بزنس از بزنس اس میں کسی قسم کی رو رعایت نہیں کی جا سکتی اگر دفن ہوتے ہی جنت میں جانا ہے بھئی تو پے تو کرنی پڑے گیاگرچہ اس بات کا موضوع سے تعلق تو نہیں لیکن ضمناّ اسکا ذکر یہاں آ ہی گیا ہے تو میں بھی عرض کرتا چلوں کہ قادیانیوں کے بہشتی مقبرے میں دفن ہونے کیلئے کئی قادیانی حضرات نے اپنی زندگی ہی میں وصیت کی ہوتی ہے لیکن اس کی شرائط میں ہر ماہ اپنی آمدنی کا ایک مخصوص حضہ انہیں اپنی جماعت کو بطور فنڈ دینا پڑتا ہے اور جب کوئی فرد فوت ہوجاتا ہے تو جب تک اسکے واجبات کلئیر نہیں ہوجاتے اسے وہاں دفنانے کی اجازت نہیں ملتی۔۔اس سلسلے میں کئی مرتبہ افسوسناک حد تک سختی اور شدّت کا مظاہرہ بھی دیکھنے میں آیا ہے، کہ میّت پڑی ہوئی ہے لیکن متعلقہ صاحبان مان نہیں رہے۔ تا آنکہ کسی نے وہ واجبات کلئیر کردئیے اور معاملہ نمٹ گیا اور میت کو اسکی مطلوبہ پسندیدہ جگہ پر دفنانے کی اجازت مل گئی، ورنہ مقامی قبرستان ۔
قراں پاک میں واضح آیات موجود ہیں۔۔۔یہ مشہور آیت تو یقیناّ آپ بھی پڑھتے ہونگے (شائد غور کئے بغیر؟)۔۔و من یعظّم شعائر اللہ فانّھا من تقوی القلوب۔۔۔جو شخص شعائر اللہ کی تعظیم کرتا ہے تو یقیناّ یہ دلوں کے تقوے کی وجہ سے ہے۔ اب شعائر اللہ کیا ہیں؟ شعائر اللہ وہ ہیں جو اللہ کی یاد دلادیں ۔اِس اُمت میں جتنے بہترین افراد گذرے ہیں جیسے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، اہل بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہما، صحابہ و صحابیات رضی اللہ تعالٰی عنہما، اُن سب کی سیرت پاک اللہ کو محبوب بھی ہیں اور بلا شک و شبہ تمام اُمت کے لئے رول ماڈل بھی۔ کیا ان کی عملی زندگی میں ”مقامات مقدسہ“ کا بھی اتنا ہی عمل دخل تھا، جتنا کہ ہم لوگوں نے بنا لیا ہے۔ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اور بعد ازاں خلفائے راشدین کی زندگی میں معروف صحابہ کرام شہید اور وفات نہیں پائے تھے۔ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یا اُن کے بعد آنے والے خلفائے راشدین نے بھی مقامات مقدسہ اور مزارات کو اسی طرح ”دین میں شامل“ کیا تھا، جیسا کہ آج ہم نے شامل کیا ہوا ہے۔ کیا نعو ذ باللہ ہم اُن مقدس ترین ہستیوں سے زیادہ بڑے اور متقی مسلمان ہیں کہ قرآن اور حدیث کی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر ”اپنے اپنے اسلام“ کا سارا زور مقامات مقدسہ اور مزارات سے منسلک کردیا ہے۔
ٹیگ کرنے کے لئے @ کا نشان لگا کر، بغیر سپیس دیئے مطلوبہ رکن کا نام لکھ دیں۔ ٹیگ ہو جائے گامیں یہاں ابھی ٹیگ نہیں کرسکتی کیونکہ ابھی مجھ کو نہیں آتا
