نیرنگ خیال
لائبریرین
یوں تو شاہ جی کو کبھی ہم نے "مچھلی پیڈیا" کے نام سے کانٹوں پر گھسیٹا تھا۔ اس سے قبل ان سے ملاقات کا ایک موقعہ ہم گنوا ہی چکے تھے۔ جس کی غائبانہ روداد تحریر کر کے ہم نے اپنی کچھ نہ کچھ کمی پوری کرنے کی کوشش ضرور کی تھی۔ لیکن اب پیش ہے سچی مچی کی ملاقات کا احوال۔ جو کہ بہت مختصر سی تھی۔ لیکن بےحد پرلطف اور زبردست۔۔۔۔
چند دن پرانی بات ہے۔ کہ صبح کے وقت جب ہم دفتر جانے کے لیے تیار ہو رہے تھے کہ ایک عدد برقی رقعہ موصول ہوا۔
فلاں جگہ کہاں ہے؟
اگر فلاں جگہ جانا ہو تو کہاں اتروں؟ یہاں اتروں کہ وہاں اتروں؟
وہاں اتروں اگر تووہاں سے وہاں کیسے جاؤں؟ جنگل تو نہیں ہے اسلام آباد؟ میں بھٹک نہ جاؤں! یوں تو ہم انجان نمبر کو ہمیشہ کسی حسینہ کا نمبر تصور کرتے ہیں تاکہ دل خوش اور بہلا رہے۔ لیکن وائے قسمت کہ یہ نمبر ہمارے پاس ایسے نام سے محفوظ تھا کہ دو سطروں پر تو نام ہی آرہا تھا۔ برقی رقعہ پڑھا۔ جس جگہ کاحضرت نے پوچھا تھا وہ ہمارے دفتر سے بالکل پاس ہی تھی۔ لہذا ہم نے بالکل صحیح صحیح انداز میں رہنمائی فرما دی۔ ورنہ رہنمائی فرمانے میں تو ہمارے ایسے ایسے مرشد ہیں کہ آدمی ہر جگہ پہنچے لیکن وہاں نہ پہنچے جہاں اسے پہنچنا ہو۔ اور ساتھ ہی گزارش بھی کر دی کہ اگر وقت کا ضیاع نہ سمجھیں تو ہم کو فقیروں کو بھی ملتے جائیں۔ حضرت کا جواب آیا۔ ہاں بھئی دیکھیں گے ابھی ذرا حوصلہ رکھو۔
ہم دفتر آکر کام میں مصروف ہونے کی کوشش کرنے لگےکہ ایک عدد اور برقی رقعہ آگیا۔ ہم نے دیکھا تو حضرت نے پوچھا تھا کہ بھئی تم کدھر ہو۔ ہم نے اپنے دفتر کی عمارت کی نشاندہی کی اور عرض گزاری کہ حضور باہر آکر ایک عدد رعشہ کا جھٹکا موبائل کو اور دے دیجیے گا۔ میری اس بات کا حضرت غصہ کر گئے اور باہر آکرایسا برقی رقعہ بھیجا کہ موبائل کے ساتھ ساتھ مجھ کو بھی رعشہ جھٹکا لگا اور میں اٹھ کر بھاگم بھاگ باہر پہنچا۔
چند دن پرانی بات ہے۔ کہ صبح کے وقت جب ہم دفتر جانے کے لیے تیار ہو رہے تھے کہ ایک عدد برقی رقعہ موصول ہوا۔
فلاں جگہ کہاں ہے؟
اگر فلاں جگہ جانا ہو تو کہاں اتروں؟ یہاں اتروں کہ وہاں اتروں؟
وہاں اتروں اگر تووہاں سے وہاں کیسے جاؤں؟ جنگل تو نہیں ہے اسلام آباد؟ میں بھٹک نہ جاؤں! یوں تو ہم انجان نمبر کو ہمیشہ کسی حسینہ کا نمبر تصور کرتے ہیں تاکہ دل خوش اور بہلا رہے۔ لیکن وائے قسمت کہ یہ نمبر ہمارے پاس ایسے نام سے محفوظ تھا کہ دو سطروں پر تو نام ہی آرہا تھا۔ برقی رقعہ پڑھا۔ جس جگہ کاحضرت نے پوچھا تھا وہ ہمارے دفتر سے بالکل پاس ہی تھی۔ لہذا ہم نے بالکل صحیح صحیح انداز میں رہنمائی فرما دی۔ ورنہ رہنمائی فرمانے میں تو ہمارے ایسے ایسے مرشد ہیں کہ آدمی ہر جگہ پہنچے لیکن وہاں نہ پہنچے جہاں اسے پہنچنا ہو۔ اور ساتھ ہی گزارش بھی کر دی کہ اگر وقت کا ضیاع نہ سمجھیں تو ہم کو فقیروں کو بھی ملتے جائیں۔ حضرت کا جواب آیا۔ ہاں بھئی دیکھیں گے ابھی ذرا حوصلہ رکھو۔
ہم دفتر آکر کام میں مصروف ہونے کی کوشش کرنے لگےکہ ایک عدد اور برقی رقعہ آگیا۔ ہم نے دیکھا تو حضرت نے پوچھا تھا کہ بھئی تم کدھر ہو۔ ہم نے اپنے دفتر کی عمارت کی نشاندہی کی اور عرض گزاری کہ حضور باہر آکر ایک عدد رعشہ کا جھٹکا موبائل کو اور دے دیجیے گا۔ میری اس بات کا حضرت غصہ کر گئے اور باہر آکرایسا برقی رقعہ بھیجا کہ موبائل کے ساتھ ساتھ مجھ کو بھی رعشہ جھٹکا لگا اور میں اٹھ کر بھاگم بھاگ باہر پہنچا۔
