؎ ملتان شریف
اس سال کے آغاز میں، سفر میں میرے ہم رکاب دوست، ایک شام وارد ہوئے اور کہنے لگے، "اس ہفتے کے اختتام پہ کیا مصروفیت ہے"۔ میں نے کہا حسب سابق کچھ بھی نہیں۔ کہنے لگے" پھر ہم ملتان جا رہے ہیں"۔ وہیں کھڑے کھڑ ے طے پایا کل شام (جمعہ کی رات) کو روانگی ہے۔ یہ مکمل سفر کا مکمل منصوبہ تھا۔ ملتان کہاں جائیں گے، کیسے جائیں گے کی تفصیلات۔۔۔۔ نہیں معلوم۔ اگلی رات بس میں بیٹھ ملتان وارد ہوئے۔ اللہ اور اس رسول کے فضل اور اولیاء کے نظر فیض اثر کے سبب، قریبا آدھا ملتان پیدل سفر کیا، نیچے آنے والے تمام مزارات پر الحمد للہ پیدل حاضری دی۔ گویا آدھے سے زیادہ شہر پیدل چل گئے تھے۔ صبح ملتان اترنے کے بعد ایک سوزوکی کا سفر اور آخری مزار پر جاتے ہوئے ایک رکشہ کے، کوئی اور سواری نہیں لی۔ مزارات سے متعلق معلومات ایک مزار پر پہنچ کر اگلے کا نام پتا اور راستہ پوچھتے اور پھر موبائل سے رہنمائي لیتے ہوئے چل سو چل۔۔۔۔۔۔
چہار چیز است تحفۂ ملتان
گرد و گرما گدا و گورستان
ملتان، اولیاء کی سرزمین ملتان، مدینۃ الاولیاء ملتان۔ بچپن سے اس شہر آنے کی تمنا و حسرت تھی۔ جب سے سنا تھا کہ یہ اولیاء کی سرزمین ہے۔ تب محض یہ سوچا تھا کہ ہوں گے کچھ چند اولیاء جو دیگر شہروں کی نسبت زیادہ ہوں گے۔۔۔۔۔ بڑے ہوئے تو سوچا چند سو ہوں گے۔ ملتان وارد ہونے پہ انکشاف ہوا، کم و بیش سوا لاکھ اولیاء اس شہرکو آباد کئے ہوئے ہیں۔ یعنی فیض اور رحمت کی برسات چھما چھم۔ یہ ملتان نہیں فیضانستان ہوا۔
شیخ الاسلام حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ
سب سے پہلے جس ہستی کی بارگاہ میں حاضری ہوئی وہ تاج الاولیاء، سراج الصوفیاء شیخ الاسلام بہاؤالدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ ملتان کا نام سنتے ہی یہ نام ذہن میں ضرور آتا ہے۔ سچ پوچھیں تو ملتان پہنچ کر ہمیں بھی ان کے علاوہ اور کوئی نام معلوم نہ تھا۔ نام نہ آئے تو ایک عمارت کا نقشہ تو ضرور ہی تصور میں آتا ہے۔ اگر آپ ملتان کے نام سے بھی واقف ہیں تو یہ عمارت تو ضرور بالضرور دیکھی ہوئی ہوگی۔ حضور ملتان کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں۔
ملتان ما بجنت اعلیٰ برابراست
آہستہ پابنہ کہ ملک سجدہ می کنند
شیخ عبد الفتح رکن الدین معروف بہ شاہ رکن عالم ابولفتح رحمۃ اللہ علیہ
آپ شیخ الاسلام کے پوتے ہیں اور ولایت و تبلیغ دین میں بہت شہرت پائی ہے۔ منسوب ہے کہ آپ کو پہلے شیخ الاسلام کے پائنتی کی جانب دفن کیا گیا ( مندرجہ بالا تصویر ملاحظہ ہو) پھر آپ کا جسد مبارک موجودہ جگہ منتقل کیا گیا۔
ہمچناں در تمامی عصر علائی شیخ رکن الدین
کہ شیخ بن شیخ بن شیخ بود
حضرت غوث پاک ثانی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت بہاؤالدین زکریا اور شاہ رکن عالم کے مزار کے درمیانی فاصلے میں یہ مزار اور چلہ گاہ منسوب بہ حضرت غوث پاک ثانی رحمۃ اللہ علیہ واقع ہے۔ ان سے متعلق زیادہ معلومات حاصل نہ ہوئیں سوائے یہ کہ یہ حضور غوث پاک کی اولاد میں سے ہیں اور غوث پاک ثانی کے نام سے مشہور ہیں (اللہ و رسولہ اعلم)
حضرت شاہ شمس تبریز سبزواری رحمۃ اللہ علیہ
اس نام سے واقفیت اوائل بچپن سے تھی۔ رات کو سوتے وقت کی کہانیوں میں اماں جی والدہ محترمہ نے بچپن میں ان سے منسوب واقعہ سنایا جس کے مطابق کیسے انہوں نے سورج کی گرمی سے گوشت پکایا تھا۔ لہذا یہاں حاضری کی تمنا بچپن کے اوائل سے تھی۔
حضرت مولانا محمد جمال الدین معروف بہ حافظ جمال اللہ ملتانی رحمۃ اللہ علیہ
ملتان میں چونکہ فجر کے وقت وارد ہوئے تھے لہذا ساری رات کے سفر اور مسلسل پیدل چلنے کے باعث تھکان محسوس ہونے لگی۔ حافظ صاحب کے پہلو میں بیٹھ کر دوست سے مشورہ کیا کہ یہاں کچھ آرام کر لیا جائے۔ احاطہ قبر سے باہر آئے تو ایک بزرگ صورت شخصیت ہماری جانب ہی متوجہ تھے۔ ہم نے اپنی عرض پیش کی۔ ان کے انداز سے لگا کہ گویا انہیں اس ساری بات کا علم تھا کہ مہمان آنے والے ہیں ان کے قیام طعام کا بندوبست کرنا ہے۔ فورا ہی کمر سیدھی کرنے کی جگہ بتائی اور ہم سے چائے کا پوچھا۔ تھوڑی ہی دیر میں چائے مع بسکٹ حاضر تھے۔ ہم نے چائے بسکٹ پہ ہاتھ صاف کئے اور الارم لگا کے لم لیٹ ہوگئے۔
گھنٹہ بھر بعد جاگے تو بزرگ موجود نہ تھے لیکن پیچھے کہہ گئے تھے کہ مہمان جاگیں تو مجھے انہیں جانے نہ دیا جائے اور ہمیں فوری بلایا جائے۔
کچھ ہی دیر میں بزرگ موجود تھے۔ اب تعارف شروع ہوا۔ بزرگ نے اپنا نام انکل رفیق بتایا کہ سب اسی نام سے جانتے ہیں۔ گولڑہ شریف پیر غلام معین الحق شاہ صاحب کے بیعت ہیں اور حافظ صاحب کے ہاں خدمت پر معمور۔ انکل نے اپنے متعلق تفصیلات بتائیں کہ وہ پیشہ ور مجاور نہیں ہیں۔ ان کے بچے انجینئر، سی اے اور پتا نہیں کیا کیا ہیں۔ بقول انکے کروڑوں کے مالک ہیں لیکن جو لطف یہاں ہے، جہاں ایک وقت کی ملے اور دوسرے کا نہ پتا ہو کہ ملے گی کہ نہیں۔ خیر تفصیلات اور بھی ہیں جن کا ذکر پھر کبھی۔۔۔۔۔۔