کیا آپ ان مزارات کو توڑنے کی وجہ جانتے ہیںِِ؟ قبروں کی پختگی کی تو احادیث میں بھی ممانعت آئی ہے تو پھر مقبروں کا کیا مقام؟ یہ عبرت کی جاء ہے تماشہ نہیں ہے۔ اور پھر جب فتنہء دجال بھی مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں داخل نہیں ہوسکتا تو پھر دوسری بدعتوں کی کیا اوقات ہے۔میں قبروں کی نہیں، اُن قبروں پر بنے مزارات کی بات کر رہا ہوں جنہیں سعودیوں نے توحید کے نام پر نابود کر دیا۔
تبھی تو روضہ اطہر کو بھی زمین کے برابر کرنے کے ارادے ہیں مفتیان کے۔کیا آپ ان مزارات کو توڑنے کی وجہ جانتے ہیںِِ؟ قبروں کی پختگی کی تو احادیث میں بھی ممانعت آئی ہے تو پھر مقبروں کا کیا مقام؟ یہ عبرت کی جاء ہے تماشہ نہیں ہے۔ اور پھر جب فتنہء دجال بھی مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں داخل نہیں ہوسکتا تو پھر دوسری بدعتوں کی کیا اوقات ہے۔
جس پانی میں اللہ نے شِفاء رکھی ہے اور جس کا استعمال خود انبیاء اکرام اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت رہا ہے اسے لوگ کیوں نہ معتبر مان کر استعمال کریں گے۔ نیتوں کا جاننے والا اللہ ہے ۔ وہ تو ان کا بھی رب ہے جو اسے چھوڑ کر پتھروں سے مانگتے ہیں۔آبِ زمزم بھی تو لوگ تبرکا واپس لے آتے ہیں۔ کیا پتا سعودی توحید چاہِ زمزم میں بھی مٹی بھروانے پر مجبور ہو جائے۔
کیا آپ ان مزارات کو توڑنے کی وجہ جانتے ہیںِِ؟ قبروں کی پختگی کی تو احادیث میں بھی ممانعت آئی ہے تو پھر مقبروں کا کیا مقام؟ یہ عبرت کی جاء ہے تماشہ نہیں ہے۔ اور پھر جب فتنہء دجال بھی مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں داخل نہیں ہوسکتا تو پھر دوسری بدعتوں کی کیا اوقات ہے۔
میں نے پہلے ہی کہا یہ عبرت کی جاء ہےتماشہ نہیں ہے۔تبھی تو روضہ اطہر کو بھی زمین کے برابر کرنے کے ارادے ہیں مفتیان کے۔
گویا کہ جو لوگ زیارتِ مرقدِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جاتے ہیں وہ وہاں تماشہ کرنے یا دیکھنے جاتے ہیں؟۔ عبرت کی جاء دیکھنے کے لئے کیا ہمارے قریب کے قبرستان کافی نہیں ہیں ؟۔ لگتا ہے عقیدت کا مطلب تک آپ کو معلوم نہیں۔میں نے پہلے ہی کہا یہ عبرت کی جاء ہےتماشہ نہیں ہے۔
بھائی جی اب یہ بھی خود پر بوقتِ ضرورت سنیوں کا لیبل لگا لیتے ہیں۔بدعت ودعت کی بحثوں کو سائڈ پر رکھیے۔ وہ مزارات مسلمانوں کا تاریخی ورثہ تھے جنہیں سعودی شریعت نے ہڑپ لیا۔
اور کیسی بدعت؟ کس کے نزدیک بدعت؟ ائمۂ اہل بیت کے مزارات تو شیعہ مسلمانوں کے لیے روضۂ رسول کے بعد سب سے مقدس مقامات تھے۔ کیا کوئی سنی حضرت عثمان کے مزار کے ڈھائے جانے پر راضی ہوتا؟ کیا صرف ایک وہابی مبلغ کے بدعت کے فلسفے کے خاطر ہم اپنے مقدس مقامات نابودی کی نذر کر دیں؟
