محمد عدنان اکبری نقیبی
لائبریرین
سن بلوغیت تک اور اس کے بعد اپنی رائے کا اظہار کرتے رہیں۔احباب ایک سوال ہے. والدین کو کب تک اور کس حد تک بچوں کی زندگی کے فیصلے کرنے چاہیے یا اپنی مرضی شامل کرتے رہنا چاہیے؟؟؟
سن بلوغیت تک اور اس کے بعد اپنی رائے کا اظہار کرتے رہیں۔احباب ایک سوال ہے. والدین کو کب تک اور کس حد تک بچوں کی زندگی کے فیصلے کرنے چاہیے یا اپنی مرضی شامل کرتے رہنا چاہیے؟؟؟
صرف رائے کا اظہار کریں یا باقاعدہ حکم جاری کریں جس کا انکار ناراضگی بھی ہو سکتا ہے؟؟سن بلوغیت تک اور اس کے بعد اپنی رائے کا اظہار کرتے رہیں۔
بھائی یہ تو اولاد کی تربیت ہر منحصر کہ وہ رائے کی قدر قیمت جانے اور اُسے حکم کا درجہ سمجھ کر اپنے اوپر لاگو کرے۔صرف رائے کا اظہار کریں یا باقاعدہ حکم جاری کریں جس کا انکار ناراضگی بھی ہو سکتا ہے؟؟
دراصل اس سے آگے رویے تشکیل پاتے ہیں. اس پر تفصیل سے لکھنا تھا لیکن مصروفیت کے سبب نہ ہو پایا. سوچا ضمنا سوال کر لیا جائےبھائی یہ تو اولاد کی تربیت ہر منحصر کہ وہ رائے کی قدر قیمت جانے اور اُسے حکم کا درجہ سمجھ کر اپنے اوپر لاگو کرے۔
ماں باپ کو ایک عمر تک اختیار ہے ۔ بچے جب بڑے ہوں تو ان کے فیصلوں میں رکاوٹ پیدا کرنے کا اختیار والدین کو نہیں ہے۔ اس لیے والدین کی ذمداری ہے کہ بچپن سے ہی صحیح تربیت کریں، تاکہ بچے بڑے ہو کر غلط فیصلے لینے والے نہ بنیں۔احباب ایک سوال ہے. والدین کو کب تک اور کس حد تک بچوں کی زندگی کے فیصلے کرنے چاہیے یا اپنی مرضی شامل کرتے رہنا چاہیے؟؟؟
اٹھارہ سال تکاحباب ایک سوال ہے. والدین کو کب تک اور کس حد تک بچوں کی زندگی کے فیصلے کرنے چاہیے یا اپنی مرضی شامل کرتے رہنا چاہیے؟؟؟
سن بلوغیت کے کئی معنی نکل سکتے ہیںسن بلوغیت تک اور اس کے بعد اپنی رائے کا اظہار کرتے رہیں۔
صرف رائےصرف رائے کا اظہار کریں یا باقاعدہ حکم جاری کریں جس کا انکار ناراضگی بھی ہو سکتا ہے؟؟
جب تک آپ قانونی طور پر ان کے سرپرست ہیں۔احباب ایک سوال ہے. والدین کو کب تک اور کس حد تک بچوں کی زندگی کے فیصلے کرنے چاہیے یا اپنی مرضی شامل کرتے رہنا چاہیے؟؟؟
ہم یا وہ؟؟جب تک آپ قانونی طور پر ان کے سرپرست ہیں۔
ظاہر ہے کہ آپ اپنے بچے کے سرپرست ہونگے۔ہم یا وہ؟؟
قانون معاشرتی ضرورت اور مسائل کے مدنظر ہی بنائے جاتے ہیں۔ پاکستان کے قانون میں بچے کے سرپرست کی جو حدود و شرائط مقرر کی گئی ہیں ظاہر ہے ان کے مطابق ہی چلنا ہوگا اور تمام حقوق و فرائض انہی خطوط پر طے ہونگے۔اور آپ احباب بار بار قانونی طور پر کی بات کر رہے ہیں. میں معاشرتی ضرورت کے اعتبار سے پوچھ رہا ہوں بالخوص پاکستان کے کنٹکسٹ میں.
