محترم م حمزہ بھائی سے مصاحبہ!

انہوں نے اپنی شاعری میں مے نوشی کا ذکر کیا ہے۔ انہیں نصیحت کروں گا کہ اگر سچ میں ایسا کرتے تھے تو توبہ کرلیں۔ اور اگر ایسا نہیں کرتے تھے تو دو بار توبہ کرِیں۔


آپ شکوہ کی بات کرتے ہیں؟ بہت سارے حساب لینے ہیں ان سے۔
ان کے حصے کا کچھ حساب ہم سے لے لیجیے ہم ان کے چاہنے والے ہیں :) :)
 
ماہنامہ اللہ کی پکار اورماہنامہ زندگی نو کا کئی سال تک قاری رہا ہوں۔ اس کے علاوہ سہ ماہی تحقیقات اسلامی علی گڑھ بھی پڑھا کرتا تھا۔
زندگی نو کا پہلی بار پڑھا۔ میں ماہِ نو کا قاری رہا ہوں زندگی نو کے بارے میں کچھ بتائیے
 
میں نہیں جانتا یہ اردو ادب کیا شئی ہوتی ہے۔
ہاں اگر آپ یہ پوچھتے کہ اردو زبان کے ساتھ کب سے تعلق ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ مدرسہ کے پہلے دن سے ہی۔ لیکن یہ کچھ قلبی لگاوَ نہیں تھا۔ ایک امر مجبوری، پھر ایک حادثہ اور پھر مجبوری۔

مڈل سکول سے آخری سال میں ایک استاد نے تختہَ سیاہ پر اقبال کا ایک شعر لکھ ڈالا اور کلاس سے چلے گئے۔ حالانکہ وہ ریاضی کے استاد تھے ۔ میں بہت چھوٹا تھا۔ خام ذہن اور خام فکر۔ جیسے ہی شعر پڑھا یاد ہوگیا اور دل و جاں میں بس گیا۔ پھر نہ ادھر دیکھا نہ اُدھر۔ اس ایک شعر نے زندگی کا رخ ہی بدل ڈالا۔ بلکہ یوں کہیے میری زندگی برباد کر ڈالی۔
خیر یہ محرک بنا مجھے اقبال کے متعلق اور اس کی شاعری پڑھنے کا۔ ہائی سکول میں داخلہ لیا تو وہاں اردو کے جو استاد تھے وہ بھی بس اقبال کے ہی گیت گاتے نظر آئے۔ حالانکہ انگریزی اور ریاضی کے استاد مجھ سے بہت انس و شفقت رکھتے تھے ۔ لیکن مجھے اردو کے استاد زیادہ پسند آنے لگے۔ اردو زبان کی وجہ سے نہیں، بلکہ اقبال کی وجہ سے۔ وہ بات بات پر اقبال کے شعر سنایا کرتے تھے۔ میں نے ایک بار ان سے پوچھا کی آپ کو اقبال کے کتنے شعر حفظ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ تو مجھے بھی نہیں معلوم لیکن اس مدرسہ میں سب سے زیادہ مجھے ہی ہوں گے۔ مجھے لگا کہ اگر کوئی عالم ہے تو اقبال۔ میری عمر 13 یا 14 سال کے لگ بھگ تھی۔ ان ہی دنوں مولانا مودودی کا ایک کتابچہ پڑھنے کو ملا۔ جس میں کہیں سورہ محمد اورسورہ فتح کی تفسیر بحوالہ تفہیم القران کا ذکر تھا۔ بہت جدوجہد کے بعد اتنے پیسے میسر آئے کہ وہ پانچویں جلد خرید لی۔ اس ایک کا پڑھنا تھا کی ٹھان لی کہ ساری جلدیں پڑھنی ہیں۔ اور پھر پڑتا گیا۔ کسی نے نسیم حجازی کی معظم علی تھمادی۔ اور یہ سلسلہ آج تک چل ہی رہا ہے۔

