محفل چائے خانہ

ایک دلچسپ واقعہ جوش صاحب سے منسوب ہے کہ "ایک مرتبہ جوش ملیح آبادی اپنے گھر میں چند بے تکلف دوستوں کے ساتھ اپنی محبوباؤں کا ذکر کر رہے تھے ذکر کرتے کرتے وہ اتنے جذباتی ہو گئے کہ ان کی آنکھیں بھیگ گئیں اسی دوران جوش صاحب کی بیگم کمرے میں داخل ہوئیں اور رونے کا سبب پوچھا ؟ تو جوش صاحب نے کہا کہ کچھ نہیں،بس بیٹھے بیٹھے اماں یاد آ گیئں"
 
recent.jpg


1942ء کا ذکر ہے ظفر چودھری اور اختر شیرانی مرحوم اسلامیہ کالج، ریلوے روڈ لاہور، عرب ہوٹل میں بیٹھے گپ شپ میں مصروف تھے کہ سانولے رنگ کا ایک نوجوان داخل ہوا، اختر مرحوم کو سلام کر کے بڑے ادب سے ان کے قریب بیٹھ گیا، اور ایک کاغذ اختر مرحوم کی طرف بڑھا دیا اختر نے فورا" ہی جیب سے قلم نکالا اور اصلاح شروع کر دی اختر کو اس نوجوان کی غزل میں ایک شعر سخت ناپسند تھا، اس لیے یہ حذف کر کے اس کی جگہ ایک اور شعر لکھا پھر اپنے شاگرد کو حذف کردہ شعر کی اغلاط سے واقف کیا اور اس کی جگہ جو شعر لکھا تھا وہ پڑھا:

اے دوست! ہم نے ترک محبت کے باوجود
محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی
اختر کے اس نوجوان شاگرد کا نام ناصر کاظمی تھا اور مذکورہ شعر ناصر کاظمی کی غزل میں استاد کا عطیہ تھا اتفاق کی بات یہ ہے کہ یہی شعر اس غزل کی جان قرار پایا
 
چائے حاضر ہے جناب لیکن سلسلہ منقطع نہیں ہونا چاہیے۔

strong-tea.JPG
لیجئے جناب آپ کی محبت کی حلاوت سے بھرپور چائے پیتے ہی طعبیت مائل ہو ئی
شعر موزوں ہو گیا
عرض ہے
مدہوش ہے زاہد تری اک جنبشِ ابرو سے
اے ساقی تری ساقی گری کا انداز اور ہے
 
چائے پینے بلایا ہے شہزاد بھیا نے؟ شکریہ شکریہ، بہت مزیدار چائے تھی۔ اب میں جائوں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
یا کھانا بھی کھلائیں گے ;)
کھانے میں صرف کیک پر گزارہ کرنا پڑے گا :)
کبھی گوجرانوالہ آئیں یاد کریں گے
میرے شعر پر تبصرہ نہیں کیا
 
میری عدم سے آخری ملاقات دوپہر کے وقت انار کلی میں ہوئی وہ اپنی بیگم کے ساتھ انار کلی میں خریداری کے لئے جا رہے تھے آگے آگے بیگم صاحبہ تھیں اور پیچھے عدم بڑے فرماں بردار قسم کے شوہر کی طرح جا رہے تھے اب ان کی صحت بری طرح گر چکی تھی وہ سوکھ کر بالکل ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گئے تھے البتہ چہرے پر ویسی ہی معصومیت تھی وہ اپنی بیگم کے پیچھے آہستہ آہستہ قدم اٹھا کر یوں چل رہے تھے جیسے کوئی خلا نورد چاند کی زمین پر چل رہا ہو مجھے جو شرارت سوجھی میں نے عدم کے کوٹ کا دامن کھینچ کر کہا "زن مرید عدم جا رہا ہے" پھر کیا تھا اتنا کہنے کی دیر تھی جیسے بارود میں آگ لگ گئ عدم نے شور مچانا شروع کر دیا بھگت کبیر کی طرح سر راہے رونے لگے آس پاس کے لوگ جمع ہو گئے میں دوسری طرف منہ پھیر کر کھڑا ہو گیا لوگوں نے یہ سمجھا بڑے میاں کی جیب کٹ گئ ہے جو رو رہے ہیں کسی نے پوچھا بڑے میاں کیا بات ہے کیوں رو رہے ہو ان کی بیگم نے بھی پوچھا کیا بات ہے کیوں آپ شور مچا رہے ہیں عدم صاحب نے روتے ہوئے کہا وہ بدمعاش قمر یورش مجھے کہتا ہے "عدم زن مرید جا رہا ہے" عدم کے منہ سے یہ فقرے سن کر تمام لوگ ھنسنے لگے بیگم کہنے لگیں "ہو دفع کرو اس بات کو آپ کو شرم نہیں آتی ایسی بات کہتے ہوئے" عدم بکھر گئے وہ بضد تھے کہ قمر یورش نے مجھے زن مرید کیوں کہا یہ ہوتا کون ہے ایسی بات کہنے والا پھر ان کی بیگم بڑی مشکل سے عدم کو سمجھا بجھا کر انہیں اپنے ساتھ لے گئیں اس کے بعد میری عدم سے ملاقات نہ سکی
ایک روز احمد ندیم قاسمی صاحب نے بتایا کہ عدم نے شراب چھوڑ دی یہ بیسویں صدی کا معجزہ تھا مجھے یقین نہ آتا تھا کہ عدم صاحب اب چائے پی رہے ہیں
پھر ایک روز خالد احمد نے بتایا عدم نے ڈاڑھی رکھ لی ہے اور آج کل کثرت سے نمازیں پڑھ رہے ہیں اچانک ایک روز اخبار میں پڑھا کہ وہ اس فانی دنیا سے انتقال فرما گئے ہیں
یہ خبر مجھ پر ایٹم بم کی طرح گری میں کبھی کبھی عدم کو چڑانے کے لئے کہتا تھا
اب شہر میں جی نہیں لگتا
عدم جی! عدم آباد چلو
اور وہ واقعی عدم آباد چلے گئے دور افق کے اس پار ستاروں سے بھی آگے جہاں جا کر کوئی واپس نہیں آتا میں آج انہیں یاد کر کے اکیلا اداس بیٹھا ہوں
(مزدور افسانہ نگار قمر یورش کا سید عبدالحمید عدم کے بارے میں لکھا گیا خاکہ)
شمشاد
 
Top