ولی نے اس حوالے سے شہرت نہیں پائی کہ وہ عشق مجازی سے گزر کر عشق حقیقی تک پہنچا ہو۔۔۔
شیخ عبدالقادر جیلانی ہوں یا حسن بصری، جنید بغدادی ہوں یا ابراہیم ابن ادھم تمام بزرگ متبع شریعت و سنت تھے۔۔۔
اتباع شریعت اور کسی متبع سنت بزرگ کی رہبری خدا تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔۔۔
آج تک تمام اولیاء اسی راستے سے خدا تک پہنچے ہیں۔۔۔
اور یہی سنت صحابہ ہے۔۔۔
مستند رستے وہی مانے گئے
جن سے ہوکر ترے دیوانے گئے!!!

واہ ، بہت خوب لکھا ہے ۔ آپ سے کسی قدر متفق تو ہوں مگر دل میں ایک سوال آیا ہے کہ مجاز سے مراد تو انسان ہے اور حقیقت سے مراد تو اللہ تعالیٰ ہیں ۔۔۔۔، کیا حضور پاک ﷺ سے صحابہ کی محبت مجازی حیثیت نہ رکھتی تھی ؟
 

سید عمران

محفلین
واہ ، بہت خوب لکھا ہے ۔ آپ سے کسی قدر متفق تو ہوں مگر دل میں ایک سوال آیا ہے کہ مجاز سے مراد تو انسان ہے اور حقیقت سے مراد تو اللہ تعالیٰ ہیں ۔۔۔۔، کیا حضور پاک ﷺ سے صحابہ کی محبت مجازی حیثیت نہ رکھتی تھی ؟
جو محبت اللہ کے لیے ہو وہ حب فی اللہ ہی میں شمار ہوتی ہے۔۔۔
نبی کریم اور صحابہ کی آپس میں محبت تو بہت اعلیٰ و ارفع درجہ ہے۔۔۔
عام انسان کی بیوی بچوں سے، والدین سے، رشتے داروں سے، اللہ والوں سے غرض وہ تمام محبتیں جو اللہ کے لیے کی جائیں اللہ تعالیٰ انہیں اپنی اطاعت میں ہی شمار کرتے ہیں کیوں کہ اس کی ترغیب اللہ و رسول خود دیتے ہیں۔۔۔
عشق مجازی عموماً ممنوعہ عشق کے لیے استعمال ہوتا ہے!!!
 
آخری تدوین:
البتہ انہوں نے کچھ کاغذات کمپیوٹر سے پرنٹ کروائے تھے، جو کافی عرصے تک ہم نے سنبھال کر رکھے، اب ڈھونڈنا پڑے گا کہ کہاں ہیں۔ جب مل گئے تو ان شاء اللہ آپ کی خدمت میں پیش کردئیے جائیں گے!!!
کچھ ملا؟
 

سید عمران

محفلین
آپ کی شاعروں سے بھاگنے والی بات نے یہاں پہنچا دیا۔ :p
ہاہاہاہا۔۔۔
وہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے ۔۔۔
مگر والد صاحب نے گھر پر بیوی بچوں یا خاندان میں کبھی کسی کو اپنا کوئی شعر نہیں سنایا الا ماشاء اللہ۔۔۔
جو کہنا سننا ہوتا تھا دوستوں کی محفل میں ہوتا تھا!!!
 
Top