محمد خرم یاسین
محفلین
جی ضرور ان شا اللہ ۔ اگر یہاں خطباتِ اقبال پر کوئی مستقل مرحلہ شروع ہوجائے تو ہم مقالے سے ہٹ کر اس بحث کا آغاز کرسکتے ہیں۔
جی ضرور ان شا اللہ ۔ اگر یہاں خطباتِ اقبال پر کوئی مستقل مرحلہ شروع ہوجائے تو ہم مقالے سے ہٹ کر اس بحث کا آغاز کرسکتے ہیں۔
یہاں جس بحث کا آغاز ہوا ہے اس کے ضمن میں بس یہی عرض کروں گا کہ علامہ محمد اقبال نے زندگی کے امور اور زندگی کے ارتقا وغیرہ کے حوالے سے جو مباحث ہیں ان کے مکینکل ہونے سے انکار کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم اشیا و افعال کا مطالعہ کرنے کے لیے انھیں اجزا میں تقسیم کرتے ہیں لیکن ساری تقسیم کا کل ہمیشہ مختلف ہوتا ہے ۔ زندگی کسی مکینکل سسٹم کی پیداوار نہیں ورنہ اس سے کئی قسم کے مسائل جنم لیں گے مثلاً یہ کہ زندگی عقل کو ارتقاء کی پیداوار گردانا جائے گا (جو کہ حیاتیات والے لوگوں کے مطابق درست بھی ہے )آپ انتظار نہ کیجئے۔ شروع کر دیجئے
ضرور! میں آزاد امیدوار ہوں۔ اپنے سوالات لے کر آوٴں گا۔ پینل پارٹی سے میری نہیں بنتی۔
ضرور! میں آزاد امیدوار ہوں۔ اپنے سوالات لے کر آوٴں گا۔ پینل پارٹی سے میری نہیں بنتی۔
عبداللہ محمد بھائی کا نام مکمل لکھئیے تاکہ بچنے نہ پائیں!محترم خرم یاسین
محترم عبد القیوم چودھری
محترم محمد احمد
محترمہ ہادیہ
محترمہ لاریب مرزا
محترمہ La Alma
محترم اے خان
محترم عبد اللہ
محترم خلیل الرحمن
آپ محترم صاحبان سے انٹرویو کی اجازت درکار ہے
یہ خیال میرے دل میں بھی تھا۔
مریم بہنا اور عدنان بھائی بھی خواہشمند تھے میں نے کچھ پس و پیش کے بعد اجازت دے دی ہے۔ آپ ان سے رابطہ فرمالیں تاکہ ایک ہی پینل میں شریک رہیں۔محترم خرم یاسین
محترم عبد القیوم چودھری
محترم محمد احمد
محترمہ ہادیہ
محترمہ لاریب مرزا
محترمہ La Alma
محترم اے خان
محترم عبد اللہ محمد
محترم خلیل الرحمن
آپ محترم صاحبان سے انٹرویو کی اجازت درکار ہے
خرم بھیا سعدیہ نے پوری انٹرویو ٹیم کی جانب سے ہی یہ مراسلہ لکھا ہے اور آپ آج تیار رہئیے ان شاء اللہ شام کو آپ کا انٹرویو شروع ہوگا.مر
مریم بہنا اور عدنان بھائی بھی خواہشمند تھے میں نے کچھ پس و پیش کے بعد اجازت دے دی ہے۔ آپ ان سے رابطہ فرمالیں تاکہ ایک ہی پینل میں شریک رہیں۔
جی بہترخرم بھیا سعدیہ نے پوری انٹرویو ٹیم کی جانب سے ہی یہ مراسلہ لکھا ہے اور آپ آج تیار رہئیے ان شاء اللہ شام کو آپ کا انٹرویو شروع ہوگا.
ان سے پوچھا تھا کل میں نے......نایاب بھائی کا انٹرویو لیا جائے، اس سے پہلے کہ پھر چھٹی پر چلے جائیں۔
محترم بھائی میں تو ان میں سے ہوں جنہیں عرف عام میں گلاں دا گالڑ کہا جاتا ہے ۔نایاب بھائی کا انٹرویو لیا جائے، اس سے پہلے کہ پھر چھٹی پر چلے جائیں۔
پرسنل ہونے کے لیے پیشگی معذرت لیکن خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ آپ پاکستان کی وزیرِ تعلیم نہیں!ضروری تو میٹرک اور اس سے اوپر والی کلاسز کے طلبا کے لیے قرار دوں گی تاہم پرائمری ایجوکیشن حاصل کر کے اس کے بعد بچے کو کوئی ہنر سکھانا یا اگر اس کے پاس کوئی ٹیلنٹ ہو تو اس کے حساب سے اسے کوئی معاشی کام لینا میرے نزدیک مستحسن ہے. تاہم ہمارے معاشرے کے لوگ اسے ظلم یا معاشرے کی روایات کے خلاف قرار دیں گے. بہر حال میں بہت سٹرانگلی ایگری کرتی ہوں اپنی اس تجویز سے اور بہت مشاہدے و تجربے کے بعد.
