فارسی اشعار کی تلاش میں اکثر اردو محفل کا لنک سامنے آتا اور سائیڈ پر لگی محمد وارث بھائی کی ہنستی مسکراتی تصویر۔۔۔اردو محفل پر کیسے آنا ہوا اور اس کے آپ کی زندگی پر کیا اثرات ہیں؟
۱) آپ کا اپنا دماغ اور ۔۔۔وہ کون سی چیز ہے جو ہمیں زندگی میں مستقل مزاج اور بلند حوصلہ کے حامل بنانے کے لیے کافی ہے؟
زبردست متفق بہت خوبصورت پیرائے میں اک اچھا پیغاماذان ہوتے ہی آپ ایک دم ایکٹو ہوگئے، جلدی سے نماز کی تیاری مکمل کرلی اور جماعت کھڑی ہونے سے پہلے ہی مسجد میں جاکر بیٹھ گئے تو سمجھیں آپ خود کو دماغ کے کمفرٹ زون سے نکالنے میں کامیاب ہورہے ہیں، وقت آنے سے پہلے اس کی تیاری کی یہ مشق آہستہ آہستہ آپ کی زندگی کے ہر شعبے پر محیط ہوتی چلی جائے گی۔۔۔
کچھ کا اختیار اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیا ہے۔۔۔آپ کیا سمجھتے ہیں کہ انسان اپنی تقدیر خود بناتا ہے یا ہونی ہو کر رہے گی؟
جی بالکل یقین رکھتے ہیں۔۔۔آپ ذات پات پر یقین رکھتے ہیں ؟
تعلیم و تربیت سے اور معاشی خوش حالی سے۔۔۔ہمارے ملکی حالات میں تبدیلی کیونکر آ سکتی ہے؟
ادب بہت لطیف شے ہے۔۔۔اردو ادب میں کس طرح کا انقلاب ضروری سمجھتے ہیں؟
سبحان اللہ۔۔۔ سبحان اللہ۔۔۔ کیا عمدہ جواب دیا۔۔ عمدہ الفاظ ۔۔ سبحان اللہ۔۔ ایک عمدہ پیغام۔۔ اعلی ترکیب ۔۔ ہم جیسے نکموں کے لیے۔۔ اللہ سب کو ہدایت سے نوازے۔۔ آمین۱) آپ کا اپنا دماغ اور ۔۔۔
۲) دوسروں کا آپ کو حوصلہ دینا ۔۔۔
۱) جب تک آپ ایسے حاکمِ مطلق نہیں بن جاتے جو دماغ کو کمفرٹ زون سے نکالنے کا سختی سے حکم نہ دے، آپ کچھ نہیں کرسکتے۔۔۔
اگر آپ دماغ کی سستی اور کاہلی والے پیغامات پر عمل کرتے رہے تو یہ آپ کی ہمت کا گراف مسلسل نیچے سے نیچے کی طرف لے جائیں گے۔۔۔
آپ خود کو اپنے دماغ کے کمفرٹ زون سے نکالنے میں کس حد تک کامیاب جارہے ہیں اس کا لٹمس پیپر اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیا ہوا ہے۔۔۔
یہ جو پانچوں وقت کی نماز پڑھی جاتی ہے اس کی کسوٹی پر اپنے آپ کو پرکھ سکتے ہیں کہ آپ کمفرٹ زون سے باہر نکلنے میں کتنا کامیاب ہورہے ہیں۔۔۔
اگر اذان ہوتے ہی آپ ایک دم ایکٹو ہوگئے، جلدی سے نماز کی تیاری مکمل کرلی اور جماعت کھڑی ہونے سے پہلے ہی مسجد میں جاکر بیٹھ گئے تو سمجھیں آپ خود کو دماغ کے کمفرٹ زون سے نکالنے میں کامیاب ہورہے ہیں، وقت آنے سے پہلے اس کی تیاری کی یہ مشق آہستہ آہستہ آپ کی زندگی کے ہر شعبے پر محیط ہوتی چلی جائے گی۔۔۔
