مسلمان آخر کیوں مکہ کے مقدس مقامات کی تخریب کاری کے خلاف کچھ نہیں کہتے؟ - جیروم ٹیلر

نایاب

لائبریرین
محترم شرکاء گفتگوآپ سب سے ذرا " ہتھ " ہولا رکھنے کی التجا ہے ۔ ہم پردیسی سعودیہ میں بیٹھے ہیں ۔اور اردو محفل اپنا سہارا ۔
کہیں " بین " نہ ہوجائے یہاں ۔
امت مسلمہ پر یہ کیسا زوال ہے کہ " غیر مسلم " مسلمانوں کو جگانے کے لیئے شور مچانے لگے ۔
"افسوس صد افسوس "
 

بنتِ سلیم

محفلین
میں قبروں کی نہیں، اُن قبروں پر بنے مزارات کی بات کر رہا ہوں جنہیں سعودیوں نے توحید کے نام پر نابود کر دیا۔
کیا آپ ان مزارات کو توڑنے کی وجہ جانتے ہیںِِ؟ قبروں کی پختگی کی تو احادیث میں بھی ممانعت آئی ہے تو پھر مقبروں کا کیا مقام؟ یہ عبرت کی جاء ہے تماشہ نہیں ہے۔ اور پھر جب فتنہء دجال بھی مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں داخل نہیں ہوسکتا تو پھر دوسری بدعتوں کی کیا اوقات ہے۔
 

ساجد

محفلین
کیا آپ ان مزارات کو توڑنے کی وجہ جانتے ہیںِِ؟ قبروں کی پختگی کی تو احادیث میں بھی ممانعت آئی ہے تو پھر مقبروں کا کیا مقام؟ یہ عبرت کی جاء ہے تماشہ نہیں ہے۔ اور پھر جب فتنہء دجال بھی مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں داخل نہیں ہوسکتا تو پھر دوسری بدعتوں کی کیا اوقات ہے۔
تبھی تو روضہ اطہر کو بھی زمین کے برابر کرنے کے ارادے ہیں مفتیان کے۔ :)
ویسے بدعت سے یاد آیا ، کچھ تاریخ کھنگالئے اور بتائیے کہ قرآن پاک پر اعراب لگانے کی عظیم ترین ”بدعت“ کا ارتکاب کب اور کس نے کیا؟۔
 

بنتِ سلیم

محفلین
آبِ زمزم بھی تو لوگ تبرکا واپس لے آتے ہیں۔ کیا پتا سعودی توحید چاہِ زمزم میں بھی مٹی بھروانے پر مجبور ہو جائے۔ :cool:
جس پانی میں اللہ نے شِفاء رکھی ہے اور جس کا استعمال خود انبیاء اکرام اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت رہا ہے اسے لوگ کیوں نہ معتبر مان کر استعمال کریں گے۔ نیتوں کا جاننے والا اللہ ہے ۔ وہ تو ان کا بھی رب ہے جو اسے چھوڑ کر پتھروں سے مانگتے ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
کیا آپ ان مزارات کو توڑنے کی وجہ جانتے ہیںِِ؟ قبروں کی پختگی کی تو احادیث میں بھی ممانعت آئی ہے تو پھر مقبروں کا کیا مقام؟ یہ عبرت کی جاء ہے تماشہ نہیں ہے۔ اور پھر جب فتنہء دجال بھی مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں داخل نہیں ہوسکتا تو پھر دوسری بدعتوں کی کیا اوقات ہے۔

بدعت ودعت کی بحثوں کو سائڈ پر رکھیے۔ وہ مزارات مسلمانوں کا تاریخی ورثہ تھے جنہیں سعودی شریعت نے ہڑپ لیا۔

اور کیسی بدعت؟ کس کے نزدیک بدعت؟ ائمۂ اہل بیت کے مزارات تو شیعہ مسلمانوں کے لیے روضۂ رسول کے بعد سب سے مقدس مقامات تھے۔ کیا کوئی سنی حضرت عثمان کے مزار کے ڈھائے جانے پر راضی ہوتا؟ کیا صرف ایک وہابی مبلغ کے بدعت کے فلسفے کے خاطر ہم اپنے مقدس مقامات نابودی کی نذر کر دیں؟
 

