طرب کے لمحات ہوں یا غم کا کوئی موسم ہو۔ انسان کو پرانے تعلقات، پرانے دوست ہمیشہ یاد آتے ہیں۔ چاہے کتنی ہی لڑائیاں ہو کسی سے یا کس قدر ہی اختلافات ہوں۔ ربط نہ رہے تو وقت سب پر دھول ڈال دیتا ہے۔ اور ایسے میں کبھی جب یاد آتی ہے توسب اختلافات لڑائیاں بےمعنی معلوم ہوتے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے ان کی کچھ حقیقت ہی نہ تھی۔ حقیقت تھی تو اس کی جو اس وقت موجود تھا۔ جس سے تعلق تھا۔ جو چلا گیا۔ جس کے نقش پاابھی تلک موجود ہیں۔ کبھی پرانی راہو ں کی کھوج میں نکلو تو قدم قدم انسان رکتا ہے۔ قدم قدم یادوں کی ایک کہکشاں نظر آتی ہے۔
ایسے ہی سالگرہ کے موقع پر پرانوں کو یاد کرنا محفلین کا طریق رہا ہے۔
پچھلی بار محفلین کو یاد کرنے میں پہل
محمداحمد بھائی نے کی تھی۔ سو اس بار ہم کوشش کر دیکھتے ہیں۔
رکھ رہے ہیں ہم محبت نفرتوں کے درمیاں
آنے والوں کو ہمارے ہنر یاد آئیں گے
رفتہ رفتہ بھول جائیں گے سفر کی داستاں
مدتوں لیکن ہمیں کچھ راہ گزر یاد آئیں گے
کچھ نام ہم نے لکھ دیے ہیں۔ اور کچھ آپ احباب کے لکھنے کو چھوڑ رہے ہیں۔ لیکن اس بات کا خیال ضرور رکھیے کہ یہ سالگرہ کے موقع پر کھولا گیا دھاگہ ہے۔ سو گلے شکوے شکایتیں کسی اور دن کے لئے اٹھا رکھیے۔