پرسنل ہونے کے لیے پیشگی معذرت لیکن خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ آپ پاکستان کی وزیرِ تعلیم نہیں!
آپ تو تعلیم کے راستے سے پاکستان کو چائلڈ لیبر کی طرف لے کر جانے کے منصوبے بنا رہی ہیں۔ پرائمری کے بچے یعنی دس سے بارہ سال کے بچے سے کام کروانا چاہے وہ ٹیلنٹ اور ہنر کے نام پر ہی کیوں نہ ہو ظلم ہے!
آپ کا تجربہ اور مشاہدہ بھی اس سلسلے میں خام ہے۔ آج سے تین دہائیاں پہلے (یعنی آپ کی پیدائش سے بھی پہلے) سیالکوٹ کی فٹبال انڈسٹری میں چائلڈ لیبر کو ختم کرنے کا کام شروع ہوا تھا جو 1997ء میں اٹلانٹا ایگریمنٹ کے تحت قانونی ہو گیا اور اس میں فیفا، آئی ایل او اور سیالکوٹ چیمبر آف کامرس شامل تھے۔ لوگوں کے لیے یہ بہت منافع بخش کام تھا، چھوٹے چھوٹے بچوں کو گھروں میں فٹبال سینے پر لگا دیتے تھے جو کافی مہارت اور محنت طلب کام ہے اور ماں باپ اس سے پیسے کماتے تھے۔ آئی ایل او نے اس سلسلے میں فیکڑیوں کو بزورِ بازو بچوں سے کام لینے سے روکا، بچوں کے لیے ماڈل اسکول بنائے اور وہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کو کچھ رقم دینے کا بھی بندوبست کیا تا کہ لالچی اور ظالم ماں باپ کے منہ بھی بند ہوں۔ الحمد للہ سیالکوٹ کی فٹبال انڈسٹری سے چائلڈ لیبر کی عفریت بہت حد تک ختم ہو چکی ہے اب اگر کہیں ہے بھی تو گناہ کے طور پر چھپ چھپا کر۔ یہ پروگرام اتنا کامیاب ہوا کہ فیفا اور آئی ایل او نے اس کو رول ماڈل بنا دیا اور جالندھر، انڈیا کی فٹبال انڈسٹری کے مالکان اس کے مطالعے کے لیے سیالکوٹ آتے رہے۔
سیالکوٹ کی سرجیکل انڈسٹری میں ابھی بھی چائلڈ لیبر موجود ہے، چھوٹے چھوٹے بیچارے بچے، قینچیاں چاقو رگڑ رگڑ کر ہاتھ منہ کالے کیے ہوتے ہیں اور والدین کو یہ سیاہی نوٹوں کی چمک دکھائی دیتی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں جگہ جگہ ہمیں "ہنر" سیکھنے کے نام پر بچے "چھوٹوں" کے روپ میں کام کرتے نظر آتے ہیں، خدا ہر کسی کے بچے کو اس ظلم سے محفوظ رکھے!