محمود بھائی! ویسے تو آپ جیسے عالم اور فقیہہ سے مجھ جیسے عام آدمی کا مکالمہ کرنا ہی ”بے فضول“ ہے تاہم ”اطلاعاََ“ عرض ہے کہ صرف انہی شعائر اللہ کو ”مذہبی رسومات“ میں شامل کیا جاسکتا ہے، جن کا حکم اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے زبان و عمل سے دیا ہے۔ صفا و مروا کی سعی ہو، حجر اسود کو چومنا ہو، بیت اللہ بشمول حطیم کا طواف ہو۔۔۔ یہ سب ہم اپنی ”مرضی“ سے نہین کرتے کہ چونکہ یہ ”مقامات مقدسہ“ ہے، لہٰذا ہم یہ سب کریں گے۔ بلکہ ہم نشاندہی کردہ ان شعائر اللہ یا مقامات مقدسہ کے ساتھ جو بھی ”برتاؤ“ کرتے ہیں، وہ عین حکم اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تحت کرتے ہیں۔ یہ آپ جیسے عالم فاضل اور فقیہ کے فلسفہ ہی کا نتیجہ ہے کہ ہم نے گلی گلی میں ”شعائر اللہ“ تعمیر کر لیا ہے۔ اور ہم نے ان کی ”پوجا پاٹ“ کو بھی اسی طرح محترم و مقدس سمجھ لیا ہے جیسا کہ طواف، سعی، رمی، حجرہ اسود کو چومنا وغیرہ شامل ہے۔ اسی لئے ہم میں سے جو مسلمان بیت اللہ کا سفر نہیں کرسکتے وہ مقامی طور پر پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، ایران، عراق وغیر کے ”مقامات مقدسہ“ یا شعار اسلامی کی یاترا ہی کو اپنی اُخروی نجات کا سبب سمجھنے لگے ہیں۔ آپ کے ”فلسفہ شعائر اسلامی“ کے تحت کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ جب حطیم میں مدفون حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے (نظر نہ آنے والے مزار مقدس) کا طواف کیا جاسکتا ہے تو روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار کا طواف کیوں نہیں۔
میرے پیارے محمود بھائی! آپ کو زیر بحث موضوع کو اِدھر اُدھر بھٹکانے میں ملکہ حاصل ہے لہٰذا آپ سے کسی بھی موضوع کی حدود کے اندر رپتے ہوئے مکالمہ کی توقع ہی ”بے فضول“ ہے۔ میرے جس مراسلہ کو ”کوٹ“ کرکے آپ نے اپنا ”بھاشن“ دیا ہے، کوئی بھی دیکھ سکتا ہے کہ ”میرے بھاشن“ اور ”آپ کے بھاشن“ میں کوئی ربط موجود نہیں ہے۔ آپ اپنا بھاشن اگر کسی مراسلہ کو ”کوٹ کئے بغیر“ دیں تو شاید آپ کی بات میں کوئی وزن پیدا ہوسکتا ہے۔ ویسے بھی میرے کسی بھی مراسلہ سے آپ کا متفق ہونا ضروری نہیں بلکہ قطعی ”غیر ضروری“ ہوتا ہے۔ سدا خوش رہئے، اپنے خرچے اور اپنے عقیدے پر
حجّاج نہ کہیں بلکہ وی آی پی حجّاج کہئیے۔ یہ سب انہی وی آئی پی حجّاج کیلئے کیا جارہا ہے لگژری کے طلبگاروں کیلئے صفایا کیا جارہا ہے۔۔۔تاریخی آثار کو بوسیدہ مقامات کہہ کر ملیا میٹ کیا جارہا ہے، اور اس پر پلازے تعمیر کرکے پیرس ہلٹن وغیرہا کو سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کئے جارہے ہیں۔۔بات بات پر مسلمانوں کو غیرمسلموں کی نقّالی کرنے کا طعنہ دینے والوں اورتشبّہ کا الزام دینے والوں کی طرف سے Big Ban نما گھڑیال نصب کئے جارہے ہیں۔۔مبارک ہو۔ مجھے تو اس صورتحال پر اس بدّو کی کہانی یاد آگئی جس نے آندھی کو مدنظر رکھتے ہوئے اونٹ کو خیمے کے اندر گردن داخل کرنے کی اجازت دے دی تھی اور ہوتے ہوتے یہ ہوا کہ اونٹ صاحب خیمے کے اندر اور بدّو باہر۔۔۔اور یوں بھی جس تیزی سے مکہ میں ترقیاتی کام ہو رہے ہیں تاکہ حجاج کو سہولیات فراہم کی جا سکیں ، ممکن نہیں کہ بوسیدہ مکانوں سے چمٹے رہیں ،
