ہمم لگتا ہے ادھار بند ہے دام لیجئے اور ایک کپ کم دودھ چینی کی چائے بھجوائیں پتی ذرا تیز ہو
ٹی ہاؤس کی فضا میں کیپسٹن سگریٹ اور سگار کا بل کھاتا ہوا دھواں گردش کرتا تھا ٹی ہاؤس کی سنہری چائے، قہوہ اور فروٹ کیک کی خوشبو بھی دل کو لبھاتی تھی
ہجرت کر کے آنے والوں کو پاک ٹی ہاؤس نے اپنی گود میں پناہ دی
کسی نے کہا میں انبالے سے آیا ہوں میرا نام ناصر کاظمی ہےکسی نے کہا میں گڑھ مکستر سے آیا ہوں میرا نام اشفاق احمد ہےکسی نے کہا میرا نام ابن انشاء ہے اور میرا تعلق لاہور سے ہےوہ بڑے چمکیلے اور روشن دن تھے ادیبوں سارا دن ٹی ہاؤس میں گزرتا تھاذیادہ تر ادیبوں کا تخلیقی کام اسی زمانے میں انجام پایا تھا ناصر کاظمی نے بہترین غزلیں اسی زمانے میں لکھیں اشفاق احمد نے گڈریا اسی زمانے میں لکھاشعر و ادب کا یہ تعلق پاک ٹی ہاؤس ہی سے شروع ہوا تھاصبح آٹھ بجے پاک ٹی ہاؤس میں کم لوگ آتے تھےناصر کاظمی سگریٹ انگلیوں میں دبائے، سگریٹ والا ہاتھ منہ کے ذرا قریب رکھے ٹی ہاؤس میں داخل ہوتا تھا اور اشفاق احمد سائیکل پر سوار پاک ٹی ہاؤس آتا تھےپاک ٹی ہاؤس میں داخل ہوں تو دائیں جانب شیشے کی دیوار کے ساتھ ایک صوفہ لگا ھوا تھا سامنے ایک لمبی میز تھی میز کی تینوں جانب کرسیاں رکھی ہوئی تھیں ناصر کاظمی، انتظار حسین، سجاد باقر رضوی، پروفیسر سید سجاد رضوی، قیوم نظر، شہرت بخاری، انجم رومانی، امجد الطاف امجد، احمد مشتاق، مبارک احمد وغیرہ کی محفل شام کے وقت اسی میز پر لگتی تھیاے حمید، انور جلال، عباس احمد عباسی، ھیرو حبیب، سلو، شجاع، ڈاکٹر ضیاء وغیرہ قائد آظم کی تصویر کے نیچے جو لمبی میز اور صوفہ بچھا تھا وہاں اپنی محفل سجاتے تھےڈاکٹر عبادت بریلوی اور سید وقار عظیم بھی وقت نکال کر پاک ٹی ہاؤس آتے تھےھر مکتبہ فکر کے ادیب، شاعر، نقاد اور دانشور اپنی الگ محفل بھی سجاتے تھےسعادت حسن منٹو، اے حمید، فیض احمد فیض، ابن انشاء، احمد فراز، منیر نیازی، میرا جی، کرشن چندر، کمال رضوی، ناصر کاظمی، پروفیسر سید سجاد رضوی، استاد امانت علی خان، ڈاکٹر محمد باقر، انتظار حسین، اشفاق احمد، قیوم نظر، شہرت بخاری، انجم رومانی، امجد الطاف امجد، احمد مشتاق، مبارک احمد، انورجلال، عباس احمد عباسی، ہیرو حبیب، سلو، شجاع، ڈاکٹر ضیاء، ڈاکٹر عبادت بریلوی، سید وقار عظیم وغیرہ پاک ٹی ہاؤس کی جان تھےساحر لدھیانوی بھارت جا چکا تھا اور وہاں فلمی گیت لکھ کر اپنا نام امر کر رھا تھا شاعر اور ادیب اپنے اپنے تخلیقی کاموں میں مگن تھے ادب اپنے عروج پہ تھا اس زمانے کی لکھی ھوئی غزلیں، نظمیں، افسانے اور مضامین آج کے اردو ادب کا قیمتی سرمایہ ہیں اس زمانے کی بوئی ہوئی ذرخیز فصل کو ھم آج کاٹ رہے ہیں