گرمی اندر یوفون ٹاور تھلے آن کھلوتے
تو نہ آیا لایا لارا ، تیرا ککھ نہ رہے
خدا گواہ ہے کہ ہم کو اپنے ککھ کی اتنی پرواہ نہیں تھی کہ ہم بھاگتے لیکن ڈر یہ تھا کہ حضرت اگر چند لمحے اور اپنے سایے کو پاؤں تلے روندتے رہے تو ان کا شاید ککھ نہ رہے۔ باہر نکلے تو فوراً دھوپ میں کھڑے لوگوں کو دیکھنا شروع کیا کہ ہمارے مطلوبہ حضرت کدھر ہیں۔ ایسے میں پیچھے سے آواز آئی اوہ میاں۔ "ڈھگے وانگوں گاں ای تری جاندا ایں۔ سجے کھبے وی نظر مار لے۔" لوجی ہم نے غور کیا تو موصوف ہمیں دھوپ کا کہہ کر خود چھاؤں تلے سستا رہے تھے۔ اور اس کے بعد ہم دونوں یوں گلے ملے جیسے برسوں کے بچھڑے دوست گلے ملتے ہیں۔ اس کے بعد ہم نے ایک قریبی ریستوران کا رخ کیا۔ اور وہاں پر چاولوں اور باتوں سے دل اور پیٹ بھرا۔ دوران کھانا و گپ شپ حضرت مسلسل موبائل پر میسجز ہی میں مصروف رہے۔ ہم دل میں یہ بھی سوچتے رہے کہ نئی نسل تو یوں ہی بدنام ہے۔ اب ذرا ان کی میسج بھیجنے کی رفتار دیکھی جائے تو کئی لوگ پانی بھرنا شروع کر دیں۔ ہمارے استفسار پر بھی مسکرا کر ہمیں کہا کہ بس یار یونہی چند میسجز ہیں جو کہ کرنے بہت ضروری ہیں۔ اب یہ ضروری کیوں تھے ہم اس کا تعین کرنے سے خود کو قاصر سمجھتے ہیں۔ ابھی ہم وہاں پر بیٹھے حضرت کے کام کے متعلق ہی گپ بازی میں مصروف تھے کہ حضور نے کہا۔ امجد میانداد صاحب بھی یہیں کہیں موجود ہیں۔ اور بارگاہ میں حاضری کی اجازت چاہتے ہیں۔ ہم نے کہا۔ ان سے کہیں کہ میٹرو سڑک بالکل نئی بنی ہے سو جب تک ہم آتے ہیں اس پر سائباں کیے رکھیں۔ جب ہم واپس وہاں پہنچے تو امجد واقعی سڑک پر اپنے جثے کے مطابق سایہ کیے کھڑے تھے۔ وہاں سے ہم تینوں ایک پاس ہی چائے کے ڈھابے پر آبیٹھے۔ اس ڈھابے کا تذکرہ یوں بھی مناسب ہے کہ ہم یعنی کہ راقم القصہ بذاتِ خود اکثر اوقات وہاں پر اپنے دفتری ساتھیوں کے ساتھ چائے پیتے پائے جاتے ہیں۔ وہاں پر ہم نے کام اور موجودہ سیاسی و غیر سیاسی صورتحال پر گفتگو فرمائی جس کو راقم طوالت کے خوف سے ہمیشہ کی طرح حذف کر رہا ہے۔ اس کے بعد سرکار واپس پشاور کی طرف روانہ ہوئے۔ امجد بھائی اور راقم اپنے اپنے کام کی طرف واپس لوٹ گئے۔ بلاشبہ ایک بہترین، پروقار اور شفیق انسان ہیں سرکار۔ ہلکا پھلکا انداز گفتگو اور شگفتہ شگفتہ باتیں ہماری یادوں کے چمن میں ایک سنہری دوپہر کا اضافہ کر گئیں۔تو نہ آیا لایا لارا ، تیرا ککھ نہ رہے
شاہ جی کھانے کے وقت بھی "کچھ پردہ نشینوں" کو برقی رقعے بھیجنے میں مصروف رہے۔
چائے کے دوران بھی برقی رقعے۔۔۔ جوابات پر تیور بھی کچھ کھنچے ہوئے
جب ذرا برقی رقعوں کے درمیان وقفہ آیا۔ شاید دوسری طرف بیٹری ختم ہونے کو تھی تو ہم نے فوراً موقع سے فائدہ اٹھایا اور اپنے ساتھ تصویر بنوا لی
اسی فرصت کا امجد میانداد نے بھی فائدہ اٹھایا اور تصویر بنوا لی۔ تاکہ سند رہے
نوٹ: یہ روداد ہم نے ابھی ابھی تحریر کی ہے۔ لہذا کمیوں اور کوتاہیوں پر گرفت ذرا نرم رکھی جائے۔چائے کے دوران بھی برقی رقعے۔۔۔ جوابات پر تیور بھی کچھ کھنچے ہوئے
جب ذرا برقی رقعوں کے درمیان وقفہ آیا۔ شاید دوسری طرف بیٹری ختم ہونے کو تھی تو ہم نے فوراً موقع سے فائدہ اٹھایا اور اپنے ساتھ تصویر بنوا لی
اسی فرصت کا امجد میانداد نے بھی فائدہ اٹھایا اور تصویر بنوا لی۔ تاکہ سند رہے