ہاں بالکل ویسے ہی جیسے فلسطینی بدو آج اپنے وطن سے باہر ہیں اور صیہونی اونٹوں نے انکی جگہ لے لی ہے۔حجّاج نہ کہیں بلکہ وی آی پی حجّاج کہئیے۔ یہ سب انہی وی آئی پی حجّاج کیلئے کیا جارہا ہے لگژری کے طلبگاروں کیلئے صفایا کیا جارہا ہے۔۔۔ تاریخی آثار کو بوسیدہ مقامات کہہ کر ملیا میٹ کیا جارہا ہے، اور اس پر پلازے تعمیر کرکے پیرس ہلٹن وغیرہا کو سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کئے جارہے ہیں۔۔بات بات پر مسلمانوں کو غیرمسلموں کی نقّالی کرنے کا طعنہ دینے والوں اورتشبّہ کا الزام دینے والوں کی طرف سے Big Ban نما گھڑیال نصب کئے جارہے ہیں۔۔مبارک ہو۔ مجھے تو اس صورتحال پر اس بدّو کی کہانی یاد آگئی جس نے آندھی کو مدنظر رکھتے ہوئے اونٹ کو خیمے کے اندر گردن داخل کرنے کی اجازت دے دی تھی اور ہوتے ہوتے یہ ہوا کہ اونٹ صاحب خیمے کے اندر اور بدّو باہر۔۔۔
وی آئی پی حجاج تو مجھے بھی پسند نہیں لیکن اس موضوع پر مزید بات ایک نئے دھاگے اور کئی دوسرے متعلقہ موضوعات کی متقاضی ہے ۔ بہرحال غریب سے غریب حجاج بھی اپنے ملکوں سے ہزار درجے بہتر سہولیات پاتے ہیں البتہ یہ ضرور ہے کہ مکہ و مدینہ میں بسنے والے سعودی خصوصا غیر سعودیوں کی اکثریت یا تقریبا سبھی حجاج کو خوب لوٹتے ہیں۔ مثلا سعودی ٹیلی فون کمپنیاں کال ریٹس میں اضافہ کر دیتی ہیں یا رعایت نہیں دیتیں جبکہ منافع کا "مارجن" سعودی عرب میں خاصا زیادہ ہے ۔ ایک ریال کی چینی تسبیح حجاج کی کم عقلی سے فائدہ اٹھا کر دس ریال تک بھی فروخت ہو جاتی ہے۔ تارکین وطن اپنے ہوٹلوں میں کھانے کا معیار گھٹا دیتے ہیں اور اپنے ہی ہم وطنوں کی کھال کھینچتے ہیں اور پاکستانی حجاج کے لئے تو کیا کہنا کہ وہ لٹتے ہوئے آتے ہیں لٹتے رہتے ہیں اور لٹے لٹائے واپس پہنچتے ہیں۔حجّاج نہ کہیں بلکہ وی آی پی حجّاج کہئیے۔ یہ سب انہی وی آئی پی حجّاج کیلئے کیا جارہا ہے لگژری کے طلبگاروں کیلئے صفایا کیا جارہا ہے۔۔۔ تاریخی آثار کو بوسیدہ مقامات کہہ کر ملیا میٹ کیا جارہا ہے، اور اس پر پلازے تعمیر کرکے پیرس ہلٹن وغیرہا کو سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کئے جارہے ہیں۔۔بات بات پر مسلمانوں کو غیرمسلموں کی نقّالی کرنے کا طعنہ دینے والوں اورتشبّہ کا الزام دینے والوں کی طرف سے Big Ban نما گھڑیال نصب کئے جارہے ہیں۔۔مبارک ہو۔ مجھے تو اس صورتحال پر اس بدّو کی کہانی یاد آگئی جس نے آندھی کو مدنظر رکھتے ہوئے اونٹ کو خیمے کے اندر گردن داخل کرنے کی اجازت دے دی تھی اور ہوتے ہوتے یہ ہوا کہ اونٹ صاحب خیمے کے اندر اور بدّو باہر۔۔۔
میں آپ کی بات کا مفسل جواب دوں گی اور اسکو میں ادھار سمجھتی ہوں میری پرابلم یہ ہے کہ میں بہت آہستہ لکھتی ہوں اور محرم کی ایسی تاریخیں چل رہی ہیں جس میں بہت بزی ہوتی ہوں ایک ذاکرہ اور ایک معلمہ ہونے کی حیثیت سے ۔ ابھی مختصراَ جواب یہ ہے کہ جن ہستیوں کے روضوں کی بات کی جارہی ہے انکو آپ جانتے ضرور ہوں کہ وہ اہلِ بیت میں سے ہیں رول ماڈل ہیں وغیرہ وغیرہپر انکی معرفت آپ کو نہیں ہے عالم ہونا ایک الگ بات ہوتی ہے اور عالم کے ساتھ ساتھ عارف ہونا ایک الگ بات ہوتی ہے آپ مادیت دیکھ رہے ہیں کہ قبر تو ظاہر قبر ہوتی ہے اسکا نشان مٹ جانا چاہیئے پر ہم نسبت دیکھ رہے ہیں کہ کن قبروں کی بات ہورہی ہے کن کو مٹ جانا چاہیئے اور کن کو نہیں ایک عام انسان میں اور ایک اس ہستی میں جن کو اللہ نے خود منتخب کیا ہو فرق ہوتا ہے جب آپ میں یہ معرفت ان ہستیوں کے بارے میں پیدا ہوجائے گی تو آپ بھی ہمارے ہمنوا ہوجائیں گے۔ آپ نے کہا کہ صحابہ کے دور میں مقبرے نہیں بنائے جاتے تھے بالکل صحیح کہا پر پھر اتنے بڑے بڑے محل بھی تونہیں بنائے جاتے تھے جتنے سعودی حکمرانوں کے ہیں جن کی تعیش کا یہ حال ہے کہ باتھ روم کے ڈرین پر جو جالی لگی ہو وہ بھی سونے کی ہو نہ ہی صحابہ اکرام اسطرح کا آسان حج کرتے تھے کہ صفا و مروہ کے درمیان بغیر گرمی کی شدت برداشت کئی دوڑ رہے ہیں آپ کو صرف صحابہ کے دور میں مقبرے ہی نہ نظر آئے اور سوعدی حکمرانوں کو بھی صرف مقبرے ہی ملیا میٹ کرنے کیلئے نظر آئے اپنی پر تعیش زندگی نظر نہیں آئی۔اِس اُمت میں جتنے بہترین افراد گذرے ہیں جیسے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، اہل بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہما، صحابہ و صحابیات رضی اللہ تعالٰی عنہما، اُن سب کی سیرت پاک اللہ کو محبوب بھی ہیں اور بلا شک و شبہ تمام اُمت کے لئے رول ماڈل بھی۔ کیا ان کی عملی زندگی میں ”مقامات مقدسہ“ کا بھی اتنا ہی عمل دخل تھا، جتنا کہ ہم لوگوں نے بنا لیا ہے۔ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اور بعد ازاں خلفائے راشدین کی زندگی میں معروف صحابہ کرام شہید اور وفات نہیں پائے تھے۔ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یا اُن کے بعد آنے والے خلفائے راشدین نے بھی مقامات مقدسہ اور مزارات کو اسی طرح ”دین میں شامل“ کیا تھا، جیسا کہ آج ہم نے شامل کیا ہوا ہے۔ کیا نعو ذ باللہ ہم اُن مقدس ترین ہستیوں سے زیادہ بڑے اور متقی مسلمان ہیں کہ قرآن اور حدیث کی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر ”اپنے اپنے اسلام“ کا سارا زور مقامات مقدسہ اور مزارات سے منسلک کردیا ہے۔
سب مل کر اللہ کی رسی (قرآن و حدیث) کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو (آلِ عمران۔103) ڈی ایٹ کانفرنس میں شرکت کے لئے پاکستان آئے ہوئے ایرانی صدر ڈاکٹر محمود احمدی نژاد نے حامد میر کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا خوب کہا ہے کہ: حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم شیعہ یا سنی نہیں تھے بلکہ صرف مسلمان تھے۔ اگر ہم مرنے کے بعد اللہ کے حضور صرف مسلمان کی حیثیت سے پیش ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی شیعہ اور سنی کی اُن تمام مذہبی عقائد و اعمال سے برات کا اظہار کرنا ہوگا، جن کی تعلیمات قرآن و حدیث ہرگز ہرگز موجود نہیں ہیں۔