یہاں یہ نہ سمجھیں کہ پہلے سے مسجد میں جاکر کیوں بیٹھیں، عین جماعت کھڑی ہونے پر کیوں نہ جائیں؟ تو اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں ہماری بہت مدد کی ہے، ایک روایت یہ ہے کہ جب تک بندہ نماز کے لیے منتظر بیٹھا رہتا ہے تو وہ حالت نماز ہی میں ہے، یعنی اس کو نماز پڑھے بغیر نماز کا ثواب مل رہا ہے، دوسری روایت یہ کہ اذان سے لے کر جماعت کھڑی ہونے تک کا درمیانی وقت دعاؤں کی قبولیت کا ہے۔ آپ کو اس محنت کے صلے میں دو لاجواب تحفے نقد مل رہے ہیں، اگر خاموش بیٹھے ہیں تو نماز کا ثواب مل رہا ہے اور اگر دعائیں بھی مانگنے لگے تو سونے پہ سہاگہ کا کام ہورہا ہے۔۔۔
اس کے برعکس اگر آپ نے اذان پر توجہ دینے کے بجائے گھڑی پر نظر رکھی کہ جب جماعت کا وقت ہوگا اس کے لحاظ سے تیاری کروں گا، پھر بھاگم بھاگ، مارے باندھے نماز پڑھنے گئے، کبھی تکبیر اولیٰ فوت ہوئی تو کبھی رکعات نکلیں اور کبھی تو جماعت ہی نکل گئی۔ یہ بے ترتیبی غمّاز ہے کہ ابھی آپ اپنے دماغ کے حاکم نہیں ہیں ، اس کی غلامی کے تحت زندگی بسر کررہے ہیں۔۔۔
۲) دوسروں کا آپ کو حوصلہ دینا اتنا بڑا ٹانک ہے، زندگی کی اتنی بڑی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تعزیت اور عیادت کرنے کو عبادت بنا دیا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکرا کر دیکھنے کو صدقہ فرمادیا۔۔۔
جب آپ غم و صدمے کے بوجھ سے نڈھال ہورہے ہوں تو کسی کا کندھا آپ کا غم ختم تو نہیں کرتا لیکن اس کی شدت توڑ ڈالتا ہے، اس کے حوصلے اور تسلی کے بول آپ کے زمین سے لگے مورال کا گراف ہمالیہ کی چوٹیوں تک پہنچادیتے ہیں۔۔۔
آپ ناکامیوں کا بوجھ لیے منہ بسورے بیٹھے ہوتے ہیں کہ امنگوں بھری ایک بھرپور مسکراہٹ آپ کو ماضی کی ناکامیوں کا بوجھ اتار کر کامیابیوں کی محنت کے لئے ایک دم اپنے پاؤں پر کھڑا کردیتی ہے۔۔۔
اور آپ ساری زندگی اس ایک مسکراہٹ، تسلی بھرے اس ایک بول کو بُھلا نہیں پاتے!!!
اکثر لوگ زمین پہ کام کرنے والوں کو "کمی" کہتے ہیں ۔۔ اس کا مطلب ہے انہیں کمتر سمجھا جاتا ہے۔۔ اس سوچ کو کیسے بدل سکتے ہیں؟ محنت مزدوری کرنے والا کمتر کیسے ہوگیا؟جی بالکل یقین رکھتے ہیں۔۔۔
یہ تو معاشرہ کا حصہ ہے۔۔۔
اسے آپ نظر انداز کیسے کرسکتے ہیں۔۔۔
البتہ اگر آپ کا مطلب کسی کو حقیر سمجھنے سے ہے تو مسلمان تو کیا خدا کی کسی بھی مخلوق کو حقارت کی نظر سے دیکھنا حرام ہے!!!
