آئے ایم!یو شڈ بھی پراؤڈ کہ آپ کی بہن ایک کوئیک لرنر ہے
ویسے اس لسٹ میں آپ بھی آ سکتے ہوآئے ایم!
کونسی لسٹ ؟ویسے اس لسٹ میں آپ بھی آ سکتے ہو
ہی ہی ہی
میری لسٹ جن میں سب کے نام ہیںکونسی لسٹ ؟
یعنی کہ ہٹ لسٹ!میری لسٹ جن میں سن کے نام ہیں
ایکچلی یہ محفل کے نک چڑھے لوگوں کی لسٹ ہے بھیایعنی کہ ہٹ لسٹ!
مشہور و معروف لوگوں پر لکھو بھئی۔۔۔ میں تو مسکین سا بلونگڑا ہوں۔
مشہور معروف لوگوں پر تو سبھی لکھتے ہیں۔ یہاں تو غیر سوشل ایلیمنٹس کی شامت آئی ہے۔یعنی کہ ہٹ لسٹ!
مشہور و معروف لوگوں پر لکھو بھئی۔۔۔ میں تو مسکین سا بلونگڑا ہوں۔
ایکچلی یہ محفل کے نک چڑھے لوگوں کی لسٹ ہے بھیا
آپ بھی اس کی شرائط پہ پورا اترتے ہیں بھیا
ارے ہم تو شکر ادا کر رہے ہیں پروردگار کہ ابھی ہم تمھارے بڑے بھائی ہیں تو تم نے یہ لکھا ہے اگر کہیں چھوٹے ہوتے تو کیا حال ہوتا۔۔۔ہمارے ایک بڑے بھائی ہیں۔۔ ویسے ہیں تو بڑے لیکن خود کو ابھی جوانوں میں شمار کرتے ہیں۔جبکہ ان کی باتوں اورشاعری کے ذوق سے ایسا لگتا ہے کہ ان کا تعلق کسی بہت ہی پرانے شاعر گھرانے سے ہو۔۔ جب دیکھو سفید ململ کا کرتا، چوڑی دار پاجامہ پہنے ، سر پر ٹوپی جمائےمنہ میں پان رکھے دیوان غالب کو ہاتھ میں تھامے شعر رٹنے میں مصروف رہتے ہیں۔ اور اس انتظار میں کہ کب کوئی ہاتھ آیا اور یہ سرکار شروع۔
ہمارے غیر دیوانی ہونے پر لوگوں کا شکر محض ان کا خدا سے تعلق کو ثابت کرتا ہے ورنہ اگر ہمارا اپنا دیوان ہوتا تو لوگوں کی جان جلد چھوٹ جاتی کہ محض سو سوا سو غزلیں ہوتیں لیکن دوسروں کے دیوان سنانے کا عمل تو لا متناہی ہے کہ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں غزلیں موجود ہیں بطور ہتھیار۔اکثر سننے میں آیا ہے کہ لوگ ان سے بات کرتے ہوئے گھبراتے ہیں بہت۔۔ ارے نہیں ۔۔ آپ سمجھے نہیں ۔۔ یہ خود تو اتنے ڈراونے نہیں ہیں لیکن ہاتھ لگنے پر ان کا دیوان غالب کھل جاتا ہے۔
ان کا شکار ہونے والے اس بات پر شکر ادا کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ موصوف ابھی خود صاحب دیوان نہیں ہوئے۔
ہاہاہاہا "فاتح" کا تخلص غالب کا ہم وزن ضرور ہے لیکن وہ تو ہم نے محض دو چار اشعار میں استعمال کیا ہے ورنہ تخلص تو ہم "بشیر" کرتے ہیں لیکن تمھارے اس مراسلے کے بعد اب ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ غالب سے ہماری شاعری کو اور کوئی نسبت نہ سہی کم از کم تخلص کے ہم وزن ہونے کا ہی علاقہ ہونا چاہیے اور آیندہ ہم "فاتح" تخلص برتنا شروع کر دیں۔جناب غالب کے تخلص کے ہم وزن اپنا تخلص رکھتے ہیں اور چچا کے اشعار با حق بھتیجگی ہتھا کر اپنا تخلص چسپاں کر کے سناتے پھرتے ہیں۔ یہ نہیں بلکہ موصوف نے اپنی گرل فرینڈ کا نام بھی چچا کے تخلص کے ہم وزن رکھا ہے تاکہ وہ بھی چچا کے ورثے سے اسی طور پر استفادہ کر سکیں جیسے ذات گرامی کرتی آئی ہے