فانٹ بہتر کر دیا ہےمیں آپ کی بات کا مفسل جواب دوں گی اور اسکو میں ادھار سمجھتی ہوں میری پرابلم یہ ہے کہ میں بہت آہستہ لکھتی ہوں اور محرم کی ایسی تاریخیں چل رہی ہیں جس میں بہت بزی ہوتی ہوں ایک ذاکرہ اور ایک معلمہ ہونے کی حیثیت سے ۔ ابھی مختصراَ جواب یہ ہے کہ جن ہستیوں کے روضوں کی بات کی جارہی ہے انکو آپ جانتے ضرور ہوں کہ وہ اہلِ بیت میں سے ہیں رول ماڈل ہیں وغیرہ وغیرہپر انکی معرفت آپ کو نہیں ہے عالم ہونا ایک الگ بات ہوتی ہے اور عالم کے ساتھ ساتھ عارف ہونا ایک الگ بات ہوتی ہے آپ مادیت دیکھ رہے ہیں کہ قبر تو ظاہر قبر ہوتی ہے اسکا نشان مٹ جانا چاہیئے پر ہم نسبت دیکھ رہے ہیں کہ کن قبروں کی بات ہورہی ہے کن کو مٹ جانا چاہیئے اور کن کو نہیں ایک عام انسان میں اور ایک اس ہستی میں جن کو اللہ نے خود منتخب کیا ہو فرق ہوتا ہے جب آپ میں یہ معرفت ان ہستیوں کے بارے میں پیدا ہوجائے گی تو آپ بھی ہمارے ہمنوا ہوجائیں گے۔ آپ نے کہا کہ صحابہ کے دور میں مقبرے نہیں بنائے جاتے تھے بالکل صحیح کہا پر پھر اتنے بڑے بڑے محل بھی تونہیں بنائے جاتے تھے جتنے سعودی حکمرانوں کے ہیں جن کی تعیش کا یہ حال ہے کہ باتھ روم کے ڈرین پر جو جالی لگی ہو وہ بھی سونے کی ہو نہ ہی صحابہ اکرام اسطرح کا آسان حج کرتے تھے کہ صفا و مروہ کے درمیان بغیر گرمی کی شدت برداشت کئی دوڑ رہے ہیں آپ کو صرف صحابہ کے دور میں مقبرے ہی نہ نظر آئے اور سوعدی حکمرانوں کو بھی صرف مقبرے ہی ملیا میٹ کرنے کیلئے نظر آئے اپنی پر تعیش زندگی نظر نہیں آئی۔
اگر میں آج کل کے حج اور صحابہ کے حج کا فرق پوچھوں تو یقیناَ آپ کا جواب یہ ہوگا کہ حاجیوں کو سہولت پہچانے کیلئے یہ سب کیا جاتا ہے سعودی محلوں کا پوچھوں تو آپ کا جواب ہوگا کہ دین میں کہیںبھی منع نہیں کہ آپ کے پاس پیسہ ہو پر آپ استعمال نہ کریں اور یہ کسی حد تک درست بھی ہے گو کہ یہ تقوٰی کے زمرے میں نہیں آتا بات دراصل یہ ہے کہ میرے بھائی صحابہ اکرام کے دور میں مسلمانوں کی مالی حالت اتنی اچھی نہیں تھی اس دور میں تو خود حضرت عمر سے سوال کرلیا جاتا تھا کہ آپ نے اتنا لمبا کرتا کیوں پہنا یہ تو آپ نے اپنے حصے سے زیادہ کپڑا لگادیا ہے اور وہ اسکا جواب دے کر ہم کو سمجھا بھی رہے ہیں کہ میں بھی پابند ہوں اس کا جواب دینے کا اس زمانے میں اکثرمسلمان بہت غریب تھے اسوقت اگر عالی شان مقبرے بنوائے جاتے تو یقیناَ یہ اسراف ہوتا پر جیسے جیسے مسلمانوں کی حالت اچھی ہوتی گئی بعد کے انے والے حکمرانوں نے مقبرے بنوائے اور وہ کئی صدیوں کے بعد اس سے پہلے والی صدی میں ختم کئے گئے۔ ایران اور عراق میں جو آئمہ اور صحابہ اکرام و تابعین کے مزارات ہیں وہاں بھی بالکل اسی طرح زائرین کی سہولت کیلئے بڑے بڑے ہال اور سہولتیں رکھی گئی ہیں جس طرح حج میں حاجیوں کو پریشانی سے بچانے کیلئے رکھی گئی ہیں کیوں کہ وہاں بھی لاکھوں کی تعداد میں لوگ آتے ہیں اسوقت بھی کربلا میں باہر سے آنے والے زائرین کی تعداد نوے لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے اگر یہ اندازے کی غلطی ہو تو اسکی آدھی تعداد بھی حج سے زیادہ ہے۔
باقی اگلی قسط میں عرض کروں گی کیوں کہ آج نو محرم ہے