ساجد

محفلین
میں نے پہلے ہی کہا یہ عبرت کی جاء ہےتماشہ نہیں ہے۔
گویا کہ جو لوگ زیارتِ مرقدِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جاتے ہیں وہ وہاں تماشہ کرنے یا دیکھنے جاتے ہیں؟۔ عبرت کی جاء دیکھنے کے لئے کیا ہمارے قریب کے قبرستان کافی نہیں ہیں ؟۔ لگتا ہے عقیدت کا مطلب تک آپ کو معلوم نہیں۔
 

ساجد

محفلین
بدعت ودعت کی بحثوں کو سائڈ پر رکھیے۔ وہ مزارات مسلمانوں کا تاریخی ورثہ تھے جنہیں سعودی شریعت نے ہڑپ لیا۔

اور کیسی بدعت؟ کس کے نزدیک بدعت؟ ائمۂ اہل بیت کے مزارات تو شیعہ مسلمانوں کے لیے روضۂ رسول کے بعد سب سے مقدس مقامات تھے۔ کیا کوئی سنی حضرت عثمان کے مزار کے ڈھائے جانے پر راضی ہوتا؟ کیا صرف ایک وہابی مبلغ کے بدعت کے فلسفے کے خاطر ہم اپنے مقدس مقامات نابودی کی نذر کر دیں؟
بھائی جی اب یہ بھی خود پر بوقتِ ضرورت سنیوں کا لیبل لگا لیتے ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
اموی دور میں، عباسی دور میں اور عثمانی دور میں کسی کو ان 'بدعات' کی فکر نہیں تھی۔ سعودیوں کا ہاتھ لگا اور مقدس مقامات مٹی میں مل گئے۔ لگتا ہے ساری بدعات سے پاک شریعت سعودیوں پر ہی نازل ہوئی تھی۔
 
میں نے پہلے ہی کہا یہ عبرت کی جاء ہےتماشہ نہیں ہے۔
روضہ اطہر کے بارے میں آپ کا یہ ریمارک انتہائی افسوسناک ہے۔۔ کسی چیز کو جب مقامِ عبرت کہا جاتا ہے تو یہ عموماّ (بلکہ تقریباّ ہمیشہ ہی) منفی معنوں میں استعمال ہوتا ہے، چنانچہ آپکا روضہ رسول کی زیارت کے عمل کو تماشا یا سیر سے تشبیہہ دینا اور پھر بزعمِ دینداری، عبرت پکڑنے کا مشورہ دینا دونوں ہی قبیح ترین خیالات کی غما زی کرتا ہے۔۔۔
 

عثمان

محفلین
اور تو اور احد کے پہاڑ میں ایک مقام کو اس سال کنکریٹ سے بھر دیا گیا ہے جس کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زخمی ہو کر آرام فرمایا تھا اور وہاں سر مبارک کا نشان تھا ۔۔
مستنصرحسین تارڑ نے اپنی کتاب "غار حرا میں ایک رات " میں اس مقام اور وہاں اپنی زیارت کا بڑا مفصل تذکرہ کیا ہے۔
افسوس آل سعود کے ہاتھوں یہ بھی محفوظ نہ رہا۔
 
میں خود 9 سال تک جدہ میں قیام پذیر رہا ہوں اور اس دوران کافی زیارات کا بھی موقع ملا۔۔اس مقام کی بھی زیارت ہوئی جس کا ذکر محترم شاکر القادری صاحب نے کا ہے، وہاں پتھر میں کنکریٹ تھوپ دیا گیا تھا، قریب ہی وہ مقام بھی تھا جہاں دندانِ مبارک شہید ہوئے تھے، بہت دکھ ہوا یہ دیکھ کر کہ ان تاریخی مقامات کے پاس کوڑا کرکٹ بھی پڑا ہوا تھا۔۔۔۔اور دوسری طرف ان بدبختوں کے عالیشان محلات دیکھئے۔۔۔افسوس صد افسوس
 