گھر میں کوئی پڑھا لکھا نہ تھا۔ ایک چچا تھے ان کو فارسی سے زیادہ دلچسپی تھی۔ ان کا معمول بس نماز اور تلاوت قرآن تھا۔ کبھی بھی اور کہیں بھی شروع ہوتے تھے۔ ان سے بات کرنے کی ہمت بھی نہیں ہوتی تھی۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ہم اپنے گاوَں سے صرف ۳ لڑکے (لڑکی کوئی بھی نہیں) ہائی سکول میں پڑھتے تھے۔ گاوَں میں مشکل سے ہی کوئی پڑھا لکھا شخص تھا۔ 2 جوان مجھ سے پہلے پڑھتے تھے لیکن ۔۔۔۔ کہنے کا مقصد یہ کہ کوئی رہنمائی کرنے والا نہ تھا۔ بارہویں کے امتحان کا وقت آنے تک ہائر سکنڈری سکول جسے جونئر کالج بھی کہا جاتا ہے ریگولر جاتا رہا۔ عین امتحان کے دوران ایک آندھی آئی اس نے ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ پٹخ دیا۔ وہاں سے اٹھاکر کہیں اور پھینک دیا۔ اور یہ سلسلہ 2014 کےآخر میں آئے تباہ کن سیلاب تک مسلسل چلتا رہا۔ بالآخر سال 2015 کے بالکل پہلے دن وطن کو خیر باد کہنا پڑا۔

ہاں یہ ضرور ہے کہ پڑھائی کے ساتھ میری دلچسپی کبھی ختم نہ ہوسکی۔ میں جہاں بھی گیا یا رہا وہاں کوشش کی کہ کچھ نہ کچھ تعلیم حاصل کرسکوں۔ انگریزی میں ماسٹرز(ڈسٹنس موڈ، کیوںکہ ریگولر ممکن نہ تھا) کرنے کی کوشش کی جسے مذکورہ بالا سیلاب نے 90٪ پر فل سٹاپ لگا دیا۔ خیر یہ ایک لمبی اور الگ داستان ہے۔ جسے اگر میں چاہوں بھی تو بوجوہ بیان نہیں کرسکتا۔
مولانا مودودی علیہ الرحمہ کی اکثر کتابیں پڑھی ہیں۔ اور بھی کئی سارے مصنفین کی کتابیں پڑھی ہیں ۔ اورعربی مصنفین کی جو عربی سے اردو میں ہوکر آئی ہیں اسی بھی۔ اور تفاسیر بھی۔ ایک اچھی خاصی (میرے حساب اور میری حیثیت سے) لائبریری جمع ہوگئی ہے گھر پر۔ اور یہ کوشش رہی ہے کہ بس جمع کرکے ہی نہ چھوڑوں بلکہ دوسرے بھی ان سے فائدہ اٹھا سکیں۔
نسیم حجازی اور عنایت اللہ کے ناول بھی بے حد پسند ہیں۔

عربی زبان سیکھنے کی ناکام کوشش کئی بار کرچکا ہوں۔ لیکن افسوس وقت نے کبھی وفا نہ کی۔

میرے خیال سے مقتبس بالا سوالوں کا جواب دے دیا ہے۔
اپنی کتب کی فہرست مہیا کیجیے گا۔
 
یہاں لمبی فہرست ہے اس کی
مے نوشی ایک عام شاعرانہ مضمون ہے جس پر غالب و اقبال سمیت تمام معروف شعرا نے طبع آزمائی کی ہے. میری عقلِ ناقص اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ جب غالب کا ذکر کیا جائے تو لوگوں کی ایک بڑی تعداد کا ذہن بلا تامل مے نوشی کی جانب مبذول کیوں ہو جاتا ہے. یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ شاید غالب وہ واحد شاعر ہے جس نے مے نوشی پر شعر کہے ورنہ شاعری تو وعظ و نصیحت کے لیے مختص تھی.
 
