سیما علی
لائبریرین
سارے جن بھوت نکل آئے ہیںجب میں زندہ تھا تو میں بھی یہاں سے ڈرتا ڈرتا ہی گزرتا تھا۔" خواتین فی الفور "حد رفتار" کو پار کر گئیں۔
سارے جن بھوت نکل آئے ہیںجب میں زندہ تھا تو میں بھی یہاں سے ڈرتا ڈرتا ہی گزرتا تھا۔" خواتین فی الفور "حد رفتار" کو پار کر گئیں۔
بہت شکریہجی درست فرمایا !
ایک سنسنان ویران عمارت کے پاس سے تین خواتین گزر رہی تھیں۔ وہ عمارت آسیبی شہرت رکھتی تھی۔ خوف سے بچنے کے لئے خواتین نے ایک راہگیر سے درخواست کی کہ ہم آپ کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں ۔ ہمیں اس عمارت سے خوف سا آ رہا ہے۔ اُن صاحب نے کہا کہ ضرور چلیے۔ دراصل یہ عمارت ہی کچھ ایسی ہے۔
"جب میں زندہ تھا تو میں بھی یہاں سے ڈرتا ڈرتا ہی گزرتا تھا۔" خواتین فی الفور "حد رفتار" کو پار کر گئیں۔
میں نے بھی مِلتا جُلتا پڑھا تھا، ایک صاحب کرایہ کا مکان تلاش کر رہے تھے۔ ایک مکان کا دروازہ کھٹکھٹایا اور باہر نکلنے والے صاحب سے پُوچھا، 'سُنا ہے اِس مکان کا پورشن کرائے کے لیے خالی ہے'۔ بولے، 'ہاں، خالی ہے'۔ کرایہ کے طلب گار فرد نے قدرے تشویش سے کہا، 'مگر یہ بھی سُن رکھا ہے کہ یہاں بھوت پریت اور بدروحوں کا بسیرا ہے'۔ جواباً وہ 'صاحب' یُوں گویا ہوئے، 'مُجھے کیا خبر ہو میاں! مجھے تو خُود مرے ہوئے پچاس سال ہو چُکے۔'ایک ایسا قبر والا لطیفہ بھی ہے۔ کہ
ایک آدمی آدھی رات کو قبرستان کے پاس سے گزرا تو دیکھا کہ ایک شخص قبر کے اوپر بیٹھا ہے۔۔۔۔ اس نے کہا میاں! اتنی رات کو قبر پر بیٹھے ہو۔ ڈر نہیں لگتا؟
قبر والے آدمی نے جواب دیا ۔ڈر کیسا! اندر گرمی لگ رہی تھی سو باہر آ کر لیٹ گیا۔۔۔
میں نے بھی مِلتا جُلتا پڑھا تھا، ایک صاحب کرایہ کا مکان تلاش کر رہے تھے۔ ایک مکان کا دروازہ کھٹکھٹایا اور باہر نکلنے والے صاحب سے پُوچھا، 'سُنا ہے اِس مکان کا پورشن کرائے کے لیے خالی ہے'۔ بولے، 'ہاں، خالی ہے'۔ کرایہ کے طلب گار فرد نے قدرے تشویش سے کہا، 'مگر یہ بھی سُن رکھا ہے کہ یہاں بھوت پریت اور بدروحوں کا بسیرا ہے'۔ جواباً وہ 'صاحب' یُوں گویا ہوئے، 'مُجھے کیا خبر ہو میاں! مجھے تو خُود مرے ہوئے پچاس سال ہو چُکے۔'
ایک دھاگہ بنا لیں۔۔۔ جن بھوتوں کے لطائف۔۔۔۔ لیکن یہ ڈر باز رکھے ہے کہ لوگ اپنے ذاتی کرتوت بھی جن بھوتوں کے سر منڈھ کر سنانے لگ پڑیں گے۔ان تین لطیفوں سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستانیوں کا دماغ اس سلسلے میں کافی ذرخیز ہے۔