محمد امین

لائبریرین
میں نے پہلے ہی کہا یہ عبرت کی جاء ہےتماشہ نہیں ہے۔

بہن جی، حضورِ اقدس کا روضۂ اطہر معاذ اللہ عبرت کی جگہ نہیں ہے بلکہ دو عالم کے لیے مرکزِ عقیدت ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں ستر ہزار فرشتے صبح اور ستر ہزار شام کو حاضری دیتے ہیں۔ حضور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ تم میں سے جس سے ہو سکے میرے شہر میں آ کر مرے۔۔۔
 

محمد امین

لائبریرین
واقعی سوچنے کی بات ہے۔۔۔ اگر عقیدت مند جا کر کسی مزار کو بوسہ دے دیں تو بدعت و حرام (بلکہ کچھ نا سمجھ تو شرک ہی قرار دے دیتے ہیں)۔۔۔ مگر سعودی شاہ زادے ایک دوسرے کے گالوں کو بوسہ دیں وہ جائز؟ میں نے تصاویر میں ایسا دیکھا ہے کہ سعودی شاہانِ کرام جب بھی کسی سے ملتے ہیں تو گال چومتے ہیں۔۔۔

ویسے پس نوشت عرض ہے کہ اہل سنت علماء کے نزدیک مزار کو بوسہ دینا منع ہے۔
 

یوسف-2

محفلین
تبھی تو روضہ اطہر کو بھی زمین کے برابر کرنے کے ارادے ہیں مفتیان کے۔ :)
ویسے بدعت سے یاد آیا ، کچھ تاریخ کھنگالئے اور بتائیے کہ قرآن پاک پر اعراب لگانے کی عظیم ترین ”بدعت“ کا ارتکاب کب اور کس نے کیا؟۔
بصد احترام عرض ہے کہ قرآن جس دن نازل ہوا، اسی دن اس پر اعراب ”موجود“ تھے۔
  1. قرآن ”زبانی“ نازل ہوا تھا، تحریری نہیں۔ اور نبی کریم صلکی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ادا ہونے والے ”زبانی قرآنی آیات“ میں بھی اعراب ”موجود“ تھے ۔ ”بغیر اعراب والے الفاظ“ کو کئی طرح سے پڑھا جاسکتا ہے۔ کیا ابتدا میں قرآنی آیات کو ”اپنی مرضی کے تلفظ“ کے ساتھ پڑھا جاتا تھا، یا یہ تلفظ بھی الفاظ اور حروف کی طرح ”متعین“ تھے۔ اگر متعین تھے اور یقیناً تھے تو ”بغیر اعراب“ کے یہ ممکن ہی نہیں۔ اہل زبان بغیر اعراب کے لکھے ہوئے جملوں کو بھی اعراب کے بغیر درست پڑھ سکتے ہیں۔ جیسے ہم اردو دان ”ملک“ کو سیاق و سباق کے ساتھ بالکل درست اعراب (تلفظ) کے ساتھ پڑھنے پر قادر ہیں۔ اور یہ تو آپ بھی جانتے ہوں گے کہ لفظ ”ملک“ مختلف اعراب کے ساتھ مختلف تلفظ اور مختلف معنی دیتا ہے۔ گویا ”ملک والے ہر جملے“ میں ملک پر الگ الگ اعراب ”موجود“ ہوتے ہیں (لکھے نہیں ہوتے) اور ہم اردو دان اہل زبان اسے بالکل درست اعراب و تلفظ کے ساتھ پڑھنے پر قادر ہوتے ہیں۔
  2. بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ قرآن کو پہلے ”غیر منقوط“ تحریر کیا گیا تھا۔ آوازوں میں فرق کی پہچان کے لئے نقاط بعد ”لگائے“ گئے۔ اسی طرح اعراب بھی بعد میں ”لکھے“ گئے۔ اعراب ”لکھے ہوئے“ نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ کہ وہ تھے ہی نہیں۔ ہم یہ جو اردو لکھ رہے ہیں، اس میں بھی اعراب ”موجود“ ہیں (البتہ لکھے ہوئے نہیں ہیں۔) اور ہم اہل زبان اسے ”بخوبی پہچان“ کر پڑھتے ہیں۔
  3. ”بدعت“ پر تفصیلی گفتگو پھر کبھی کہ بعض لوگ تو اپنی ”بدعت“ کے جواز میں یہ بھی فرماتے ہیں کہ (مثلاًً) جہاز پر سفر کرنا بھی تو ”بدعت“ ہے :) ہر وہ کام، عبادت یا عقیدہ جو ”مذہبی و دینی“ نیت سے کی جائے، اور جس کی مثال دور رسالت صلی اللہ علیہ وسلم اور ادوار صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما میں نہ ملے، وہ بدعت ہے۔ ”دنیوی امور“ میں کوئی شئے یا کام شرعاً بدعت نہیں کہلاتا۔
واللہ اعلم بالصواب
 

