لیجے سراج الدین ظفر بھی آھمکے ۔۔۔
گلا کھنکارا اور مخمور آنکھوں کو ہتھیلیوں کی پشست سے مسل کر انہیں سرخ انگارہ کیا۔
اور گویا ئے ۔۔
’’ مری طریقتِ رندی سمجھ سکا نہ کوئی
کہ زہد عام تھا یاں پر کسی وبا کی طرح ‘‘
۔۔۔
خالد احمد اپنی کرسی سے اٹھے اور ’’ اوے ےے۔۔ میرا یار ۔۔ ‘‘ کہہ کر گلے لگ گئے۔۔
-----------------------------------------
جوجو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
بچے چائے ہے کہ پائے ،، ارے بھئی جلدی بھجوا
( بابا جانی نے آواز لگائی )
جی جی ۔۔ جی ۔۔آئی ابھی آئی۔۔ کہتے ہوئے جوجو نے نعمت خانے کی بغلی کھڑکی سے جھانکا
آنکھوں ہی آنکھوں میں چائے کی پیالیوں کا تخمینہ لگانے لگی۔۔
کچھ دیر میںچائے آئی ۔۔۔ ۔ مگر ایک پیالی زن ن ن ن۔۔
سے نعمت خانے کی کھڑکی کی طرف گئی اور پاکستانی عوام کے خوبوں کی طرح چکنا چور ہوگئ۔۔
۔۔۔۔ ( جوجو نے عجلت بلکہ اپنی مشہور غائب دماغی سے کام لیتے ہوئے شکر کی بجائے نمک کو چائے کا ’’ لاذہ ‘‘ ( لذت کا جوہر ) بنا دیا تھا )