سین خے
محفلین
https://www.superrecognisers.com/
اب یہ ٹیسٹ ذرا دیکھیں۔ کچھ افراد کو قدرتی طور پر چہرے یاد رہ جاتے ہیں چاہے عمر کی وجہ سے کتنی ہی تبدیلی کیوں نہ آگئی ہو۔
قرآن شریف کی آیت میں جو دو عورتوں کو گواہ بنانے کی بات کی گئی ہے تو وہاں عورت کی گواہی کو آدھا تو کہیں نہیں کہا گیا۔ دو عورتوں کو گواہ بنانے کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ ایک کے بھولنے کی صورت میں دوسری یاد کرادے۔ یعنی گواہی مکمل ہی ہے صرف بھولنے کے خدشے کے باعث دوسری عورت کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اب بھولنے کی وجہ وہی ہوسکتی ہے جو اوپر بہنا نے بیان کی کہ چونکہ خواتین کی اکثریت کی پریکٹس میں ایسے کاروباری حساب کتاب نہیں ہوتے، اور زیادہ تر دلچسپی کا بھی فقدان ہوتا ہے تو بہت ممکن ہے کچھ عرصہ بعد فریقین کے درمیان جو معاہدے کی شرائط طے پائی تھیں، وہ ان کے ذہن سے نکل جائیں۔ اگر قرآن شریف نے بھولنے والی بات کا ذکر نہ کیا ہوتا تو آدھی گواہی سمجھی جاسکتی تھی۔ اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی عورت خود کاروباری ہے اور ان رموز کو اسی طرح سمجھتی ہے تو پھر اسکی اکیلی گواہی بھی کافی ہونی چاہئے۔ اور یہ تو بہرحال سامنے کی بات ہے کہ اس آیت کا سیاق و سباق صرف لین دین کے معاملات سے متعلق ہے۔ کہیں بھی فوجداری یا دیگر معاملات کا ذکر نہیں۔ یعنی دیگر معاملات میں عورت مرد کی گواہی میں کوئی امتیاز نہیں۔ اور لین دین کے معاملات ہی ایسے ہوتے ہیں کہ جن میں بھولنے کا امکان ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔
اقتباس آپ نے میرے مراسلے کا لیا ہے لیکن میں سمجھ نہیں پایا کہ میرے مراسلے کی کسی بات سے اختلاف کیا ہے یا تائید کی ہے۔ وضاحت فرمادیں تو مشکور ہوں گا۔ایک بھول گئی توٓ باقی بچی ایک۔
پھر یہ نکتہ صرف اور صرف مستقبل کے سودوں کے بارے میں ہے، جو کہ ٓکنٹریکٹ لاء یعنی باہمی رضامندی کا قانون کہلاتا ہے۔ سول یعنی دیوانی یا کرمنل یعنی مجرمانہٓ معاملات میں قرآن حکیم عورت اور مرد کی تخصیص ٓنہیں کرتا، اور گواہوں کی تعداد کا تعین بھی دیوانی یا مجرمانہ معاملات کے لحاظ سے کیا گیا ہےٓ۔ کنٹریکٹ لاء ایک انتہائی نچلے درجے کا لاء ہے جس کو دیوانی قوانیں یا مجرمانہ قوانین کے سے نیچے سمجھا جاتا ہے۔ کوئی بھی کنٹریکٹ لاء دیوانی یا مٓجرمانہ قوانین کے خلاف نہیں ہوسکتا۔ لہذا ٓکسی سودے کے باہمی رضا مندی کے معاہدے کے گواہوں کوپھیلا کر عورتوں کو نصف ثابت کرنے کی کوشش بے کار اور جآہلانہ ہے۔ اس لئے کے اس کا اطلاق بالکل بھی دوسرے یعنی ٓدیوانی اور تعزیری معامٓلات میں نہیں ہوسکتا۔
والسلام
مجھے نہیں پتہ کہ کس حدیث میں ناقصات العقل کے الفاظ بیان ہوئے ہیں اور اس کی سند کیا ہے، لیکنبلکہ یہ الفاظ صرف ایک حقیقت بیان کرنے کے لئے تھے کہ اللہ رب العزت نے عورت کی تخلیق میں جو ایک فطری نرمی و نزاکت ، لچک اور برداشت رکھی ہے اس کی وجہ سے مجموعی طور پر خواتین کی عقل و دین میں کچھ کمی واقع ہو جاتی ہے۔
اس بات کا کوئی ثبوت دماغ کی ریسرچ سے ثابت ہو تو پیش کریں۔بلکہ یہ الفاظ صرف ایک حقیقت بیان کرنے کے لئے تھے کہ اللہ رب العزت نے عورت کی تخلیق میں جو ایک فطری نرمی و نزاکت ، لچک اور برداشت رکھی ہے اس کی وجہ سے مجموعی طور پر خواتین کی عقل و دین میں کچھ کمی واقع ہو جاتی ہے۔
