میری عدم سے آخری ملاقات دوپہر کے وقت انار کلی میں ہوئی وہ اپنی بیگم کے ساتھ انار کلی میں خریداری کے لئے جا رہے تھے آگے آگے بیگم صاحبہ تھیں اور پیچھے عدم بڑے فرماں بردار قسم کے شوہر کی طرح جا رہے تھے اب ان کی صحت بری طرح گر چکی تھی وہ سوکھ کر بالکل ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گئے تھے البتہ چہرے پر ویسی ہی معصومیت تھی وہ اپنی بیگم کے پیچھے آہستہ آہستہ قدم اٹھا کر یوں چل رہے تھے جیسے کوئی خلا نورد چاند کی زمین پر چل رہا ہو مجھے جو شرارت سوجھی میں نے عدم کے کوٹ کا دامن کھینچ کر کہا "زن مرید عدم جا رہا ہے" پھر کیا تھا اتنا کہنے کی دیر تھی جیسے بارود میں آگ لگ گئ عدم نے شور مچانا شروع کر دیا بھگت کبیر کی طرح سر راہے رونے لگے آس پاس کے لوگ جمع ہو گئے میں دوسری طرف منہ پھیر کر کھڑا ہو گیا لوگوں نے یہ سمجھا بڑے میاں کی جیب کٹ گئ ہے جو رو رہے ہیں کسی نے پوچھا بڑے میاں کیا بات ہے کیوں رو رہے ہو ان کی بیگم نے بھی پوچھا کیا بات ہے کیوں آپ شور مچا رہے ہیں عدم صاحب نے روتے ہوئے کہا وہ بدمعاش قمر یورش مجھے کہتا ہے "عدم زن مرید جا رہا ہے" عدم کے منہ سے یہ فقرے سن کر تمام لوگ ھنسنے لگے بیگم کہنے لگیں "ہو دفع کرو اس بات کو آپ کو شرم نہیں آتی ایسی بات کہتے ہوئے" عدم بکھر گئے وہ بضد تھے کہ قمر یورش نے مجھے زن مرید کیوں کہا یہ ہوتا کون ہے ایسی بات کہنے والا پھر ان کی بیگم بڑی مشکل سے عدم کو سمجھا بجھا کر انہیں اپنے ساتھ لے گئیں اس کے بعد میری عدم سے ملاقات نہ سکی
ایک روز احمد ندیم قاسمی صاحب نے بتایا کہ عدم نے شراب چھوڑ دی یہ بیسویں صدی کا معجزہ تھا مجھے یقین نہ آتا تھا کہ عدم صاحب اب چائے پی رہے ہیں
پھر ایک روز خالد احمد نے بتایا عدم نے ڈاڑھی رکھ لی ہے اور آج کل کثرت سے نمازیں پڑھ رہے ہیں اچانک ایک روز اخبار میں پڑھا کہ وہ اس فانی دنیا سے انتقال فرما گئے ہیں
یہ خبر مجھ پر ایٹم بم کی طرح گری میں کبھی کبھی عدم کو چڑانے کے لئے کہتا تھا
اب شہر میں جی نہیں لگتا
عدم جی! عدم آباد چلو
اور وہ واقعی عدم آباد چلے گئے دور افق کے اس پار ستاروں سے بھی آگے جہاں جا کر کوئی واپس نہیں آتا میں آج انہیں یاد کر کے اکیلا اداس بیٹھا ہوں
(مزدور افسانہ نگار قمر یورش کا سید عبدالحمید عدم کے بارے میں لکھا گیا خاکہ)
شمشاد