یوسف-2

محفلین
واقعی سوچنے کی بات ہے۔۔۔ اگر عقیدت مند جا کر کسی مزار کو بوسہ دے دیں تو بدعت و حرام (بلکہ کچھ نا سمجھ تو شرک ہی قرار دے دیتے ہیں)۔۔۔ مگر سعودی شاہ زادے ایک دوسرے کے گالوں کو بوسہ دیں وہ جائز؟ میں نے تصاویر میں ایسا دیکھا ہے کہ سعودی شاہانِ کرام جب بھی کسی سے ملتے ہیں تو گال چومتے ہیں۔۔۔

ویسے پس نوشت عرض ہے کہ اہل سنت علماء کے نزدیک مزار کو بوسہ دینا منع ہے۔
برادر من!
بوسہ تو ہم سب اپنی اپنی بیویوں کو بھی دیتے ہیں، اپنے بچوں کو بھی دیتے ہیں ۔ ۔ ۔ پھر تو یہ بھی بدعت، حرام یا شرک ہوا (نعوذ باللہ)
  1. ”بدعت“ کا تعلق ”دینی امور“ سے ہوتا ہے۔ ”دنیوی امور“ سے نہیں۔ اب آپ خود دیکھ لیں کہ جو لوگ ایک دوسرے کو (مرد، مرد کو، عورت، عورت کو، ازواج ایک دوسرے کو، والدین بچوں کو) بوسہ دیتے ہیں، وہ ”دینی و مذہبی فریضہ“ سمجھ کر دیتے ہیں یا ”دنیوی امور“ سمجھ کر
  2. اسی طرح جو لوگ بزرگان دین کے مزار کو ”بوسہ“ دیتے ہیں، وہ اسے ”دنیوی امور“ سمجھ کر ایسا کرتے ہین یا ”دینی جوش و جذبہ“ کے تحت ایسا کرتے ہیں۔ پھر فیصلہ خود کر لیں۔
حرام و حلال کا بنیادی اصول یہ ہے کہ:
  1. دینی عقائد و عبادات و رسومات میں صرف اور صرف وہی جائز ہے، جس کا حکم قرآن و صحیح احادیث میں موجود ہے اور جس کا عملی نمونہ دور رسالت صلی اللہ علیہ وسلم اور ادوار صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما میں ملے۔ ان کے علاوہ اور تمام ”دینی عقائد، عبادات اور مذہبی رسومات“ حرام اور بدعت ہیں۔ (مثلاً کسی بھی عالم دین نے کبھی بھی 14 اگست یا 6 ستمبر کی ”تقریبات“ کو ”بدعت“ قرار نہیں دیا لیکن شب برات، محرم اور ربیع الاول وغیرہ کی ”تقریبات“ کے بارے میں آپ بھی علمائے کرام کی رائے جانتے ہیں، اختلاف رائے کے باوجود)
  2. دنیوی معاملات میں سب کچھ جائز و حلال ہے الا یہ کہ جسے قرآن و صحیح احادیث میں ”حرام“ قرار دیا گیا ہو۔ مثلاَ تمام جانور کھانے کے لئے حلال ہیں ماسوائے ان جانوروں کے، جنہیں حرام قرار دیا ہو۔ اسی طرح تمام اعمال حلال ہیں ماسوائے ان اعمال کے جنہیں قرآن و احادیث میں حرام قراردیا گیا ہو
واللہ اعلم بالصواب
 