آخری تدوین:
السلام علیکم م حمزہ بھائی !!!
ہماری جناب سے آپ کی خدمت میں سوالات باغرض جوابات پیش خدمت ہے ۔آپ پہلے پوچھے گئے سوالات کے جوابات مکمل کرلیں اور پھر ہمارے سوالات کے جوابات دینے کا آغاز فرمائیں ۔آپ اپنی پسند کے سوال کو مدنظر رکھتے ہوئے جواب دیں ۔
01 : اردو محفل پر آمد کیسے ہوئی ، اردو محفل فورم کی ایسی کیا خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے آپ نے محفل کی رکنیت حاصل کی؟
02 : اردو محفل کا کون سا زمرہ آپ کو دلچسپ اور پسند ہے ؟
03 : اردو محفل کے کون سے محفلین سے آپ متاثر ہیں، اس کی کیا وجوہات ہیں ؟
04 : اردو محفل کے 05 ایسے محفلین کا نام تحریر کریں جن کو آپ پسند کرتے ہیں اور پسندیدگی کس وجہ سے ہے یہ بتائیں ؟
05 : اردو محفل پر ہونے والے بحث و مباحثے آپ کی نظر میں علم و تحقیق کے مطابق ہوتے ہیں یا بس وقت گزاری کی جاتی ہے ؟
06 : اردو محفل آپ کی نظر میں اردو زبان کی جو خدمت کر رہی ہے تو آپ اس سے مطمئن ہے یا اس میں اور بہتری لانے کی گنجائش ہے؟
07 : اردو محفل کے منتظمین کی طرف سے آپ کو مدیر بنانے کا فیصلہ کیا جائے تو آپ یہ فیصلہ قبول کریں گے ؟
08 : اردو محفل کے کس محفلین سے ملاقات کی تمنا رکھتے ہیں؟
09 : اردو محفل کی ترقی اور کامیابی کے لیے آپ کے پاس کیا آئیڈیاز ہیں ؟
10 : اردو محفل پر کیا کوئی ایسا محفلین بھی ہے جس کے تبصروں سےآپ بیزار ہیں اور دن رات اس محفلین کی معطلی کی دعا کرتے ہیں؟
 

م حمزہ

محفلین
کوئی ایسی تحریر جسے آپ سب کو پڑھنا کا مشورہ دیں گے ؟

چودھری غلام عباس کی سوانح عمری "کشمکش" میں وہ ایک بار جیل جانے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ وہ موقع تھا جب انہیں اپنا محاسبہ کرنے کا موقع ہاتھ لگ گیا۔ اس ضمن میں وہ ایک یا دو پیراگراف میں اپنے ضمیر کی کشمکش کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آدمی اپنی انا کے چکر میں حقیقت سے کتنا دور ہوجاتا ہے۔ میں نے کئی سال پہلے پڑی ہے یہ کتاب اسلئے ٹھیک سے یاد نہیں ہے وہ ساری باتیں۔ البتہ انتہائی قیمتی باتیں لکھی ہیں کہ اکثر انسان ان سطور میں اپنا عکس دیکھ سکتے ہیں۔
 

م حمزہ

محفلین
سید عمران صاحب!
آپ کیلئے۔
یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ میں نامی گرامی قاریوں کو ہی پسند کروں۔ اور قاری کو صرف لے کی زیرو بم پر ہی پسند نہیں کیا جاتا۔ دوسری وجوہات بھی ہوسکتی ہیں۔
 
آخری تدوین:
میں نہیں جانتا یہ اردو ادب کیا شئی ہوتی ہے۔
ہاں اگر آپ یہ پوچھتے کہ اردو زبان کے ساتھ کب سے تعلق ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ مدرسہ کے پہلے دن سے ہی۔ لیکن یہ کچھ قلبی لگاوَ نہیں تھا۔ ایک امر مجبوری، پھر ایک حادثہ اور پھر مجبوری۔

مڈل سکول سے آخری سال میں ایک استاد نے تختہَ سیاہ پر اقبال کا ایک شعر لکھ ڈالا اور کلاس سے چلے گئے۔ حالانکہ وہ ریاضی کے استاد تھے ۔ میں بہت چھوٹا تھا۔ خام ذہن اور خام فکر۔ جیسے ہی شعر پڑھا یاد ہوگیا اور دل و جاں میں بس گیا۔ پھر نہ ادھر دیکھا نہ اُدھر۔ اس ایک شعر نے زندگی کا رخ ہی بدل ڈالا۔ بلکہ یوں کہیے میری زندگی برباد کر ڈالی۔
خیر یہ محرک بنا مجھے اقبال کے متعلق اور اس کی شاعری پڑھنے کا۔ ہائی سکول میں داخلہ لیا تو وہاں اردو کے جو استاد تھے وہ بھی بس اقبال کے ہی گیت گاتے نظر آئے۔ حالانکہ انگریزی اور ریاضی کے استاد مجھ سے بہت انس و شفقت رکھتے تھے ۔ لیکن مجھے اردو کے استاد زیادہ پسند آنے لگے۔ اردو زبان کی وجہ سے نہیں، بلکہ اقبال کی وجہ سے۔ وہ بات بات پر اقبال کے شعر سنایا کرتے تھے۔ میں نے ایک بار ان سے پوچھا کی آپ کو اقبال کے کتنے شعر حفظ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ تو مجھے بھی نہیں معلوم لیکن اس مدرسہ میں سب سے زیادہ مجھے ہی ہوں گے۔ مجھے لگا کہ اگر کوئی عالم ہے تو اقبال۔ میری عمر 13 یا 14 سال کے لگ بھگ تھی۔ ان ہی دنوں مولانا مودودی کا ایک کتابچہ پڑھنے کو ملا۔ جس میں کہیں سورہ محمد اورسورہ فتح کی تفسیر بحوالہ تفہیم القران کا ذکر تھا۔ بہت جدوجہد کے بعد اتنے پیسے میسر آئے کہ وہ پانچویں جلد خرید لی۔ اس ایک کا پڑھنا تھا کی ٹھان لی کہ ساری جلدیں پڑھنی ہیں۔ اور پھر پڑتا گیا۔ کسی نے نسیم حجازی کی معظم علی تھمادی۔ اور یہ سلسلہ آج تک چل ہی رہا ہے۔