اتنا زرخیز کہ مرنے کے بعد بھی لطائف کی فصلیں کاشت کرتا رہتا ہے!!!ان تین لطیفوں سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستانیوں کا دماغ اس سلسلے میں کافی ذرخیز ہے۔
ایک دھاگہ بنا لیں۔۔۔ جن بھوتوں کے لطائف۔۔۔۔ لیکن یہ ڈر باز رکھے ہے کہ لوگ اپنے ذاتی کرتوت بھی جن بھوتوں کے سر منڈھ کر سنانے لگ پڑیں گے۔
یعنی میں اپنے اوتار کے ساتھ اس دھاگے کی بنیاد نہ رکھوں یا پھر وہاں تبصرہ کرنے سے گریز کروں ورنہ شاعری والے صنعت تضاد لیکر آجائیں گے اور ہماری دانائی کا مذاق بنائیں گے۔اسی دھاگے کے نام میں کچھ ترمیم کر لیں۔
"محفل کے جن بھوت معہ جن بھوتوں کے لطائف ۔ بے تصویر"
اتنا زرخیز کہ مرنے کے بعد بھی لطائف کی فصلیں کاشت کرتا رہتا ہے!!!
کوئی بات نہیں۔۔۔ایک دھاگہ بنا لیں۔۔۔ جن بھوتوں کے لطائف۔۔۔۔ لیکن یہ ڈر باز رکھے ہے کہ لوگ اپنے ذاتی کرتوت بھی جن بھوتوں کے سر منڈھ کر سنانے لگ پڑیں گے۔
ہو سکتا مطلب؟کوئی بات نہیں۔۔۔
ہوسکتا ہے اصلی والے جن بھوت انہیں سے کچھ سیکھ کر نئے آئیڈیاز کے ساتھ ڈرانے لگیں!!!
اچھا۔۔۔ہو سکتا مطلب؟
میاں ہوتا ہی یہی ہے۔
کتنی صفائی سے خود کو باہر کیا ہے۔۔۔ تالیاں تو ہمیں بجانی چاہییں۔۔۔۔۔اچھا۔۔۔
تو ایسے ہیں ہمارے محفلین!!!
ارے آپ کا اوتار بھی۔ میں تو اسے خلائی مخلوق سمجھاتھا (پُرانے معنوں میں )یعنی میں اپنے اوتار کے ساتھ
بنیادیں نہ ہلائیں۔ بس صرف نام تبدیل کرنا ہے۔س دھاگے کی بنیاد نہ رکھوں یا پھر وہاں تبصرہ کرنے سے گریز کروں
ورنہ شاعری والے صنعت تضاد لیکر آجائیں گے
ور ہماری دانائی کا مذاق بنائیں گے۔
نوازش، نوازش، شکریہ!!!کتنی صفائی سے خود کو باہر کیا ہے۔۔۔ تالیاں تو ہمیں بجانی چاہییں۔۔۔۔۔
ہوہوہوہوہو۔۔۔ پرانے معنوں میں۔۔۔۔ارے آپ کا اوتار بھی۔ میں تو اسے خلائی مخلوق سمجھاتھا (پُرانے معنوں میں )
بنیاد آپ اٹھا دیں۔۔۔ کوچہ جن بھوتاں ۔۔۔ لطیفوں والابنیادیں نہ ہلائیں۔ بس صرف نام تبدیل کرنا ہے۔
ویسے اوتار کی تصویر کی خیر ہے۔ جیسے بزرگ کہا کرتے ہیں کہ پانی کشتی کے باہر رہے تو خیر ہے ۔ بس اندر نہ آنے پائے۔
ادہم۔۔۔ وحشی۔۔۔۔چلیے اسی بہانے کوئی نہ کوئی صنعت تو لگے گی ۔ ورنہ جی ڈی پی کو تھامے تھامے خان صاحب کے کاندھے دکھنے لگے ہیں۔
