بصد احترام عرض ہے کہ قرآن جس دن نازل ہوا، اسی دن اس پر اعراب ”موجود“ تھے۔
- قرآن ”زبانی“ نازل ہوا تھا، تحریری نہیں۔ اور نبی کریم صلکی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ادا ہونے والے ”زبانی قرآنی آیات“ میں بھی اعراب ”موجود“ تھے ۔ ”بغیر اعراب والے الفاظ“ کو کئی طرح سے پڑھا جاسکتا ہے۔ کیا ابتدا میں قرآنی آیات کو ”اپنی مرضی کے تلفظ“ کے ساتھ پڑھا جاتا تھا، یا یہ تلفظ بھی الفاظ اور حروف کی طرح ”متعین“ تھے۔ اگر متعین تھے اور یقیناً تھے تو ”بغیر اعراب“ کے یہ ممکن ہی نہیں۔ اہل زبان بغیر اعراب کے لکھے ہوئے جملوں کو بھی اعراب کے بغیر درست پڑھ سکتے ہیں۔ جیسے ہم اردو دان ”ملک“ کو سیاق و سباق کے ساتھ بالکل درست اعراب (تلفظ) کے ساتھ پڑھنے پر قادر ہیں۔ اور یہ تو آپ بھی جانتے ہوں گے کہ لفظ ”ملک“ مختلف اعراب کے ساتھ مختلف تلفظ اور مختلف معنی دیتا ہے۔ گویا ”ملک والے ہر جملے“ میں ملک پر الگ الگ اعراب ”موجود“ ہوتے ہیں (لکھے نہیں ہوتے) اور ہم اردو دان اہل زبان اسے بالکل درست اعراب و تلفظ کے ساتھ پڑھنے پر قادر ہوتے ہیں۔
- بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ قرآن کو پہلے ”غیر منقوط“ تحریر کیا گیا تھا۔ آوازوں میں فرق کی پہچان کے لئے نقاط بعد ”لگائے“ گئے۔ اسی طرح اعراب بھی بعد میں ”لکھے“ گئے۔ اعراب ”لکھے ہوئے“ نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ کہ وہ تھے ہی نہیں۔ ہم یہ جو اردو لکھ رہے ہیں، اس میں بھی اعراب ”موجود“ ہیں (البتہ لکھے ہوئے نہیں ہیں۔) اور ہم اہل زبان اسے ”بخوبی پہچان“ کر پڑھتے ہیں۔
- ”بدعت“ پر تفصیلی گفتگو پھر کبھی کہ بعض لوگ تو اپنی ”بدعت“ کے جواز میں یہ بھی فرماتے ہیں کہ (مثلاًً) جہاز پر سفر کرنا بھی تو ”بدعت“ ہے ہر وہ کام، عبادت یا عقیدہ جو ”مذہبی و دینی“ نیت سے کی جائے، اور جس کی مثال دور رسالت صلی اللہ علیہ وسلم اور ادوار صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما میں نہ ملے، وہ بدعت ہے۔ ”دنیوی امور“ میں کوئی شئے یا کام شرعاً بدعت نہیں کہلاتا۔
واللہ اعلم بالصواب
اتنی لمبی وضاحتوں کی ضرورت نہیں تھی ویسے تو۔ یہاں الحمد للہ سارے ہی بہت جاننے والے لوگ ہیں سوائے میرے۔ مجھ جیسے اجہل الجاہلین کو بھی یہ ساری باتیں بچپن سے معلوم ہیں۔ بحمد اللہ تعالیٰ
آپ کے خیال میں قرآن کی سات عدد قراءات کی جو روایات ہیں وہ کیا ہیں؟
اعراب جو آپ دیکھتے ہیں اپنے ملک میں وہ مشہور قراءت کے ہیں۔ باقی قراءات میں الحمد للہ الگ طریقے سے پڑھا جاتا ہے تو تلفظ بدل گیا ۔ جہاں تک بات ہے نحوی اعراب کی تو ان کے بغیر تو کلمہ (گریمر والا) مکمل نہیں ہوسکتا، ظاہر سی بات ہے۔
برادر من!
