اچھا بھئی سعود میں تو اب گھر کو نکلتا ہوں۔ آپ کو بتایا تھا ناں کہ بڑے کی بہو آئی ہوئی ہے۔ اسے کائی چیز کی جرورت نہ ہو، وہ کہاں گاؤں میں ڈھونڈتی پھرے گی۔ اور عذاب میری گھر والی پر آئے گا۔
ارے میں یہ بتانے آیا تھا کہ نبیل بھیاء کے لیے گدا اور رضائی بھجواتا ہوں۔ اور دینو کاکا سے کہہ کے انگیٹھی بھی بجھواتا ہوں۔ اور ہاں نبیل بھیاء آپ جو کہہ رہے تھے ناں وہ اشتہار لگانے والی بات، تو لگا ہی دیں، لیکن اس میں ہمرا اور سعود کا پھوٹو بھی چھپنا چاہیے۔ ہمیں بڑا شوق ہے اپنا چھپا ہوا پھوٹو دیخنے کا۔ چاچی زینو دیخ کر تو مارے حسد کے مرنے پر اتر آئیں گی۔ ہاہاہاہاہاہا
بھیاء یہ ان کو قصور نئیں ہے۔ یہ سارا قصور ز سے شروع ہونے والے ناموں کا ہوے ہے۔ مجھے تو حیرت ہے یہ بڑی بی اندر آ کیسے گئی تھیں۔ ضرور طالوت کہیں ادھر ادھر ہوئے ہوں گے۔
ارے بھائی کیا ہو رہا ہے۔۔۔۔میں ذرا اپنے دادا جی کے ساتھ پھنس گیا تھا۔۔۔اس دن جو ملک صاحب سے رولا پڑا تو دل کو لگا بیٹھے بوڑھے میاں ان کو لے کے ساتھ والے گاؤں
گیا تھا دل میں تکلیف تھی میں تو سمجھا اب بچ بچاؤ مشکل ہے مگر وہ سیفو ہے نا ساتھ گاؤں کا وہ عطاری کا لونڈا کہتے ہیں شہر سے پڑھ کر آیا ہے سوئیاں لگائیں دادا جی کے تو وہ چنگے بھلے ہو کے اٹھ بیٹھے اور ہوش میں اتے ہی اس سیفو پر برس پڑے کہ اب یہ شہر کے لونڈے ہمارا علاج کریں گے۔۔۔۔بس بھیا بڑی سر دردی ہیں یہ بوڑھے میاں بھی۔
اوہو تو یہ معاملہ ہے۔ تبھی تو میں کہوں کہ وہاں کیوں لے کر گئے۔ انگریجی پڑھ لینے سے کوئی آسمان میں چھید تھوڑی نہ کر لیتا ہے۔ ارے اپنا بنگالی ڈاکٹر قریب میں ہی رہتا ہے وہیں چلے گئے ہوتے۔ سستی کی سستی فائدے مند کی فائدے مند۔ اپنا صبح دو گولی ٹھنڈے پانی سے پلا دیا شام کو گرم پانی سے۔ اور چار چھ خوراک میں بھلے چنگے۔
الے یہاں تو بجرگوں کی مھپل لگی ہے۔
دادا جان دادا جان آپ ہمیں توئی تھانی چھنائیں
اوئے اوئے یہاں تو چھوتے دادا بھی ہیں۔
چھوتے دادا ہم آپ تی گود میں سر لگ کر لیٹیں گے۔
اور بڑے دادا آپ ہمیں تھانی چھنائیں
ارے بزگوار آپ لوگوں کو ترقی نا پسند ہے بھئی ہم تو سیدھی کہتے ہیں خدا واسطے کی
بھئی اگر پڑھ لیا تو اچھا کیا ہمیں شعور ا گیا نا مگر تم لوگ وہی جاہلوں کی طرح ہمارے پیچھے ہی پڑے رہنا ہر وقت اپنے بڑے ہونے کا
رعب جماتے ہوئے کسی لونڈے کی تعریف نہ کرنا
بھئی پڑھ لکھ کر شعور ایا ہے ہمارے گاؤں میں اور اب تو وہ مچھیرا راجو بھی اپنے بیٹے کو لایا تھا میرے پاس کہ اسے شہر ہوسٹل میں داخل کرا لاؤں
کچھ پڑھ لکھ جائے یہاں تو سارا دن بس غلیل ہے کبھی کسی سے لڑ رہا ہے کبھی کسی کی دھی کو چھیڑ رہا ہے۔۔۔۔
راجو کو بھی بس یہی آخری رستہ نظر آیا کہ پڑھ لکھ جائے گا تو سدھر جائے گا مگر تم لوگ مانے ہی نہیں دے رہے کہ وقت تبدیل ہو رہا ہے۔۔۔
بس وہی گھسی پٹی راگنی الاپے جا رہے ہو الاپے جا رہے ہو۔۔۔۔اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ اب تو پڑھے لکھوں کا دور ہے اب تو ایک دسویں پاس سے کم کو سرکار نوکری بھی نہیں دیتی۔۔۔دنیا چاند پر پہنچ گئی ہے اور ہمارے بزرگ اسی حقے کے دھویں میں مست و مسرور۔۔۔
یہی سیکھا ہے پڑھ لکھ کر کہ بجرگوں سے جبان لڑاؤ۔ کسی کو کھاتر میں نہ لاؤ۔ یہی پڑحایا ہے ماسٹر صاحب نے۔
ہم نے بھی پڑھا ہے ایسی بات نہیں ہے۔ درجہ 3 تک پڑھا ہے اور جنگ نامہ ساہنامہ دیوان گلسن جبانی یاد ہے۔ نہ پہلے کی 3 تک کی پڑھائی نہ اب کی 13 تک کی۔ کلپو لیٹر سے ہساب لگاتے ہو ہم لوگ پونے دو سوا تین ساڑھے آٹھ یہ سب پہاڑے بھر بھروّا یاد کر رکھے تھے جب آپ کی عمر کے تھے۔ ہمرے چھوٹے بھائی جھنکن ان کو تو 100 کا پہاڑہ بھی یاد تھا۔
ابھی ایک سوال پوچھ لوں تو آگے گیلا پیچھے پیلا ہو جائے۔