کیا خبر۔۔۔ کسی دن پروگرام بن ہی جائے۔۔۔ ابھی تو ظہیراحمدظہیر بھائی کی ہجو فی البحر الطویل والثقیل جاری ہے۔۔محفل کے شاعروں میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ آپ کا مذاق اُڑانے کا سوچیں۔ سوچنے سے پہلے بھی ایک ہزار بار سوچیں گے سب۔
یہ تو ہمارا ٹریڈ مارک ہے اپنی غلطی دوسروں کے سر ڈالیں اور چین کی بنسی بجاؤایک دھاگہ بنا لیں۔۔۔ جن بھوتوں کے لطائف۔۔۔۔ لیکن یہ ڈر باز رکھے ہے کہ لوگ اپنے ذاتی کرتوت بھی جن بھوتوں کے سر منڈھ کر سنانے لگ پڑیں گے۔
بالکل جاری ہے ۔ ایک مصرع ہوگیا ہے اور ابھی اسی پر غورو خوض کیا جارہا ہے ۔ کچھ الفاظ اس مصرع میں ایسے آگئے ہیں کہ اردو محفل جن کی ابھی متحمل نہیں ہوسکتی۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ ان الفاظ کا اردو نعم البدل سرے سے موجود ہی نہیں ہے ۔ مارواڑی زبان میں شاید ہو ۔ کسی سے پوچھتا ہوں ۔کیا خبر۔۔۔ کسی دن پروگرام بن ہی جائے۔۔۔ ابھی تو ظہیراحمدظہیر بھائی کی ہجو فی البحر الطویل والثقیل جاری ہے۔۔
ایک سنسنان ویران عمارت کے پاس سے تین خواتین گزر رہی تھیں۔ وہ عمارت آسیبی شہرت رکھتی تھی۔ خوف سے بچنے کے لئے خواتین نے ایک راہگیر سے درخواست کی کہ ہم آپ کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں ۔ ہمیں اس عمارت سے خوف سا آ رہا ہے۔ اُن صاحب نے کہا کہ ضرور چلیے۔ دراصل یہ عمارت ہی کچھ ایسی ہے۔
"جب میں زندہ تھا تو میں بھی یہاں سے ڈرتا ڈرتا ہی گزرتا تھا۔" خواتین فی الفور "حد رفتار" کو پار کر گئیں۔
ایک ایسا قبر والا لطیفہ بھی ہے۔ کہ
ایک آدمی آدھی رات کو قبرستان کے پاس سے گزرا تو دیکھا کہ ایک شخص قبر کے اوپر بیٹھا ہے۔۔۔۔ اس نے کہا میاں! اتنی رات کو قبر پر بیٹھے ہو۔ ڈر نہیں لگتا؟
قبر والے آدمی نے جواب دیا ۔ڈر کیسا! اندر گرمی لگ رہی تھی سو باہر آ کر لیٹ گیا۔۔۔
میں نے بھی مِلتا جُلتا پڑھا تھا، ایک صاحب کرایہ کا مکان تلاش کر رہے تھے۔ ایک مکان کا دروازہ کھٹکھٹایا اور باہر نکلنے والے صاحب سے پُوچھا، 'سُنا ہے اِس مکان کا پورشن کرائے کے لیے خالی ہے'۔ بولے، 'ہاں، خالی ہے'۔ کرایہ کے طلب گار فرد نے قدرے تشویش سے کہا، 'مگر یہ بھی سُن رکھا ہے کہ یہاں بھوت پریت اور بدروحوں کا بسیرا ہے'۔ جواباً وہ 'صاحب' یُوں گویا ہوئے، 'مُجھے کیا خبر ہو میاں! مجھے تو خُود مرے ہوئے پچاس سال ہو چُکے۔'