محمداحمد
لائبریرین
موسم کی کچھ سمجھ نہیں آرہی اس وقت
بادل چھائے ہوئے ہیں۔
جب بادل چھائے ہوئے ہیں تو موسم اچھا ہی ہوا۔
موسم کی کچھ سمجھ نہیں آرہی اس وقت
بادل چھائے ہوئے ہیں۔
مگر گرمی میں وہ کمی محسوس نہیں ہورہی۔جب بادل چھائے ہوئے ہیں تو موسم اچھا ہی ہوا۔
مگر گرمی میں وہ کمی محسوس نہیں ہورہی۔
اب تو ہم مراسلوں میں بھی میں میں لکھنے لگے بکریوں کی یاد میں۔یوں کہہ لو کہ ۔
زبان یار من بکری و من میں میں نمی دانم ۔
مزاج پر بادل چھائے ہیں؟موسم کی کچھ سمجھ نہیں آرہی اس وقت
بادل چھائے ہوئے ہیں۔
ہاں نا ۔ بالکل۔ اسی لیےتو لکھا کہ ۔ایک تو رومانوی ناول، اوپر سے ایک ایرانی کا، پھر فارسی میں اور پھر ایک خاتون کا لکھا ہوا۔
اس میں تو تہہ در تہہ رومان نظر آ رہا ہے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ نہ آپ کا مزاج ناولوں کا ہے اور نہ رومان کا۔
زیک ! آپ نے رومانی ناول آخری دفعہ کب پڑھااور انگلش تھا یااردو ؟مزاج شدید طور پر رومانیت کی طرف مائل ہے لیکن مرتے کیا نہ کرتے ابھی سارا دن دونوں نے دفتر کا کام کرنا ہے۔ بیگم کو میسج کیا تو اس نے پارکنگ میں کافی کی آفر کر دی
اور جب بادل چھانے کے بعد برس بھی حائیں تو موسم بہت اچھا ہو گا۔جب بادل چھائے ہوئے ہیں تو موسم اچھا ہی ہوا۔
محض زبان کے ذائقے کے لیے پڑھ رہے ہیں ۔ویسے مدتوں بعد ایسا پڑھنا خوشگوار لگا
اور جب بادل چھانے کے بعد برس بھی حائیں تو موسم بہت اچھا ہو گا۔
فکر نہ کریں پڑھ کر مزاج ہو جائے گامزاج تو رومانی نہیں ہمارا آج کل، البتہ ایک رومینٹک ناول پڑھ رہے ہیں ۔
کافی عرصہ ہوا۔ شاید چار پانچ سال۔ انگریزی ہی تھا یقیناً۔ آجکل رومانوی فلموں اور ڈراموں پر گزارا ہے@زیک ! آپ نے رومانی ناول آخری دفعہ کب پڑھااور انگلش تھا یااردو ؟
گانا گاتا ہوا آئے گابپھر نے کی بات نہ کرو چائے کی پیالی میں طوفان آجائے گا۔
بکریاں ہیں اور بکریوں کی یادیں ہیں ۔۔۔۔اب تو ہم مراسلوں میں بھی میں میں لکھنے لگے بکریوں کی یاد میں۔
اب تو ہم مراسلوں میں بھی میں میں لکھنے لگے بکریوں کی یاد میں۔
پرانی بکریاں اور مینگنیاں —-بکریاں ہیں اور بکریوں کی یادیں ہیں ۔۔۔۔
زیک آپ تو بہت بہترین حس مزاح رکھتے ہیں ۔۔۔بہت دنوں بعد اتنی بے ساختہ ہنسی آئی ۔۔پرانی بکریاں اور مینگنیاں —-
بس یادیں
یادیں
یادیں رہ جاتی ہیں
یاد پڑتاہے کہ جینز اور گٹار والا امریکہ میں ہی ہے ۔پرانی بکریاں اور مینگنیاں —-
بس یادیں
یادیں
یادیں رہ جاتی ہیں
یہ بکریاں حالیہ بکریاں ہیں ۔پرانی بکریاں اور مینگنیاں —-
بس یادیں
یادیں
یادیں رہ جاتی ہیں
عید آ رہی ہےاس لیے ابھی یادیں نہیں بنیں
بکرے بھی ہیں۔عید آ رہی ہے
میں نے کراچی کی گرمی کے لئے بنگ اے آئی سے ایک نظم لکھوائی ہے۔
This was my prompt:
Write a poem complaining hot summer of karachi and remember the days of spring while there were flowers everywhere and the atmosphere was calm and great.
Oh Karachi, city of relentless sun,
Where summer's blaze has just begun.
The scorching winds, they roar and hiss,
A fiery touch, a sweltering kiss.
Gone are the days of gentle spring,
When blossoms danced and birds would sing.
The air was cool, the skies so clear,
Nature's whisper, sweet and near.
Now the streets shimmer with heat,
Mirages rise from the concrete.
The flowers wilt, the leaves do frown,
Under the sun's harsh, golden crown.
Yet in this furnace, we find our might,
In the long, unforgiving daylight.
For memories of springtime's grace,
In our hearts, hold a sacred place.
We yearn for petals soft and fair,
For fragrant breezes in the air.
But until then, we stand, we cope,
With summer's heat, but spring's sweet hope.