آٓپ کی تائید کی ہے بھائی۔اقتباس آپ نے میرے مراسلے کا لیا ہے لیکن میں سمجھ نہیں پایا کہ میرے مراسلے کی کسی بات سے اختلاف کیا ہے یا تائید کی ہے۔ وضاحت فرمادیں تو مشکور ہوں گا۔
بہترین! یعنی خواتین کو کمتر ثابت کر ہی دیااللہ رب العزت نے عورت کی تخلیق میں جو ایک فطری نرمی و نزاکت ، لچک اور برداشت رکھی ہے اس کی وجہ سے مجموعی طور پر خواتین کی عقل و دین میں کچھ کمی واقع ہو جاتی ہے۔
مذہبی مجبوری ہے۔بہترین! یعنی خواتین کو کمتر ثابت کر ہی دیا
مجھے نہیں پتہ کہ کس حدیث میں ناقصات العقل کے الفاظ بیان ہوئے ہیں اور اس کی سند کیا ہے، لیکن
میرا نہیں خیال کہ حقیقی دنیا سے ہی سینکڑوں سٹڈیز میں اکٹھے کیے گئے ڈیٹا کو نظر انداز کر کے آپ اس کے بالکل الٹ بات کو "ایک حقیقت" قرر دینے پر اصرار کر سکتے ہیں۔
محترم بھائی! یہ دو جمع دو چار والی بات صرف قرآن پر ہی صادق آ سکتی ہے۔ کیونکہ قرآن کی گواہی اللہ خود دے رہا ہے کہ اس کے الفاظ میں کوئی ردوبدل نہیں کر سکتا۔دو جمع دو چار جیسی سادہ سی بات ہے کہ جب ایک صحیح ترین حدیثِ مبارکہ میں نبی اکرم ﷺ نے ہماری انتہائی قابلِ احترام ماؤں ، بہنوں ، بیویوں اور بیٹیوں کے بارے میں ’’ناقصات العقل والدین‘‘ کے الفاظ استعمال فرما لئے تو اصولی طور پر عقل کے مقابلے میں قرآن و حدیث کی برتری تسلیم کرنے والوں کے لئے اس باب میں بحث کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔
اگرعورت ناقص العقل ہے تو پھر کامل العقل سے کیسے آگے بڑھ گئی؟ جو مثالیں آپ نے پیش کی ہیں اس سے تو ثابت ہوتا ہے کہ عقل کے لحاظ سے عورت مردوں سے کسی طور کمتر نہیں۔ یہاں دلائل تو ناقص العقلی کے ہونے چاہیے تھے تاکہ کنفیوژن دور ہو جاتی۔آپ کسی بھی میدانِ عمل میں جھانک کر دیکھ لیں آپ کو بہت سی خواتین بے شمار مردوں سے آگے نظر آئیں گی۔ کیا عارفہ کریم مرد تھی؟ کیا سمینہ بیگ کی طرح سب پاکستانی مرد ایورسٹ سر کر چکے ہیں؟ اسی طرح دینی معاملات کو پیشِ نظر رکھ کر جائزہ لیں تو آپ کو ان گنت خواتین آج بھی اور تاریخ میں بھی نظر آئیں گی جو تقوٰی اور طہارت میں اس مقام پر پہنچ چکی ہیں جہاں پہنچتے بے شمار مردوں کے پر جلتے ہیں۔ خود نبی اکرم ﷺ کی زوجۂ مطہرہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بطورِ معلمۂ دین وہ مقام رکھتی تھیں جو ان گنت صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو بھی حاصل نہیں تھا۔ حضرت رابعہ بصریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مقامِ ولایت اس درجے پر تھا جو بے شمار مردوں کی بساط سے باہر تھا۔
حق بات طعنہ کیسے ہو سکتی ہے۔ اگر کسی کو کامل یقین ہو کہ یہ الفاظ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے ہی ادا ہوئے ہیں تو عورت کو ناقص العقل کہنا غلط کیسے ہو سکتا ہے۔ پھر تو ایک بیٹے کو اپنی ماں کو بھی ناقص العقل قرار دینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرنا چاہیے۔ناقصات العقل والدین‘‘ کے جملے کو قدم قدم پر عورت کو طعنے دینے کے لئے استعمال کرے، تو یہ کہاں کی دینداری ہے
حق بات طعنہ ہوسکتی ہےحق بات طعنہ کیسے ہو سکتی ہے۔
