اس بابت
نایاب بھائی کی رائے اہم ہوگی۔
محترم بھائی
السلام علیکم
سدا خوش ہنستے مسکراتے رہیں آمین
یہ " نفخ " کبھی کبھی غبارے کو اتنا پھلا دیتی ہے کہ پھٹنے پر ریزے شمار کرنا ناممکن ٹھہرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
الحمدللہ.........
مرشد آپ کہیے......کیسے ہیںِ؟
ایک سوال: انسان بے نیازی کی کس حد تک جا سکتا ہے؟ اور کیوں کر؟
میرے محترم بھائی ۔
"اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی "
یہ حقیقتیں " مکتب و مدرسے " کی بجائے " زندگی کی صحرا " میں جھلستے انسان پر عیاں ہوتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
اللہ الصمد ۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ بے نیاز ہے ۔
جب صفت " بے نیازی " اللہ کی شان ہے تو اللہ کے خلق کردہ انسان کی صفت بے نیازی کی حد کیا ہو گی ۔ ؟
اللہ کا " رحمان و رحیم " ہوتے جملہ کائنات کی ضروریات کو اپنے پیدا کردہ اسباب سے پورا کرنا اور اپنے پیغام توحید پر عمل کرنے اور نہ کرنے والے کو یکساں نعمتوں سے نوازنا ۔ اور جسے چاہے عزت دینا اور جسے چاہے ذلیل کر دینا ۔ کسی کو بے حساب رزق سے نواز دینا اور کسی کو اک لقمہ کی تلاش میں ہلکان کر دینا ۔۔ اس صفت بے نیازی کی کوئی حد نہیں ۔۔۔۔۔
انسان ہی چونکہ " کل سے بچھڑا جزو " ہوتے اللہ کانائب ہے ۔ تو اس کی بے نیازی کی بھی کوئی حد نہیں ۔۔
کسی مصیبت کے وقت انسان کا اپنے نفس پرقابو رکھنا ۔ میدان جنگ میں ڈٹے رہنا ۔ گفتگومیں رازداری کا خیال رکھنا ۔نفس کوعیش کوشی سے محفوظ رکھنا ۔ ناجائز طریقے سے شہوانی خواہشات کی تکمیل سے بچنا ۔ شرافت نفس کا خیال رکھنا۔ ۔غصے کی حالت میں نفس کو قابو میں رکھنا ہی علائق دنیا کی لذات سے بے نیازی کی دلیل اور کسی بھی قسم کے لالچ اور زندگی و موت کے خوف و خدشے سے بے نیاز رہنا ہی انسانی بے نیازی کی آخری حدود ہیں ۔ اس سے آگے اللہ کی بے نیازی کی حدود شروع ہوجاتی ہیں ۔
انسانی بے نیازی کی حقیقت " صبر و شکر " میں پنہاں ہے ۔ ۔۔۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات طیبہ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ آپصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زندگی میں کتنے مصائب وآلام سہے، مکّے والوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اور آپ کے ساتھیوں کا بائیکاٹ کردیا ،نتیجۃًآپ نے پورے قبیلے کے ساتھ شعب ابی طالب میں پناہ لی۔اپنے ساتھیوں کے ساتھ تین سال تک اس میں صعوبتیں برداشت کیں، طائف میں پتھر کھاتے اپنا خون بہایا ان تمام مصیبتوں کےباوجودآپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صبرکرتے ہوئے لوگوں کی زیادتیوں سے بے نیاز رہتے اپنے مشن پر قائم رہے ۔