حرام و حلال کا بنیادی اصول یہ ہے کہ:

  1. دینی عقائد و عبادات و رسومات میں صرف اور صرف وہی جائز ہے، جس کا حکم قرآن و صحیح احادیث میں موجود ہے اور جس کا عملی نمونہ دور رسالت صلی اللہ علیہ وسلم اور ادوار صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما میں ملے۔ ان کے علاوہ اور تمام ”دینی عقائد، عبادات اور مذہبی رسومات“ حرام اور بدعت ہیں۔ (مثلاً کسی بھی عالم دین نے کبھی بھی 14 اگست یا 6 ستمبر کی ”تقریبات“ کو ”بدعت“ قرار نہیں دیا لیکن شب برات، محرم اور ربیع الاول وغیرہ کی ”تقریبات“ کے بارے میں آپ بھی علمائے کرام کی رائے جانتے ہیں، اختلاف رائے کے باوجود)
  2. دنیوی معاملات میں سب کچھ جائز و حلال ہے الا یہ کہ جسے قرآن و صحیح احادیث میں ”حرام“ قرار دیا گیا ہو۔ مثلاَ تمام جانور کھانے کے لئے حلال ہیں ماسوائے ان جانوروں کے، جنہیں حرام قرار دیا ہو۔ اسی طرح تمام اعمال حلال ہیں ماسوائے ان اعمال کے جنہیں قرآن و احادیث میں حرام قراردیا گیا ہو
واللہ اعلم بالصواب
یہ بھی بتادیجئے کہ یہ اصول نمبر ایک اور دو،کدھر سے نکالے ہیں آپ نے؟
اور یہ بھی بتادیجئے کہ یہ دینی اور دنیاوی امور کیا ہوتے ہیں، ہم تو آج تک یہی سمجھتے رہے کہ دینِ اسلام زندگی کے ہر پہلو پر محیط ہے اور اس میں زندگی کے ہر ہر گوشے اور ہر پہلو کیلئے رہنمائی ہے اور یہ کہ قبل از اسلام جن جن باتوں کو لوگ دنیاوی سمجھتے تھے ، انکو بھی اسلام نے دین کا اور تقرب الٰہی کا ذریعہ بنادیا ، چنانچہ کھانا پینا، سونا، جاگنا، کام کرنا، شادی کرنا ور ان سے متعلقہ تمام امور جن کو دینی زندگی کے منافی سمجھا جاتا تھا ان کو بھی اسلام نے عبادت میں شمار کیا، تو یہ دینی اور دنیاوی کاموں کی تفریق آپ نے کہاں سے نکالی؟۔۔۔ہر دینی کام بھی دنیاوی ہوسکتا ہے اور ہر دنیاوی کام بھی دینی ہوسکتا ہےت اگر سمت درست ہو، یہ حضرتِ ملا کا اعجاز ہے کہ ہ دین اور وہ دنیا، جو ہم کہیں وہ دین اور جو ہم نہ کہیں وہ دنیا۔۔۔
واللہ اعلم بالصواب
 

ذوالقرنین

لائبریرین
یوسف ثانی بھائی! یہی تو ہمارا مسئلہ ہے کہ ہم دین کو (باقی مذاہب کے پیروکاروں کی طرح) اپنے ضرورت کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں۔ دین کی سمجھ بوجھ ہے نہیں۔ فتویٰ دینے تک اتر آتے ہیں۔ اللہ ہمیں ایسے فتنہ انگزیز حرکات سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
بدعت شرک سے بدتر ہے اور اس کا سب سے خطرناک پہلو یہی ہے کہ اس کا کرنے والا اپنے آپ کو صحیح سمجھتا ہے اور اسے ثابت کرنے کے لیے (اللہ معاف کرے) اپنے رب کو نہیں بخشتا۔
 
تعصب سے بھرے لوگوں کے تبصرے ہیں
اسلام سعودی عرب میں ہی ہے۔ انشاللہ رہے گا
دجال نہ مکہ میں داخل ہوسکے گا نہ مدینہ میں
اپنے حسد میں جل مرے مردود
 
Top