روضہ اطہر کے بارے میں آپ کا یہ ریمارک انتہائی افسوسناک ہے۔۔ کسی چیز کو جب مقامِ عبرت کہا جاتا ہے تو یہ عموماّ (بلکہ تقریباّ ہمیشہ ہی) منفی معنوں میں استعمال ہوتا ہے، چنانچہ آپکا روضہ رسول کی زیارت کے عمل کو تماشا یا سیر سے تشبیہہ دینا اور پھر بزعمِ دینداری، عبرت پکڑنے کا مشورہ دینا دونوں ہی قبیح ترین خیالات کی غما زی کرتا ہے۔۔۔میں نے پہلے ہی کہا یہ عبرت کی جاء ہےتماشہ نہیں ہے۔
مستنصرحسین تارڑ نے اپنی کتاب "غار حرا میں ایک رات " میں اس مقام اور وہاں اپنی زیارت کا بڑا مفصل تذکرہ کیا ہے۔اور تو اور احد کے پہاڑ میں ایک مقام کو اس سال کنکریٹ سے بھر دیا گیا ہے جس کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زخمی ہو کر آرام فرمایا تھا اور وہاں سر مبارک کا نشان تھا ۔۔
میں نے پہلے ہی کہا یہ عبرت کی جاء ہےتماشہ نہیں ہے۔
بصد احترام عرض ہے کہ قرآن جس دن نازل ہوا، اسی دن اس پر اعراب ”موجود“ تھے۔تبھی تو روضہ اطہر کو بھی زمین کے برابر کرنے کے ارادے ہیں مفتیان کے۔
ویسے بدعت سے یاد آیا ، کچھ تاریخ کھنگالئے اور بتائیے کہ قرآن پاک پر اعراب لگانے کی عظیم ترین ”بدعت“ کا ارتکاب کب اور کس نے کیا؟۔
برادر من!واقعی سوچنے کی بات ہے۔۔۔ اگر عقیدت مند جا کر کسی مزار کو بوسہ دے دیں تو بدعت و حرام (بلکہ کچھ نا سمجھ تو شرک ہی قرار دے دیتے ہیں)۔۔۔ مگر سعودی شاہ زادے ایک دوسرے کے گالوں کو بوسہ دیں وہ جائز؟ میں نے تصاویر میں ایسا دیکھا ہے کہ سعودی شاہانِ کرام جب بھی کسی سے ملتے ہیں تو گال چومتے ہیں۔۔۔
ویسے پس نوشت عرض ہے کہ اہل سنت علماء کے نزدیک مزار کو بوسہ دینا منع ہے۔
یہ بھی بتادیجئے کہ یہ اصول نمبر ایک اور دو،کدھر سے نکالے ہیں آپ نے؟حرام و حلال کا بنیادی اصول یہ ہے کہ:
واللہ اعلم بالصواب
- دینی عقائد و عبادات و رسومات میں صرف اور صرف وہی جائز ہے، جس کا حکم قرآن و صحیح احادیث میں موجود ہے اور جس کا عملی نمونہ دور رسالت صلی اللہ علیہ وسلم اور ادوار صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما میں ملے۔ ان کے علاوہ اور تمام ”دینی عقائد، عبادات اور مذہبی رسومات“ حرام اور بدعت ہیں۔ (مثلاً کسی بھی عالم دین نے کبھی بھی 14 اگست یا 6 ستمبر کی ”تقریبات“ کو ”بدعت“ قرار نہیں دیا لیکن شب برات، محرم اور ربیع الاول وغیرہ کی ”تقریبات“ کے بارے میں آپ بھی علمائے کرام کی رائے جانتے ہیں، اختلاف رائے کے باوجود)
- دنیوی معاملات میں سب کچھ جائز و حلال ہے الا یہ کہ جسے قرآن و صحیح احادیث میں ”حرام“ قرار دیا گیا ہو۔ مثلاَ تمام جانور کھانے کے لئے حلال ہیں ماسوائے ان جانوروں کے، جنہیں حرام قرار دیا ہو۔ اسی طرح تمام اعمال حلال ہیں ماسوائے ان اعمال کے جنہیں قرآن و احادیث میں حرام قراردیا گیا ہو