گھر میں کوئی پڑھا لکھا نہ تھا۔ ایک چچا تھے ان کو فارسی سے زیادہ دلچسپی تھی۔ ان کا معمول بس نماز اور تلاوت قرآن تھا۔ کبھی بھی اور کہیں بھی شروع ہوتے تھے۔ ان سے بات کرنے کی ہمت بھی نہیں ہوتی تھی۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ہم اپنے گاوَں سے صرف ۳ لڑکے (لڑکی کوئی بھی نہیں) ہائی سکول میں پڑھتے تھے۔ گاوَں میں مشکل سے ہی کوئی پڑھا لکھا شخص تھا۔ 2 جوان مجھ سے پہلے پڑھتے تھے لیکن ۔۔۔۔ کہنے کا مقصد یہ کہ کوئی رہنمائی کرنے والا نہ تھا۔ بارہویں کے امتحان کا وقت آنے تک ہائر سکنڈری سکول جسے جونئر کالج بھی کہا جاتا ہے ریگولر جاتا رہا۔ عین امتحان کے دوران ایک آندھی آئی اس نے ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ پٹخ دیا۔ وہاں سے اٹھاکر کہیں اور پھینک دیا۔ اور یہ سلسلہ 2014 کےآخر میں آئے تباہ کن سیلاب تک مسلسل چلتا رہا۔ بالآخر سال 2015 کے بالکل پہلے دن وطن کو خیر باد کہنا پڑا۔

ہاں یہ ضرور ہے کہ پڑھائی کے ساتھ میری دلچسپی کبھی ختم نہ ہوسکی۔ میں جہاں بھی گیا یا رہا وہاں کوشش کی کہ کچھ نہ کچھ تعلیم حاصل کرسکوں۔ انگریزی میں ماسٹرز(ڈسٹنس موڈ، کیوںکہ ریگولر ممکن نہ تھا) کرنے کی کوشش کی جسے مذکورہ بالا سیلاب نے 90٪ پر فل سٹاپ لگا دیا۔ خیر یہ ایک لمبی اور الگ داستان ہے۔ جسے اگر میں چاہوں بھی تو بوجوہ بیان نہیں کرسکتا۔
مولانا مودودی علیہ الرحمہ کی اکثر کتابیں پڑھی ہیں۔ اور بھی کئی سارے مصنفین کی کتابیں پڑھی ہیں ۔ اورعربی مصنفین کی جو عربی سے اردو میں ہوکر آئی ہیں اسی بھی۔ اور تفاسیر بھی۔ ایک اچھی خاصی (میرے حساب اور میری حیثیت سے) لائبریری جمع ہوگئی ہے گھر پر۔ اور یہ کوشش رہی ہے کہ بس جمع کرکے ہی نہ چھوڑوں بلکہ دوسرے بھی ان سے فائدہ اٹھا سکیں۔
نسیم حجازی اور عنایت اللہ کے ناول بھی بے حد پسند ہیں۔

عربی زبان سیکھنے کی ناکام کوشش کئی بار کرچکا ہوں۔ لیکن افسوس وقت نے کبھی وفا نہ کی۔

