آج صبح ساڑھے سات بجے سرجری کا وقت مقررہوا تھا۔ جب کہ کل شام نیورو سرجن سے میری بات ہوئی تھی۔ انہوں نے مجھے سرجری میں مضمر خطرات سے آگاہ کیا جن میں قوت گویائی کا نہ رہنا یا پھر خود سرجن کا ہاتھوں خدانخواستہ شریان مجروح ہوجانے کی صورت میں فوری موت یا پھر یادداشت کھو جانے کے خطرات شامل تھے۔ ڈاکٹر عنایت کا کہنا تھا کہ یہ آپریشن نیورو کا پیچیدہ ترین آپریشن ہے۔
پہلے تو دل کافی گھبرایا تاہم ڈاکٹر صاحب نے یہ بھی بتایا کہ آپریشن نہ کرنے کی صررت میں یہ تلوار لٹکتی رہے گی اور خدانخواستہ زرو سے کھانسے یا ہنسنے کی صورت میں بھی فوری موت کے ساٹھ فیصد سے زیادہ امکانات ہیں تاہم سرجری میں ایسا امکان محض ایک فیصد ہے۔ اس کے بعد انہوں نے میرے آگے کچھ کاغذات سامنے رکھے جنہیں تیزی سے پڑھ کر میں نے دستخط کر دئیے۔
رات کو انستھیزیا والے ایک صاحب آئے اور تفصیلی سوال جواب کیئے۔ صبح سات بجے گاؤن وغیرہ پہنا کر انہیں آپریشن تھیٹر کی طرف لے کر چلا۔ وہاں آخری لمحات پر امی بھی رو پڑیں بہنیں بھی تاہم مجھے اطمینان تھا کہ اللہ سب بہتر کرے گا۔ اطمینان نہ بھی ہوتا تو خود کو قابو میں رکھنا میرے لیے بے حد ضروری تھا۔ بس اس کے بعد میں نے دور راہداری میں سٹریچر جاتا دیکھا اس وقت میری آنکھیں ایک لمحے کو دھندلائيں مگر میں نے خود کو سنبھالا۔
پانچ گھنٹے پر محیط سرجری کچھ زیادہ ہی طویل ہوگئی اور شام کے چار بج گئے۔ وہاں سے انہیں آئی سی یو میں لایا گیا جہاں میں اپنے کزن کے ساتھ انہیں دیکھ کر آیا۔ اس کے بعد امی سے بڑی دو بہنیں، سارہ ردا اور میری ایک اور کزن انہیں ایک نظر دیکھ کر آئیں۔ الحمداللہ قوت گویائی بھی بحال تھی حسب عادت نرسوں پر حکم چلا رہی تھیں، سب کو پہچان بھی رہی تھیں اور ہاتھ پاؤں بھی حرکت میں تھے۔ دیکھ کر تسلی ہوئی اطمینان کی ایک لہر سی دوڑ گئی۔ اب پانچ ایک روز کے لیے ہسپتال میں رکھیں گے اور اس کے بعد انشااللہ گھر۔
آپریشن کے دوران ایک ایسا اعصاب شکن مرحلہ بھی آیا جہاں مجھے اپنے اعصاب چٹختے ہوئے محسوس ہوئے لیکن طوالت کے سبب اسے پھر کے لیے اٹھا رکھتا ہوں۔
تمام احباب کی دعازں، نیک تمناؤں اور ڈھارس بندھانے کا شکریہ۔ اس بارے میں فراغت ملتے ہی ایک تفصیلی مراسلہ لکھتا ہوں۔
والسلام،
محسن