بخاری شریف کی یہ روایت ہے، متعلقہ جملہ بالڈ کیا ہے:مجھے نہیں پتہ کہ کس حدیث میں ناقصات العقل کے الفاظ بیان ہوئے ہیں اور اس کی سند کیا ہے
کسی ایک چیز میں کسی دوسرے سے کم ہونا ’’کمتر‘‘ ہونے کی دلیل نہیں ہوتی۔ چھری کی دھار تیز اور وزن کم ہے، ہتھوڑی کا وزن زیادہ اور دھار کند ہے۔ نہ چھری ہتھوڑی سے کمتر ہے، نہ ہتھوڑی چھری سے۔ دونوں کے مقاصدِ تخلیق میں فرق ہے۔ یہی بات میں نے اپنی پوری پوسٹ میں واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ اگر کسی میں کوئی ایک کمی ہے تو کسی دوسری صفت میں بہتری بھی ہو سکتی ہے، اس سے عمومی طور پر کمتر ہونا ثابت نہیں ہوتا۔بہترین! یعنی خواتین کو کمتر ثابت کر ہی دیا
حصولِ علم کے پانچ ذرائع ظاہری ہیں، جنہیں حواسِ خمسہ (فائیو سنسز) کہا جاتا ہے۔ ایک ذریعہ باطنی ہے جسے عقل کہتے ہیں جو بنیادی طور پر مذکورہ ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کو پراسس کر کے نتائج اخذ کرتی ہے۔ حواسِ خمسہ کی بھی ایک حد ہے اور عقل کی بھی۔ جہاں ان تمام ذرائع کی حدود اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہیں اس سے آگے رہنمائی کا ذریعہ وحیِ اِلٰہی ہے۔ جنت، دوزخ، مرنے کے بعد کی زندگی، میدانِ حشر، پل صراط، یہ تمام چیزیں وحی سے معلوم ہوئی ہیں۔میرا نہیں خیال کہ حقیقی دنیا سے ہی سینکڑوں سٹڈیز میں اکٹھے کیے گئے ڈیٹا کو نظر انداز کر کے آپ اس کے بالکل الٹ بات کو "ایک حقیقت" قرر دینے پر اصرار کر سکتے ہیں۔
اس کی بنیاد یہی مذکورہ بالا تفصیل تھی جس میں کسی قسم کا کوئی تعصب، جانبداری یا مباحثے میں جیت کی خواہش شامل نہیں تھی۔ ہاں! اگر کوئی اپنی عقل کو خدانخواستہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فراہم کردہ معلومات (یعنی وحی سے) برتر سمجھتا ہو تو اس سے بحث کی ضرورت ہی نہیں رہتی، کیونکہ بحث کے اصولوں میں ہی فرق آگیا۔ لہذا پہلے تو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ عقلِ انسانی برتر ہے یا عقلِ الٰہی جس کا ظہور ہم پر وحی کے ذریعے ہوا ہے۔دو جمع دو چار جیسی سادہ سی بات ہے کہ جب ایک صحیح ترین حدیثِ مبارکہ میں نبی اکرم ﷺ نے ہماری انتہائی قابلِ احترام ماؤں ، بہنوں ، بیویوں اور بیٹیوں کے بارے میں ’’ناقصات العقل والدین‘‘ کے الفاظ استعمال فرما لئے تو اصولی طور پر عقل کے مقابلے میں قرآن و حدیث کی برتری تسلیم کرنے والوں کے لئے اس باب میں بحث کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔
جی بالکل! مجبوری ہےمذہبی مجبوری ہے۔
تفصیل اس کی یہ ہے جو کہ سابقہ پوسٹ میں بھی موجود ہے:جی بالکل! مجبوری ہے۔
اس کی بنیاد یہی مذکورہ بالا تفصیل تھی جس میں کسی قسم کا کوئی تعصب، جانبداری یا مباحثے میں جیت کی خواہش شامل نہیں تھی۔ ہاں! اگر کوئی اپنی عقل کو خدانخواستہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فراہم کردہ معلومات (یعنی وحی سے) برتر سمجھتا ہو تو اس سے بحث کی ضرورت ہی نہیں رہتی، کیونکہ بحث کے اصولوں میں ہی فرق آگیا۔ لہذا پہلے تو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ عقلِ انسانی برتر ہے یا عقلِ الٰہی جس کا ظہور ہم پر وحی کے ذریعے ہوا ہے۔دو جمع دو چار جیسی سادہ سی بات ہے کہ جب ایک صحیح ترین حدیثِ مبارکہ میں نبی اکرم ﷺ نے ہماری انتہائی قابلِ احترام ماؤں ، بہنوں ، بیویوں اور بیٹیوں کے بارے میں ’’ناقصات العقل والدین‘‘ کے الفاظ استعمال فرما لئے تو اصولی طور پر عقل کے مقابلے میں قرآن و حدیث کی برتری تسلیم کرنے والوں کے لئے اس باب میں بحث کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔
وجہِ اختلاف صرف اتنی ہے کہ کچھ مکاتیبِ فکر کے نزدیک، صحیح احادیث ہم تک من و عن اسی طرح درست حالت میں پہنچی ہیں جس طرح قرآن کی آیات، لہذا ان کے غلط ہونا کسی طور ممکن نہیں ۔ جبکہ بعض کے نزدیک اس بات کا امکان موجود ہے کہ کوئی روایت یا قول غلطی سے ہمارے نبؐی سے منسوب ہو گیا ہو۔ ان کا نقطہء نظر یہ ہے کہ اگرچہ ہمارے اسلاف نے انتہائی محنت اور احتیاط سے احادیث کو اکٹھا کیا، ان کی صحت کو پرکھا اور ایک مستند نظام کے تحت صحیح اور ضعیف احادیث کو الگ الگ کیا۔ لیکن وہ بھی انسان تھے اور بشری کمزوریوں سے مبرا نہیں تھے۔ لہٰذا جس بات پر اختلافات جنم لینا شروع کر دیں تو حقیقت جاننے کے لیے اس پر تحقیق کرلینے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے۔ اور ایسا کرنے والوں کو منکرانِ احادیث کی صف میں لا کھڑا کرنا بھی درست نہیں۔
بات ہو رہی تھی کلی اور مجموعی کے اعتبار سے۔ اگر کسی جنس میں کسی صفت کا کسی دوسرے کے مقابلے میں کلی طور پر زیادہ ہونا ثابت کیا جائے، تو اس کا مطلب ہو گا کہ اس جنس کے ہر ہر فرد میں دوسرے کے ہر ہر فرد سے زیادہ وہ صفت پائی جاتی ہے۔ جبکہ مجموعی طور پر کسی جنس میں کسی صفت کے زیادہ ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کے اکثر افراد میں دوسرے کے اکثر افراد کی بہ نسبت وہ صفت زیادہ پائی جاتی ہے۔ خواتین کی فہم و فراست اور بلند ہمتی کی جو مثالیں میں نے پیش کیں ان کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ حدیثِ مبارکہ کے اس جملہ کا اطلاق خواتین پر کلی طور پر نہیں ہوتا بلکہ بے شمار خواتین ان گنت مردوں سے اس صفت میں کہیں زیادہ آگے ہو سکتی ہیں۔ البتہ یہ جملہ مجموعی حیثیت میں ذکر کیا گیا ہے کہ اس جنس کے افراد میں مجموعی طور پر اس صفت میں کچھ کمی پائی جاتی ہے۔اگرعورت ناقص العقل ہے تو پھر کامل العقل سے کیسے آگے بڑھ گئی؟ جو مثالیں آپ نے پیش کی ہیں اس سے تو ثابت ہوتا ہے کہ عقل کے لحاظ سے عورت مردوں سے کسی طور کمتر نہیں۔ یہاں دلائل تو ناقص العقلی کے ہونے چاہیے تھے تاکہ کنفیوژن دور ہو جاتی۔
کسی ایک چیز میں کسی دوسرے سے کم ہونا ’’کمتر‘‘ ہونے کی دلیل نہیں ہوتی۔ چھری کی دھار تیز اور وزن کم ہے، ہتھوڑی کا وزن زیادہ اور دھار کند ہے۔ نہ چھری ہتھوڑی سے کمتر ہے، نہ ہتھوڑی چھری سے۔ دونوں کے مقاصدِ تخلیق میں فرق ہے۔ یہی بات میں نے اپنی پوری پوسٹ میں واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ اگر کسی میں کوئی ایک کمی ہے تو کسی دوسری صفت میں بہتری بھی ہو سکتی ہے، اس سے عمومی طور پر کمتر ہونا ثابت نہیں ہوتا۔
مپھر سائنسی تحقیقات و تجزیات سے تو آپ واقف ہی ہیں، آج کچھ اور کل کچھ۔ ابھی حال ہی میں ایک بہت بڑے امریکی تحقیقاتی ادارے نے کولیسٹرول کے بارے میں جو نئی تحقیق پیش کی اور سابقہ نصف صدی سے کولیسٹرول کے حوالے سے کی گئی تحقیقات کو رد کیا وہ ایک ادنیٰ سی مثال ہے۔