انڈیا اور پاکستان میں والدین کا مزاج کچھ الگ طرح کا ہے۔ یہاں بیشتر والدین چاہتے ہیں اپنی وفات تک بچے صرف ان کی بات سنتے رہیں۔اور آپ احباب بار بار قانونی طور پر کی بات کر رہے ہیں. میں معاشرتی ضرورت کے اعتبار سے پوچھ رہا ہوں بالخوص پاکستان کے کنٹکسٹ میں.
لیکن ابھی تو میں خود بچہ ہوں میں اسی تناظر میں پوچھ رہا تھا خیر.ظاہر ہے کہ آپ اپنے بچے کے سرپرست ہونگے
بات آپ کی درست ہے. اور اسلامی قانون میں سن بلوغت تک ہی کا احکام ہیں. لیکن یہاں کی روایات مختلف ہیں. یہاں تعامل کچھ اور کہتا ہے...قانون معاشرتی ضرورت اور مسائل کے مدنظر ہی بنائے جاتے ہیں۔ پاکستان کے قانون میں بچے کے سرپرست کی جو حدود و شرائط مقرر کی گئی ہیں ظاہر ہے ان کے مطابق ہی چلنا ہوگا اور تمام حقوق و فرائض انہیں خطوط پر طے ہونگے
درستانڈیا اور پاکستان میں والدین کا مزاج کچھ الگ طرح کا ہیں۔ یہاں بیشتر والدین چاہتے ہیں اپنی وفات تک بچے صرف ان کی بات سنتے رہیں۔
بچہ پیدائش سے لے کر جوانی تک مشکلوں میں گھرا رہتا ہے
تعلیم میں اسے کیئریر چوس کرنے نہیں دیتے ، کاروبار یا پروفیشن میں بھی اپنی مرضی کو دخل دیتے ہیں اور شادی کا حال تو سب کے سامنے ہے۔ اگر لڑکا یا لڑکی کبھی اپنی پسند سے کرلے تو کبھی قبول نہیں کرتے ۔
سب والدین ایسے نہیں ہوتے ، لیکن اکثر ہوتے ہیں۔
اگر آپ کے والدین آپ کے اب تک قانونی طور پر سرپرست ہیں اور آپ ان کے Dependent، تو ظاہر ہے آپ کو ان کی اطاعت کرنا ہوگی۔ ماسوائے اس کے معاملہ قانونی حدود سے تجاوز کرے۔لیکن ابھی تو میں خود بچہ ہوں میں اسی تناظر میں پوچھ رہا تھا خیر.
اگر ریاستی قوانین معاشرتی رواج سے ہم آہنگ نہیں تو ظاہر ہے تب بھی فوقیت قانون ہی کی ہونگی، ورنہ آپ مشکل میں پڑ سکتے ہیں۔بات آپ کی درست ہے. اور اسلامی قانون میں سن بلوغت تک ہی کا احکام ہیں. لیکن یہاں کی روایات مختلف ہیں. یہاں تعامل کچھ اور کہتا ہے...
یہ ایک بہت ہی وسیع موضوع ہے۔ یہاں پر چند اشارے ہی دئے جاسکتے ہیں:احباب ایک سوال ہے. والدین کو کب تک اور کس حد تک بچوں کی زندگی کے فیصلے کرنے چاہیے یا اپنی مرضی شامل کرتے رہنا چاہیے؟؟؟
ویسے ماں اور ساس کو چاہیے کہ اپنے بچوں کی تربیت ایسے کریں کہ بعد میں دخل اندازی کی زیادہ ضرورت نہ پڑے۔۔ سوری ٹو سئے کہ مجھے اپنے بیٹے کی پرورش میں بے جا دخل اندازی بالکل پسند نہیں، چاہے وہ میری امی کی طرف سے ہو یا میری ساس کی طرف سے۔۔چائیے تو یوں کہ جب پہلا بچہ پیدا ہو تو بجے کے ساتھ ساتھ بجے کی ماں کی کو بھی ٹریننگ دی جائے۔ اور یہ کام لڑکی کی ماں یا ساس کو چاہیے کہ اس کی مکمل ٹریننگ کرے۔
جب ایک بجے کی تربیت ٹھیک ہو جائے گی تو باقی بچوں کو اچھا ماحول مل جائے گا اور اس طرح ایک سلسلہ چل پڑے گا