دوسری ملاقات
چھ دن پانی پہ ہچکولے لینے کے بعد میں ایک بار پھر نارفاک کی بندرگاہ پر تھا۔
جیٹی سے چل کر باہر آیا تو اندھیرا پھیل چکا تھا۔ ادھر اُدھر سے ٹیکسی کا نمبر حاصل کرنے کی کوشش کی۔ آخر
ابن سعید ہی کا نمبر ملایا۔ معلوم ہوا کہ اب وہ چھَڑے نہیں رہے بلکہ بمع اہل و عیال مقیم ہیں۔
اب تو ان سے طویل ملاقات مناسب نہیں۔ بالخصوص اس ٹائم کہ جب ویک اینڈ کا آغاز ہو رہا ہو۔۔۔میں نے سوچا۔
اگلے دن ملاقات کا پروگرام طے کیا۔۔ اور رات نارفاک کی سڑکیں ماپنے کی ٹھانی۔
صبح ہم دونوں یونیورسٹی کے ایک پارک میں تھے۔ سعود کو پہلے سے کہیں زیادہ خوش اور پرسکون پایا۔ اپنے عزیزوں سے دوری یا قربت بہت فرق ڈالتی ہے۔ پانی پہ گزرے دنوں سے مجھے اس کا خوب اندازہ ہے۔
ایک بار پھر میں نے سعود کے تحقیقی کام کو سمجھنے کی کوشش کی۔ سعود تو جلد ہی گہرائی میں اتر گئے۔ میں حسب سابق وہیں سطح پر ہچکولے لیتا رہا۔
دنوں، ہفتوں سمندر میں جہاز رانی کے بعد ایک دلچسپ مشغلہ بھری گلیوں اور سڑکوں پر چہل قدمی ہے۔ سمندر میں گزرے دن ایسے ہوتے ہیں جیسے تبدیلی وقت سے آزاد ایک ہی طویل دن ہو۔ جو آپ کسی غار میں رہ کر آئے ہیں۔
وآچ، کھانا، سونا۔۔۔ وآچ، کھانا، سونا۔۔۔
اس بار تو سمندر اتنا شدید تھا کہ سوتے وقت بستر سے گرنے کا خدشہ رہتا تھا۔
سعود بھائی کے ذریعہ محفل کی مانو
عائشہ عزیز سے بھی فون پر گفتگو ہوئی۔ مجھے تیز بولنے کی عادت ہے۔ جس سے مخاطب الکلام کو فون پر شکایت ہوتی ہے۔ لیکن امید ہے ، مانو کے کان تیز ہونگے۔
سعود کے ساتھ ان کے گھر کا رخ کیا۔ ایک بار پھر دعوت کا اہتمام تھا۔ جو شوہر اتنا سگھڑ ہوسکتا ہے، ان کی بیگم کتنی سگھڑ ہونگی یہ ان کے بنائے کھانوں کی لذت سے واضح تھا۔ ان کی ننھی گڑیا سے بھی ملاقات ہوئی۔ ایک عرصہ بعد اتنی کم سن بچی سے خالص اردو منفرد لہجے میں سن کر بہت کیوٹ لگا۔۔۔ "ارے آپ اور کھاؤ نا!۔۔۔"
میں سعود بھیا اور ان کی فیملی کے چار گھنٹے کھا چکا تھا۔ لہذا واپسی کا رخ کیا۔
پھر وہی سمندر۔۔ اور ہچکولے۔