بوسہ تو ہم سب اپنی اپنی بیویوں کو بھی دیتے ہیں، اپنے بچوں کو بھی دیتے ہیں ۔ ۔ ۔ پھر تو یہ بھی بدعت، حرام یا شرک ہوا (نعوذ باللہ)
- ”بدعت“ کا تعلق ”دینی امور“ سے ہوتا ہے۔ ”دنیوی امور“ سے نہیں۔ اب آپ خود دیکھ لیں کہ جو لوگ ایک دوسرے کو (مرد، مرد کو، عورت، عورت کو، ازواج ایک دوسرے کو، والدین بچوں کو) بوسہ دیتے ہیں، وہ ”دینی و مذہبی فریضہ“ سمجھ کر دیتے ہیں یا ”دنیوی امور“ سمجھ کر
- اسی طرح جو لوگ بزرگان دین کے مزار کو ”بوسہ“ دیتے ہیں، وہ اسے ”دنیوی امور“ سمجھ کر ایسا کرتے ہین یا ”دینی جوش و جذبہ“ کے تحت ایسا کرتے ہیں۔ پھر فیصلہ خود کر لیں۔
حرام و حلال کا بنیادی اصول یہ ہے کہ:
- دینی عقائد و عبادات و رسومات میں صرف اور صرف وہی جائز ہے، جس کا حکم قرآن و صحیح احادیث میں موجود ہے اور جس کا عملی نمونہ دور رسالت صلی اللہ علیہ وسلم اور ادوار صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما میں ملے۔ ان کے علاوہ اور تمام ”دینی عقائد، عبادات اور مذہبی رسومات“ حرام اور بدعت ہیں۔ (مثلاً کسی بھی عالم دین نے کبھی بھی 14 اگست یا 6 ستمبر کی ”تقریبات“ کو ”بدعت“ قرار نہیں دیا لیکن شب برات، محرم اور ربیع الاول وغیرہ کی ”تقریبات“ کے بارے میں آپ بھی علمائے کرام کی رائے جانتے ہیں، اختلاف رائے کے باوجود)
- دنیوی معاملات میں سب کچھ جائز و حلال ہے الا یہ کہ جسے قرآن و صحیح احادیث میں ”حرام“ قرار دیا گیا ہو۔ مثلاَ تمام جانور کھانے کے لئے حلال ہیں ماسوائے ان جانوروں کے، جنہیں حرام قرار دیا ہو۔ اسی طرح تمام اعمال حلال ہیں ماسوائے ان اعمال کے جنہیں قرآن و احادیث میں حرام قراردیا گیا ہو
واللہ اعلم بالصواب
بیویوں کا حوالہ ہم نے تو نہیں مانگا تھا۔ ہم نے مردوں کی بات کی آپ عورتوں کو بیچ میں لے آئے۔۔۔۔۔
ہم نے تو فقط اتنا سا پوچھا تھا کہ کسی کے سنگِ مزار کو چومنا شرک و بدعت کیسے قرار پائے گا؟ حلال وہ ہے جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حلال قرار دیا اور حرام وہ جسے اللہ اور اس کے رسول نے حرام کہا۔ باقی جن باتوں کے لیے خاموشی اختیار کی ان میں کلام ہے۔
ویسے تو کچھ مخالفینِ "بدعات" بڑے زور و شور سے ختمِ بخاری مناتے ہیں اور اس دن لاؤڈ اسپیکر پر نعت خوانی کرتے ہیں اور لنگر کا بھی خاص اہتمام ہوتا ہے۔۔۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جو اندرا گاندھی کو بھی انوائٹ کر کے منچ پر بٹھا دیتے ہیں۔۔۔