اس سوچ کو ذہن سازی سے ہی بدلا جاسکتا ہے۔۔۔اکثر لوگ زمین پہ کام کرنے والوں کو "کمی" کہتے ہیں ۔۔ اس کا مطلب ہے انہیں کمتر سمجھا جاتا ہے۔۔ اس سوچ کو کیسے بدل سکتے ہیں؟ محنت مزدوری کرنے والا کمتر کیسے ہوگیا؟
متفق۔۔۔زبردست۔۔۔جزاک اللہ خیراتعلیم و تربیت سے اور معاشی خوش حالی سے۔۔۔
تعلیم تو پہلے کی بنسبت بہت عام ہوچکی ہے البتہ تربیت اسی نسبت سے کم ہورہی ہے۔۔۔
نہ بڑوں سے بات کرنے کا شعور، نہ چھوٹوں سے بات کرنے کی تمیز نہ ہم عمروں سے بات کرنے کا لحاظ۔۔۔
معاشرے میں دوسرے انسانوں کے ساتھ کیسے رہنا ہے، اس تربیت کا آغاز ماں کی گود سے ہوتا ہے۔۔
ماں ہی نہ جانتی ہو کہ تربیت کس چڑیا کا نام ہے تو اولاد کو کیا سِکھائے گی۔۔۔
محض بچے پیدا کرکے گلیوں یا اسکولوں کے حوالے کردینے سے ذمہ داری ادا نہیں ہوجاتی۔۔۔
وہ جو پہلے مثل مشہور تھی کہ کھلاؤ سونے کا نوالہ، رکھو شیر کی نگاہ۔۔۔
یہ عملی تربیت کے لیے بہترین مثال ہے۔۔۔
معاشرے میں بڑھتے ہوئے جرائم اور کرپشن تربیت کی کمی نہیں تو اور کیا ہے؟؟؟
اور معاشی خوشحالی اسی وقت ملے گی جب آپ اولاد کی ذہن سازی ملازمت کی بجائے تجارت
کے لیے کریں گے۔۔۔
تجارت کا مطلب عموماً یہ لیا جاتا ہے کہ لاکھوں روپے ہونے ضروری ہیں۔۔۔
حالاں کہ اس کے لیے شوق اور بہترین منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔۔۔
اور منصوبہ بندی تجربے سے حاصل ہوگی چاہے خود کریں یا دوسروں کے ساتھ کچھ عرصہ کام کرکے کریں۔۔۔
تجارت ایک درجن سموسے اور برگر سے بھی شروع کی جاسکتی ہے۔۔۔
اب اس کو آگے کہاں تک پھیلانا ہے اس وژن کی اہمیت تجارت کو کہاں سے کہاں لے جاسکتی ہے۔۔۔
آپ معاشرے کو تعلیم و تربیت اور معاشی خوشحالی دیں ترقی کے زینے خود طے ہوجائیں گے!!!
ہم تو اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بھانت بھانت کے لوگوں کی بھانت بھانت کی بولیاں سننے سے بہتر ہے کہ خاموش رہا جائے یا اپنی مثبت رائے کا اظہار کرکے ایک طرف ہوجایا جائے۔۔۔آپ کے خیال میں سوشل میڈیا پر انسان کا آئیڈیل رویہ کیا ہو سکتا ہے؟
ادب بہت لطیف شے ہے۔۔۔
اسی لیے اس سے لطف اٹھایا جاتا ہے۔۔۔
ہمارے یہاں خالصتاً ادبی کام کرنا بھوکوں مرنے کے مترادف ہے۔۔۔
اس کی ایک وجہ کاپی رائٹ ایکٹ پر عمل درآمد نہ ہونا، پبلشرز کا صاحب تصنیف کو اس کا جائز حصہ نہ دینا وغیرہ ہیں۔۔۔
مختصر یہ کہ جب تک آپ تخلیقی ذہن کے حامل افراد کو اس کے کچن کی فکر سے فراغت نہیں دلائیں گے وہ ادب کے لیے فراغت حاصل نہیں کرپائے گا۔۔۔
یونہی شغلاً یا شوقاً جگالی کرتا رہے گا۔۔۔
ایک بھرپور ادبی ماحول اسی وقت وجود پذیر ہوگا جب ادبی لوگوں کی پذیرائی ہوگی۔۔۔
ورنہ ادب کے اوراق میں سموسہ بکتا رہے گا!!!
سبحان اللہ!ہم تو اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بھانت بھانت کے لوگوں کی بھانت بھانت کی بولیاں سننے سے بہتر ہے کہ خاموش رہا جائے یا اپنی مثبت رائے کا اظہار کرکے ایک طرف ہوجایا جائے۔۔۔
ویسے بھی ہر جنگ نہیں لڑنی چاہیے، نہ ہر اوکھلی میں سر دینا چاہیے۔۔۔
سوشل میڈیا ہو یا حقیقی دنیا آپ کو اچھے اخلاق اور بہترین رویوں کا ہر جگہ مظاہرہ کرنا چاہیے!!!