میرے خیال سے مقتبس بالا سوالوں کا جواب دے دیا ہے۔
وہ ایک شعر کون سا تھا؟
 

م حمزہ

محفلین
میں لکھ تو دیتا ہوں وہ شعر یہاں تاہم محمد تابش صدیقی صاحب کی شاعر مشرق ایپ میں کل سے اسے تلاش کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ اگر یہ علامہ اقبال کا شعر ہی نہ ہوا تو دُکھ اس بات ہوگا کہ ایسا شعر اس کا کیوں نہیں۔ خیر اس سے اب کیا فرق پڑے گا کہ کس کا شعر ہے۔ جو ہونا تھا سو ہوگیا۔

سنو اے ساکنان ارض کشمیر ندا کیا آرہی ہے آسمان سے
کہ آزادی کا ایک لمحہ ہے بہتر غلامی کی حیات جاوداں سے
 
آخری تدوین:

م حمزہ

محفلین
اپنی کتب کی فہرست مہیا کیجیے گا۔
مکمل فہرست تو ناممکن ہے۔ لیکن جو یاد ہیں وہ یہاں لکھتا جاوَں گا۔
قران الکریم
قرآن مع ترجمہ و مختصر تفسیر از مولانا اشرف علی تھانویؒ۔
تفہیم القران
معارف القران
تفسیر مظہری
تفسیر شبیر عثمانی
تفسیر ابن کثیر
تدبر قران۔
احسن البیان۔
بخاری ، مؤطا امام مالک۔
کلام نبوت، سفینہ نجات، ترجمان الحدیث، شمع رسالت، معارف الحدیث۔ تعلیم الاسلام۔
سیرت ابن ہشام، الرحیق المختوم، زاد المعاد (پڑھ نہ سکا)۔ اسوہَ حسنہ۔ محسن انسانیت۔
علامہ اقبال اور مودوی کا تقابلی مطالعہ، اقبال کا تصور دین، کلیات اقبال مع شرح۔
سیرت صحابہ۔ سیرت صحابیات۔
سیرت امام ابو حنیفہؒ۔
رزم حق و باطل۔ مولانا مودودی کے ساتھ میری سرگزشت۔ خلافت و ملوکیت کی تاریخی و شرعی حیثیت۔
تاریخ حدیث۔ علوم القران۔ علوم الحدیث۔ فقہ الحدیث، فقہ الزکوٰۃ۔ تقلید کی شرعی حیثیت۔ انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر۔ عہد حاضر میں دین کی تفہیم و تشریح ۔ تصوف اور اہل تصوف۔ آداب زندگی۔
تاریخ اسلام۔
نسیم حجازی اور عنایت اللہ التمش کے قریباً سارے مشہور ناول۔ "بدقسمتی" سے اسلم راہی کے بھی کئی ناول۔ اور بھی چند مصنفین کے ناول۔
Autobiography : the story of my experiments with truth. ولر کنارے۔ کشمکش۔ شہاب نامہ (پڑھ نہ سکا)۔

مصری مصنفین کی کچھ کتابیں۔ آپ کو اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کون کون سی ہوںگی۔

آسان فقہ۔ فقہ السنہ۔ فقہ السنہ علی مذاہب اربعہ۔ کشف المحجوب

مولانا مودودی علیہ الرحمہ کی قریباً ساری کتابیں۔ جتنی میرے مشاہدے میں آئی ہیں۔ صرف تنقیہات اور سود نہیں ہیں۔ یا اور بھی کوئی ہوسکتی ہے جسکا مجھے علم نہ ہو۔
 
آخری تدوین:

عرفان سعید

محفلین
میں لکھ تو دیتا ہوں وہ شعر یہاں تاہم محمد تابش صدیقی صاحب کی شاعر مشرق ایپ میں کل سے اسے تلاش کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ اگر یہ علامہ اقبال کا شعر ہی نہ ہوا تو دُکھ اس بات ہوگا کہ ایسا شعر اس کا کیوں نہیں۔ خیر اس سے اب کیا فرق پڑے گا کہ کس کا شعر ہے۔ جو ہونا تھا سو ہوگیا۔

سنو اے ساکنان ارض کشمیر ندا کیا آرہی ہے آسمان سے
کہ آزادی کا ایک لمحہ ہے بہتر غلامی کی حیات جاوداں سے
یہ شعر اقبال کا تو ہرگز نہیں ہے۔
مندرجہ بالا شعر جنابِ جوش کے اس شعر کی تحریف شدہ شکل ہے۔

سنو اے ساکنانِ خاکِ پستی! ندا کیا آرہی ہے آسماں سے
کہ آزادی کا ایک لمحہ ہے بہتر غلامی کی حیاتِ جاوداں سے
 
Top