کیا ہی دانشمندانہ بلکہ سیاستدانانہ اور سازشانہ طور پر ہماری جانب سے دو مختلف مقامات پر (پہلا اور دوسرا) داغے گئے بیانات کو اکٹھا کر کے ہمارے خلاف میزائل بنا دیا گیا اور قارئین کو چشمِ تصور بلکہ گوشِ تصور سے ہمیں اس قوالی میں محو دکھایا اور سنایا گیا ہے کہ "میں شرابی شرابی! میں شرابی شرابی! میں شرابی شرابی!"ایک بار ان سے کسی نے پوچھا کہ بھائی صاحب! آپ تو شاعری کی سوجھ بوجھ رکھتے ہو۔ ایک بات آج تک ہمیں سمجھ میں نہ آئی کہ یہ شاعر حضرات ہر دوسرے شعر میں شراب کو کہاں سے لے آتے ہیں۔
بھائی صاحب نے سر اٹھایا اور کہا
لُطفِ مے تجھ سے کیا کہوں زاہد
ہائے کم بخت تُو نے پی ہی نہیں
لیکن جہاں تک بات ہےکہ شعرا کے اصل شراب پینے کی تو غیر شعرا بھی اسی تناسب سے شرابی ہیں جس قدر تناسب سے شعرا۔ اور وہ صاحب اپنا سا منہ لے کے رہ گئے کہ ہم نے تو بس اپنی تسلی کے لیے ایک سوال کیا تھا پر نہ جی ہمارے بھائی صاحب کو بات کا سیدھا جواب دینا کم ہی آتا ہے۔۔
ہمارے معاملے میں تو تخلیل نہیں خلال کہیے حضور۔ ہاہاہاہااپنے تخلیل اور مشاہدے کو صحیح طور پر بھی استعمال کیا
"صاحبِ پوسٹ" اردو، فارسی اور انگریزی کے امتزاج سے کیا ترکیب گھڑی ہے۔۔۔ واہ وا! اور زیرِ ترکیب آئے معصوم کاشفی صاحب۔۔۔ ہاہاہاہاہاایک بار کچھ یوں ہوا کہ ہمارے بڑے بھیا نے ایک شعر پڑھ لیا
وہ کہتے ہیں پرہن گیا کس غضب میں
تسلی مجھے دے کے پچھتا رہے ہیں
پہلے تو ساری ڈکشنریوں کا کھنگالا لیکن "پرہن " کا مطلب سمجھ نہ آیا اور لگے پوچھنے صاحب پوسٹ سے کہ بھائی شاعری تو اچھی ہے ذرا "پرہن" کا مطلب تو سمجھائیے لیکن محفل میں یہ جو اپنی شاعری کا اتنا رعب جما چکے تھے اس کے باعث ان کی بات ماننے کو کوئی تیار نہ ہوا کہ ان کی سمجھ میں ککھ نہیں آیا ہے۔۔۔ اب جاننے والے کیا جانیں کہ موصوف اکثر اوقات ڈکشنری کا استعمال کرتے ہیں۔۔ بس تھک ہا رکر بولے "قبلہ! یہ آپ کا حسنِ ظن ہے کم از کم میری ذات کے متعلق۔۔۔ اس بار واقعی ہمیں خود معلوم نہیں کہ پرہن کا کیا مطلب ہے۔۔۔ خیر امی کو فون کرتا ہوں اور ان سے معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ "
گویا یہ سب ہمارا اپنا کیا کرایا ہے۔۔۔ اگر اسی روز روک دیا ہوتا تو آج یہ دن دیکھنے کو نہ ملتا۔ ہاہاہاہا تم نے ہمارے اسی جواب کو ہماری جانب سے اجازت نامہ مان کر ہمارا خاکہ کھینچ ڈالا۔ سچ کہا ہے بزرگوں نے کہ جو کسی کے لیے گڑھا کھودتا ہے وہ خود اسی میں گرتا ہے۔۔۔ ہاہاہاایک بار غلطی سے ہم ان سے پوچھ بیٹھے کہ "بڑے بھیا! ہم کچھ لکھنا چاہتے ہیں ، کسی کو برا تو نہیں لگے گا۔ آگے سے یہ سننے کے بجائے کہ بیٹا! کوئی ناراض نہیں ہوتا۔۔ ہمیں یہ سننے کو ملا کہ بیٹا جی! آپ غلط بندے سے پوچھ رہے ہو ۔۔ ہم تو آبیل مجھے مار کی آپ مثال ہیں یعنی پنگا لینے والوں سے ہیں۔۔ تب سے ہم نے سوچ لیا تھا کہ ان سے مشورہ نہیں لینا لیکن کیا کریں کہ بھاگتے تب بھی انہی کی طرف ہیں۔۔