چائلڈ لیبر شاید ایک مختلف چیز ہے اور بچوں کے لیے ایسے مشغلے جو میری نظر میں ہیں اور چیز. میرا خیال ہے میں نے ایک یا دو گھنٹے کے کام کی بات کی تھی اور اس کی وجہ بھی محض یہ ہے کہ جن مڈل حصے کے بچوں کو میں جانتی ہوں ان کی تیزیاں آسمان کو چھوتی ہیں. ان تیزیوں کی کوئی سمت ہونی چاہئیے. (کام پر لگانا چاہئیے ان ٹَینوں کو) جس عمر میں روزے کی عادت ڈالے جانے کا کہا جا سکتا ہے اس عمر میں ایک گھنٹہ کوئی مشقت کے بغیر والا کام یا بہرحال جو بھی کام ہو اس کی عادت ڈالی جانی چاہئیے. میرے نزدیک ملک میں ویہلے لوگوں اور ہڈحرامی کا عنصر اس لیے زیادہ ہے کیونکہ اس بات پر فخر کیا جاتا ہے کہ ہماری نسلیں بیٹھ کر کھاتی ہیں اور ایک ایک بندہ آٹھ آٹھ کو کھلاتا ہے عمومی طور پر. میں نے ضروری صرف میٹرک کے بچوں کے لیے کہا تھا. میرا مشاہدہ یقینا خام ہے مگر کسی اور نے میری زندگی بھی تو نہیں گزاری.پرسنل ہونے کے لیے پیشگی معذرت لیکن خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ آپ پاکستان کی وزیرِ تعلیم نہیں!
آپ تو تعلیم کے راستے سے پاکستان کو چائلڈ لیبر کی طرف لے کر جانے کے منصوبے بنا رہی ہیں۔ پرائمری کے بچے یعنی دس سے بارہ سال کے بچے سے کام کروانا چاہے وہ ٹیلنٹ اور ہنر کے نام پر ہی کیوں نہ ہو ظلم ہے!
آپ کا تجربہ اور مشاہدہ بھی اس سلسلے میں خام ہے۔ آج سے تین دہائیاں پہلے (یعنی آپ کی پیدائش سے بھی پہلے) سیالکوٹ کی فٹبال انڈسٹری میں چائلڈ لیبر کو ختم کرنے کا کام شروع ہوا تھا جو 1997ء میں اٹلانٹا ایگریمنٹ کے تحت قانونی ہو گیا اور اس میں فیفا، آئی ایل او اور سیالکوٹ چیمبر آف کامرس شامل تھے۔ لوگوں کے لیے یہ بہت منافع بخش کام تھا، چھوٹے چھوٹے بچوں کو گھروں میں فٹبال سینے پر لگا دیتے تھے جو کافی مہارت اور محنت طلب کام ہے اور ماں باپ اس سے پیسے کماتے تھے۔ آئی ایل او نے اس سلسلے میں فیکڑیوں کو بزورِ بازو بچوں سے کام لینے سے روکا، بچوں کے لیے ماڈل اسکول بنائے اور وہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کو کچھ رقم دینے کا بھی بندوبست کیا تا کہ لالچی اور ظالم ماں باپ کے منہ بھی بند ہوں۔ الحمد للہ سیالکوٹ کی فٹبال انڈسٹری سے چائلڈ لیبر کی عفریت بہت حد تک ختم ہو چکی ہے اب اگر کہیں ہے بھی تو گناہ کے طور پر چھپ چھپا کر۔ یہ پروگرام اتنا کامیاب ہوا کہ فیفا اور آئی ایل او نے اس کو رول ماڈل بنا دیا اور جالندھر، انڈیا کی فٹبال انڈسٹری کے مالکان اس کے مطالعے کے لیے سیالکوٹ آتے رہے۔
سیالکوٹ کی سرجیکل انڈسٹری میں ابھی بھی چائلڈ لیبر موجود ہے، چھوٹے چھوٹے بیچارے بچے، قینچیاں چاقو رگڑ رگڑ کر ہاتھ منہ کالے کیے ہوتے ہیں اور والدین کو یہ سیاہی نوٹوں کی چمک دکھائی دیتی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں جگہ جگہ ہمیں "ہنر" سیکھنے کے نام پر بچے "چھوٹوں" کے روپ میں کام کرتے نظر آتے ہیں، خدا ہر کسی کے بچے کو اس ظلم سے محفوظ رکھے!
وہ کیوں۔۔۔ ؟انٹرویو پینل میں یہاں تک کا سفر اچھا رہا، میں آج سے پینل کا حصہ نہیں ہوں. شکریہ
کچھ مصروفیات کی وجہ سےوہ کیوں۔۔۔ ؟